
مسلمانوں کے ہاں دجال کے لیے مسیح الدجال کی اصطلاح کا استعمال
جیسے کے پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ یہ ایک ذومعنی اصطلاح ہے جس کا مختلف مذاھب اپنے عقیدے کے مطابق مطلب لیتے ہیں۔ یہودی اپنے عقیدے کے مطابق اور عیسائی اپنے عقیدے کے مطابق۔
ہم مسلمانوں کے ہاں بھی اس بڑے دجال کو مسیح الدجال کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کا وہ عقیدہ ہے جو احادیث میں فتنہ دجال کو ایک شخصی مثال کے طور پر personify کر کہ بیان کیا گیا ہے۔ کہ دجال اکبر کی ایک آنکھ یا منہ کے دو حصوں میں سے ایک حصہ مسح ہے یا ایک آبرو مسح شدہ یعنی مٹا ھوا ہے۔ یا وہ ایک آنکھ یا ایک رخ سے دیکھتا ہے یعنی کانا ہے اور مسخ شدہ حصے کو”ممسوح” کہا جاتا ہے۔ اس لئے اس مناسبت سے اسے مسلمانوں کے ہاں مسیح الدجال(چہرے کا ایک مسح شدہ حصہ والا یا مسح شدہ آنکھ والا دجال) کہا جاتا ہے۔
بقول (محمد ابن العثیمین)
ہذہ اللفظۃ تطلق علی الصّدّیق وعلی الضّلّیل الکذاب،
فالمسیح عیسی بن مریم علیہ السلام الصدیق،
والمسیح الدجال: الضلیل الکذاب، فخلق اللہ المسیحین أحدہما ضد الآخر:
فعیسٰی علیہ السلام مسیح الہدی، یبرء الأکمہ والأبرص ویحی الموتی بإذن اللہ. والدجال – لعنہ اللہ – مسیح الضلالۃ یفتن الناس بما یعطاہ من الآیات کإنزال المطر، وإحیاء الأرض بالنبات وغیرہما من الخوارق
وسمی الدجال مسیحا لأن إحدی عینیہ ممسوحۃ، أو لأنہ یمسح الأرض فی أربعین یوما، والقول الراجح ہو الأول لما جاء فی الحدیث الذی رواہ مسلم (إن الدجال ممسوح العین)رواہ ابن ماجۃ
ممسوح کا اصطلاحی مطلب ہے ایسا فتنہ بھی ہے کہ ” تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہو”
یا سر تا پا دجل سے عبارت شخصیت ۔۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ارشاد ھے کہ
”الدجال ممسوح العین ”
اصل سوال:
دجال کون ہے؟؟، اس کی نشانیاں اور پہچان کیا ہو گی؟؟ وہ کب آئے گا؟؟ اور کہاں آئے گا؟؟ کتنا عرصہ باقی ہے؟؟ ابھی تک دنیا کو تاراج کرنے میں دجال کے راستے میں کیا رکاوٹیں ھیں۔ دجال کا طریقہ اتنا خفیہ کیوں؟؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر اس شخص کے ذہن میں آتے ہیں جو دجال کے متعلق کچھ جانتا ہے۔ تاکہ وہ یہ معلوم کر سکے کہ وہ دور دجال سے کتنا دور ہے، اور اگر دجال اس کی زندگی میں ا جائے تو وہ اسے کس طرح پہچان کر اس سے بچ سکتا ہے۔ آگے چل کر ہم انہی سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے۔
یاد رہے کہ آئیندہ تحریروں میں یہود، دجال اور شیطان اور طاغوت کے الفاظ مشترک معنوں میں استعمال ہوں گے۔
کیوں کہ یہ ایک ہی حقیقت کے کئی روپ ہیں۔
دجال کون ہے؟؟
کہنے کو دجال کے بارے میں سننا یا پڑھنا ایک دلچسپ میدان ہے۔ اور ہر قاری کوشش کرتا ہے کہ اس کے پاس اس طرح کی معلومات موجود ہوں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ دو اور دو چار کی طرح اسے پتہ چل جائے کہ دجال کون ہے اور کہاں ہے؟؟؟ لیکن میرے نزدیک یہ اتنا آسان کام نہیں جتنا دکھتا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لئے ایک خاص علمی معیار کی ضرورت ہے۔ فہم قرآن و حدیث، تذکیر بایام اللہ(تاریخ اقوام سابقہ)، اصول تطبیق حدیث وغیرہ کے علاؤہ شیطان کی حقیقت، یہود کے مذھبی و شیطانی تصورات و عقائد اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی دشمنی اور ان کی گھناؤنے کردار کو جاننا ضروری ہے۔
جیسے کہ میں اپنی پچھلی تحریروں میں ذکر کر چکا ھوں کہ یہود کئی صدیوں سے دجال کی راہ ھموار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں کو یہ شیطانی جال دنیا میں بچھانے کے لیے اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟؟ اور ان کے سامنے اصل رکاوٹ کیا ہے؟ یہ کام اتنا آہستہ اور گھناؤنا کیوں ہے؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں
