جنوبی ایشیا اس وقت تاریخ کے ایک نازک ترین دوراہے پر کھڑا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت، جو ہندوتوا نظریات کی علمبردار ہے، پاکستان پر حملے کے بعد جس طرح کی زبان اور اقدامات کا مظاہرہ کر رہی ہے، وہ کسی مہذب، جمہوری ریاست کے شایان شان نہیں۔ بظاہر ایک طاقت ور ریاست کے دعوے دار بھارت کو جب بھی اندرونی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، وہ پاکستان کو ایک آسان ہدف سمجھ کر جارحیت پر اتر آتا ہے۔ لیکن یہ روش نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس خطے میں تباہ کن جنگ کی بنیاد بھی رکھ سکتی ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تلخ بیانات، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور شدید گولہ باری ،اسلام آباد سمیت کئی شہروں پر حملے اور پھر پا کستانی ائر فورس کے جوابی کامیاب حملےاس بات کی کھلی گواہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں، بلکہ ایک ایسا حل طلب سیاسی اور انسانی بحران ہے جو اگر جلد حل نہ ہوا تو پورے خطے کو آگ و خون میں جھونک سکتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے جس شدت پسندی، آمرانہ طرز حکمرانی اور آئینی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا، اس نے بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا، کشمیری قیادت کو قید و بند میں ڈالنا، میڈیا کو خاموش کرنا، اور لاکھوں فوجیوں کے ذریعے وادی کو ایک قیدخانے میں بدل دینا دراصل ایک پاگل پن کا اظہار ہے جس کا انجام صرف تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔معاملات صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ مودی سرکار نے جس شدت سے ہندو قوم پرستی کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا، اس نے نہ صرف بھارت میں اقلیتوں کو عدم تحفظ کا شکار کیا بلکہ کشمیر میں ایک خطرناک منصوبہ بندی کے تحت مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے کا عمل تیزتر کر دیا۔ زمین کی ملکیت کے قوانین میں تبدیلی، غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تقسیم، اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوششیں درحقیقت ایک ’’ڈیموگرافک وار‘‘کا حصہ ہیں جس کا مقصد کشمیر کو ایک اور فلسطین بنانا ہے۔مودی حکومت کی یہ پالیسیاں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جنیوا کنونشن جیسے بین الاقوامی اصولوں کے بھی صریح منافی ہیں۔ کشمیری صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور مزاحمتی قیادت کو خاموش کر دینے کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کشمیر کو طاقت کے زور پر دبانا چاہتا ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم سے کبھی حق کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔
بہر حال یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسئلہ کشمیر ایک نیوکلئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ دو ایٹمی طاقتوںپاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی وقت اس مسئلے کی چنگاری ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اور ایسی جنگ کے نتائج نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے لیے ہولناک ہوں گے۔ پاکستان بارہا عالمی برادری کو خبردار کرتا رہا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق حل نہ کیا گیا، تو یہ چنگاری ایک دن ایسا شعلہ بن جائے گی جو نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی امن کے تانے بانے کو جلا ڈالے گی۔آج جب جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں، تو دنیا کو چاہیے کہ وہ خوابِ غفلت سے جاگے۔ کشمیر کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیاں، مذہبی جنون پر مبنی پالیسیاں، اور مسلم اکثریتی شناخت کے خلاف جاری یلغار صرف کشمیریوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کے لیے ایک امتحان ہے۔اگر مسئلہ کشمیر کو فوری، منصفانہ اور پائیدار طریقے سے حل نہ کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب یہ چنگاری ایک ایسی آگ میں بدل جائے گی جو صرف کشمیر نہیں، پورے جنوبی ایشیا کو بھسم کر دے گی۔اللہ رحم فرمائے