عمر فاروق
9 جون کو نریندر مودی نے انڈیا کے وزیر اعظم کے طور پر اپنی تیسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالا تو اس کے بعد بننے والی کابینہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 71وزرا شامل ہوئے۔اگر نریندر مودی کی پچھلی دو حکومتوں سے اس کابینہ کا موازنہ کیا جائے تو یہ این ڈی اے حکومت کی اب تک کی سب سے بڑی وزرا کی کونسل ہے۔ انڈیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی مسلم رکن اسمبلی نے بطور وزیر حلف نہیں اٹھایا۔یہی نہیں بلکہ انڈیا کی لوک سبھا میں این ڈی اے کے 293 ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک بھی مسلمان، سکھ یا مسیحی نہیں ہے۔
اٹھارویں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی نے کل 240 سیٹیں جیتیں اور اتحادیوں کے ساتھ اس کی لوک سبھا میں 293 سیٹیں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں سے 61 وزرا کا تعلق بی جے پی اور باقی کا این ڈی اے اتحادیوں سے ہے۔یہ 2014 کے بعد این ڈی اے کے وفاقی وزرا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2014 میں کل 46 وزرا نے حلف اٹھایا تھا۔ 2019میں کونسل میں وزرا کی تعداد 57تھی۔
بی جے پی کے پہلے دو ادوار کے دوران ایک مسلمان کو مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور بنایا گیا تھا۔ 2014میں ڈاکٹر نجمہ کو مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور بنایا گیا تھا۔ راجیہ سبھا کی سابق رکن اسمبلی نجمہ اس وقت منی پور کی گورنر ہیں۔2019 میں وزیر اعظم مودی نے اقلیتی امور کا محکمہ مختار عباس نقوی کو سونپا تھا لیکن 2022 میں تین سال بعد انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے بعد سمرتی ایرانی کو محکمہ اقلیتی امور کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک بھر کی مختلف اسمبلیوں میں بی جے پی کے ایک ہزار سے زیادہ ایم ایل اے ہیں لیکن ان میں صرف ایک ہی مسلمان ایم ایل اے ہے۔
بھارت میں ا س وقت مسلمانوں کی تعداد تقریبا 20 کروڑ ہے اور کل آبادی میں ان کا حصہ 14.2 فیصد بنتا ہے۔ انڈیا کی ریاست یوپی میں چار کروڑ مسلمان رہتے ہیں اور ریاست کی کل آبادی میں ان کا حصہ 19 فیصد ہے۔مگر مسلمانوں کونظراندازکیاجارہاہے اورانہیںمسلسل دیوارسے لگایاجارہاہے۔18ویں لوک سبھا کے لیے ہونے والے انتخابات میں 24 مسلم اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں، جن میں سے 21 کا تعلق کانگریس کے زیراہتمام قائم ہونے والے حزب اختلاف کے اتحاد انڈیا میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی نے ماضی میں کبھی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا لیکن بی جے پی کے ٹکٹ حاصل کرنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 2014کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے سات مسلمان امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا جبکہ 2019 میں بی جے پی نے چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا۔تاہم 2014 اور 2019 میں بی جے پی کا ایک بھی مسلمان امیدوار الیکشن نہیں جیت سکا۔حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے ایک مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا۔بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا پہنچنے والے آخری مسلم ایم پی شاہنواز حسین تھے جو 2009 میں کامیاب ہوئے تھے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو انڈیا میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں مل سکی۔ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی تقریبا پانچ فیصد رہی ہے اور الیکشن لڑنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 115 مسلمان امیدوار تھے، جب کہ 2024 میں یہ تعداد کم ہو کر 78 رہ گئی۔تیسری انتخابی مہم میں بھی مودی نے مسلسل مسلمان مخالف بیانیے کا استعمال کیا۔ تیسری بار اقتدار حاصل کرنے پر مودی نے لوک سبھا میں سے مسلمانوں کی نمائندگی بھی صفر کردی۔

