
دجال: احادیث کی نظر میں الدجالون الکذابون۔
پچھلی قسط میں ہم تاریخ کے دو بڑے جھوٹے دجالوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کرنے کی جسارت کر ڈالی۔ اور یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر نبوت میں حصہ بھی مانگ لیا۔ اپنے معتقدین میں خود اپنے دجل کو ہوا دی اور بڑے فتنوں کا باعث بنے۔ اپنی من گھڑت شریعتیں تک بنا ڈالیں۔ اور معجزات دکھانے کی جسارتیں بھی کیں۔
یہ دو جھوٹے دجال، کذاب یمامہ اور اسود عنسی تھے اور کذاب یمامہ مسیلمہ، جنگ یمامہ میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا اور دوسرا ذاتی قبیح حرکتوں کی وجہ سے قتل ہوا۔
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ انسان کی نفسیات، صلاحیتوں، اور کمزوریوں سے گہری دلچسپی اور آگاہی رکھتا ہے۔ اس کے پاس ہر شخص کو گمراہ کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ شیطان کسی کو نفس کی حوس، کسی کو علم، کسی کو دولت، کسی کو عہدے، کسی کو پارسائی، کسی کو چالاکی اور کسی کو سادگی کے اندر رہ کر گمراہ کرنے کے طریقے جانتا ہے۔ شیطان سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالی محفوظ و مامون رکھے۔ صرف انبیاء اللہ کی تائید اور حفاظت کی وجہ سے اس کے حملوں سے بچ سکتے ہیں۔ شیطان طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے زاہدوں، عالموں اور ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے اور انہیں طرح طرح کے داموں میں پھنسا کرگمراہ کرتا ہے۔ کسی کو تکبر و نخوت پر ڈال کر، کسی کو دولت کی ہوس دے کر، تو کسی کو ریا کاری کے ذریعے حرام میں ڈال دیتا ہے۔ تصوف کے میدان والے وہ لوگ جو بے مہار ہوں وہ بھی جلد شیطان کا چارہ بنتے ہیں۔ شیطان ان میں سے کسی کو کہتا ہے تیرے معتقدین بہت زیادہ ہیں۔ تو اللہ کی طرف سے غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے اس لیے تو مہدی موعود ہے، کسی کے کان میں کہتا کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے، کسی کو حلال و حرام کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے، تو کسی کے دل میں یہ القاء کرتا ہے کہ تو اللہ کا نبی ہے اور بدنصیب عابد اس پر یقین کر لیتا ہے۔ یہ شیطان کی نورانی شکل اور آواز کو سمجھتا ہے کہ یہ خود خداوند قدوس کا جمال اور کلام ہے جسے دیکھ اور سن رہا ہے۔ شیطان اسے سوتے میں خوب مزے دار اور خدائی کے خواب دکھاتا ہے۔ ان نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ بھی ایسی ہی واردات ہوئی۔ ان کے معتقدین بھی کمزور اعتقاد والے، شیطان کے چیلے اور حواری ہوتے ہیں۔
اب ہم کچھ مزید جھوٹے دجالوں کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں اور ان کے دجل کا طریق کار بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
حارث بن عبد الرحمن بن سعید۔۔۔ دمشقی
کذاب حارث بن عبد الرحمن بن سعیدپہلے ایک شخص ابو جلاس عبدی قریشی کا غلام تھا۔ مالک کی وفات کے بعد آزاد ہوا تو یاد الٰہی میں تصوف کے راستے پر چلا۔یہ دن رات عبادت میں مصروف رہنے لگا۔ بہت کم غذا کھاتا۔ بہت نفس کا مجاہدہ کرتا۔ کم سوتا، کم بولتا اور صرف ستر ڈھانپنے کی حد تک پرانے پیوند لگے کپڑے کا استعمال کرتا۔ اس کے زمانے میں عبادت و ریاضت میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اگر یہ زہد و ریاضت اور مجاہدے شریعت محمدی کے دائرے میںہوتے تو کمال ہوتا۔ لیکن شومئی قسمت، اس بے مہار زاہد کو معلوم نہ تھا کہ شیطان اس کا رہنما بن گیا ہے۔ اور وہ اس وقت تک کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ اسے ضلالت و ہلاکت ابدی کے تحت قہر مذلت تک نہ پہنچا دے۔
یہ شخص کچھ کرامات بھی کرتا، جنہیں اس کے ماننے والے معجزات نبوت سے تعبیر کرتے۔ آج کے دور میں بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ کچھ لوگ آج بھی بعض خارق عادت چیزیں کر سکتے ہیں۔ جن کا صدور دوسرے عام لوگوں سے نہیں ہوسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کام پر سو فیصد توجہ دینے والا شخص اور جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے۔ جن کے لیے اللہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ ان افعال کی مثالیں ہمیں ٹیلی پیتھی، یوگا کی مشقوں، علم نفسیات کی کچھ افعال اور ہپناٹزم میں بھی ملتی ہیں۔ ان خارق عادت کاموں کو انجام دینے والے اہل اللہ میںسے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ یا بدعتی لوگ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہا جاتا ہے۔ تعلق باللہ اور قرب الٰہی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں عام لوگ جانے یا انجانے میں گمراہی کے راستے اختیار کر لیتے ہیں۔ حارث دمشقی بھی اپنے مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسی خرافات کرتا تھا مثلا وہ لوگوں سے کہتا کہ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو آتے جاتے دکھا سکتاہوں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ بہت حسین و جمیل خوبصورت انسان گھوڑوں پر سوار آسمان کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ شخص موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے پھل لوگوں کو کھلاتا۔بہت لمبی لمبی عبادات کرتا جو دوسروں کے لیے ممکن نہ ہوتیں۔
جب حارث نے شہرت اختیار کر لی اور لوگ جوق در جوق گمراہ ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوط ایمان رکھنے والا دمشق ہی کا ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تم کس بات کے دعویدار ہو؟ حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے۔ حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔اس کے بعد اس شخص نے حارث کے دعویٰ نبوت اور دجل عظیم کی شکایت خلیفہء وقت عبدالملک بن مروان سے کی۔ عبدالمالک بن مروان نے حکم دیاکہ حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے لیکن گرفتاری سے پہلے ہی حارث بیت المقدس کی طرف فرار ہو گیا۔ اور اپنی نبوت کا پرچار کیا اور لوگوں کو خوب گمراہ کرنے لگا۔
جاری ہے۔۔