1.انسانی فطرت
2.الہامی مذھبی تصورات۔
اللہ کا ارشاد ہے: فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا
یعنی اللہ ہی کی فطرت پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ انسان اپنی جبلت اور فطرت میں اسلام ہی لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسے ضمیر کی آواز اور حق و باطل میں فرق کی صلاحیت قدرتی طور پر ودیعت کی گئی ہے۔ ارشاد ہے :فالھمھا فجورھا وتقوٰھا۔ ہم نے اس کو گناہ اور اچھائی کا فرق الہام کیا ہے۔ لہذا ایک شخص کی فطرت کے خلاف اسے تیار کرنا خاصا مشکل اور دیرپا کام ہے۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب جھوٹ اتنا کثرت سے اور مسلسل بولا جائے کہ وہ فطرت پر حاوی ہو کر سچ لگنے لگے۔ چیزوں کا شیطانی رخ ہی دکھایا جائے کہ نظر اس دجل کی عادی ہو جائے۔ حواس کو مادیت کا عادی کیا جائے۔ روحانیت اور مذھب کے خلاف فرد میں شدید نفرت بھری جائے۔ ظاہر ہے یہ کام کھلے عام کرنا ممکن نہیں۔ اس کو بہت احتیاط سے انتھائی غیر محسوس انداز میں انجام دینا ضروری ہے۔ اس محتاط گھناؤنے اور خفیہ شیطانی کام کو قرآن نے ”خناسیت” کی اصطلاح سے تعبیر کیا اور اس کام کے کارندے کو خناس کہا۔ اور قرآن ہی نے بڑے خوبصورت اور لطیف انداز میں یہ اعلان کر دیا کہ خناسیت کا جال پھیلانے کے اس خفیہ کام میں خود شیطان الجن بنفسِ نفیس اور اس کی شریک جرم انسان بھی شامل ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کام اکیلا شیطان الجن نہیں کرتا۔ قرآن میں ان کی ان گھناؤنی چالوں پر اللہ کی پناہ میں آنے سے یہ تصور دیا گیا ہے کہ یہ چالیں اور یہ خفیہ طریق واردات انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لہذا وہ دانستہ طور پر ان چالوں کا توڑ نہیں کر سکتے۔ اور صرف اللہ کی پناہ، اللہ کی شریعت کی چھتری کے نیچے آئے بغیر بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ارشاد ھے۔قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ
اِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔
ترجمہ: کہہ دو میں لوگوں کے رب کی پناہ میں آیا۔جو لوگوں کا اصل بادشاہ ہے ۔ لوگوں کا اصل معبود ہے۔اس شیطان کے شر سے جو خناس ہے۔وہ خناس جو لوگوں کے سینوں میں (اللہ کے دین فطرت کے خلاف غیر محسوس انداز میں خفیہ اور گھناؤنے ) وسوسے ڈالتا ہے۔یہ (خناس)جنوں اور انسانوں میں سے۔
گویا فطرت انسانی کے خلاف ایک غیر فطری جال کو پھیلانا انتھائی غیر محسوس اور حساس کام ہے ایک بڑا فطری ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ اس بڑے مقصد کی تکمیل کے لیے شیطان اور شیطان صفت انسانوں کو کوئی بھی قربانی دینا پڑ سکتی ہے۔ اس لئے دنیا میں بے حیائی پھیلانے کے لیے یہود کے لیے اپنی عورتوں کی عزتیں خراب کرنا، اپنے آپ کو گالیاں دلوا کر انسانوں کے خیر خواہ ہونے کا لبادہ اوڑھنا، پیسہ بہانا، اور اپنے بندوں کو قتل کرنا یا کروا دینا انتھائی آسان کام ہے۔ یہی تو وہ کام ھیں جس سے وہ انسانوں کو متذبذب کرتا ہے اور عوام کے سامنے اچھا بنتا ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمال ھونے والے لوگوں کو جانوں اور عزتوں کے خطرے اور خرابی کے بعد اس طرح بلیک میل کیا جاتا ہے کہ ان کے لیے دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا شیطان کی عبادت اور اطاعت کے ذریعے کثرت مال اور مفادات کا حصول یا بغاوت کی صورت میں دردناک موت۔ جاری ہے
جناب ڈاکٹر عبد الرئوف کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔معروف عالم دین ،دانشور اور محقق ہیں ۔کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیںاور بلامعاوضہ لکھتے ہیں