خطے کی جغرافیائی سیاست اب تبدیل ہو چکی ہے لیکن بھارت آج بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی سیاست کا شکار ہے۔ مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت حکومت اکثر بھارت کی اقلیتی برادریوں خصوصا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے، 2002 کے گجرات فسادات کے بعد ہونے والے انتخاباتی مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا سرکار کو ریلیف کیمپ چلانا چاہیے؟ کیا ہمیں مسلمان بچے پیدا کرنے کے مراکز کھولنے چاہیں؟
مسلمانوں کوسیاسی طورپرپیچھے دھکیلنے کے ساتھ ساتھ گاو ماتا کی رکھشا کے نام پرآئے روزمسلمانوں کوقتل کیاجارہاہے۔ کسی مسلمان کے پاس سے گوشت برآمد ہوجائے توبغیرکسی تصدیق یالیبارٹری ٹیسٹ کے اس گوشت کوگائے کاگوشت قراردے کرانہیں ماراجارہاہے۔بھارت کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس بات کوتسلیم کرچکی ہیں کہ گائے کے گوشت کے نام پربے گناہ مسلمانوں کونشانہ بناکران کے گھروں کومسمارکردیاجاتاہے۔
مودی نے حالیہ الیکشن میں اعلان کیاتھا کہ وہ شہریت کے قوانین اورسٹیٹ سبجیکٹ کے حوالے سے تبدیلیاں لائیں گے انڈیاکی حکومت غیرقانونی تارکین وطن کی نشاندہی کے لئے نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنزکاعمل شروع کرنے جارہی ہے۔جہاں تک سٹیزن شپ ایکٹ (سی اے اے)کاتعلق ہے،یہ قانون بظاہرپاکستان اوربنگلہ دیش سمیت ہمسایہ ممالک کے خلاف بنایاگیاہے۔یہ قانون 11دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کیاگیا۔اس ایکٹ سے سے مسلمانوں اوردیگراقلیتوں میں عدم تحفظ کااحساس پیداہوگیاہے۔

بھارت کے متنازع ترین قانون این آر سی کوسادہ لفظوں میں بیان کریں تووہ یہ ہے کہ ہربھارتی شہری خاص کرمسلمانوں کو یہ ثابت کرناپڑے گاکہ وہ اوران کے والدین 1951 سے پہلے بھارت کے شہری ہیں۔ایسا انھیں زبانی کلامی نہیں بلکہ دستاویزات کے ساتھ ثابت کرناپڑے گا کہ انھیں بھارت میں رہنے کاحق حاصل ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اگرکسی مسلمان کے پاس بھارت کانیشنل کارڈ یاجمع کرائے گئے ٹیکسوں،سرکاری یوٹیلیٹی بلوں وغیرہ کی تفصیلات ہیں توانھیں بھی ناکافی قراردیاگیاہے۔اب غریب مسلمانوں کے لئے یہ بہت مشکل ہوگیاہے کہ وہ اپنے آبا واجداد کی بھارتی شہریت ثابت کریں۔ایسے مسلمانوں کوکہاجارہاہے کہ وہ پاکستان یابنگلہ دیش چلے جائیں۔جبکہ غیرمسلموں کوخاص کربنگلہ دیش سے آنیوالے ہندوئوں کو دستاویزات نہ رکھنے کے باوجود بھارتی شہریت دی جارہی ہے تاکہ وہ بی جے پی کے ووٹرزبنیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت میں متنازع قوانین سمیت مسلمانوں کے خلاف جوکچھ ہورہاہے کیا یہ سب محض اتفاق ہے یاکسی سوچے سمجھے منصوبے کاحصہ ہے اس کاسیدھا ساداجواب یہ ہے کہ یہ اتفاق نہیں۔یہ بی جے پی کاایجنڈا اورسوچاسمجھامنصوبہ ہے کہ وہ سیکولربھارت کوایک ہندو ریاست میں بدل رہے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں بھارت کاسیکولر طبقہ اوراِن قوانین کی مخالف سیاسی جماعتیں بے بس نظرآتی ہیں۔بی جے پی کامنصوبہ صرف پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ وہ خطے کے تمام مسلم ممالک اوربھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی ہے۔بی جے پی کے ایجنڈے سے جتناخطرہ پاکستان کوہے اتناہی بنگلہ دیش اور مالدیپ،یہاں تک کہ غیرمسلم ممالک نیپال اورسری لنکا کوبھی ہے۔فاشسٹ بھارتیہ جنتاپارٹی ہٹلر کی طرح اپنانظریہ پورے جنوبی ایشیاپرمسلط کرناچاہتی ہے۔
٭٭٭