مظلوم کشمیر

شاعر:انعام الحق انعام(اسلام آباد)

(قلم کاروان،منگل مورخہ5ستمبر2023میں پیش کی گئی)

یہ سرخ لہو یارو چھپ جائے گا کیا جانے
دیکھیں گی ابھی نظریں کیا اور خدا جانے

جلتے ہوئے گھر آنگن شعلوں میں دبی آہیں
آزادی سے جینے کی مسدود سبھی راہیں
بچوں سے بھرے مقتل فرعون کو شرمائیں
صیاد کو حاصل ہیں محفوظ کمین گاہیں

وارفتہ مزاجوں کی منزل کو خدا جانے

جب بند ہوں دروازے ہو مہر زبانوں پر
جب ظلم کی تاریکی پھیلی ہو زمانوں پر
اظہار کی ہر صورت لٹکی ہو سنانوں پر
مجبوروں کی جاں لینا جائز ہو گمانوں پر

کس روزنِ زنداں سے در آئے ہوا جانے

جذبوں کو کچلنے کی بارود سے تدبیریں
جینے کی تمنا پر ہیں موت کی تعزیریں
قوت سے تراشیدہ پندار کی زنجیریں
دیواریں ہی دیواریں تصویریں ہی تصویریں

پھیلے گی ابھی کتنی تصویرِ حنا جانے

اے کاش نہ یوں بے بس مظلوم کی آہ ہوتی
لاشوں کے تڑپنے پر ہر آنکھ گواہ ہوتی
انسان کے گرنے کی کوئی تو اتھاہ ہوتی
خوں ریزی بہر صورت محسوس گناہ ہوتی

اے کاش کہ ہر انساں ظالم کو برا جانے

ہے کفر تو صدیوں سے اب بھی اسے رہنا ہے
ظالم کی حکومت کو چلتے نہیں دیکھا ہے
تاریخ سے انساں نے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے
قوت کا نشہ اکثر خوں پی کے بھڑکتا ہے

یہ رسم ہے انسان کو کس طور روا جانے

اس دور کے سورج سے اک رات جھلکتی ہے
خود علم کی وسعت بھی منزل کو ترستی ہے
اپنی ہی حرارت سے ہر لحظہ پگھلتی ہے
پھر کوکھ تمدن کی وہ زہر اگلتی ہے

تریاق سے پہلے ہی آجائے قضا جانے

سچائی کے سوتوں کو اب کون دبائے گا
ایمان کے شعلوں کو کیا کفر بجھائے گا
معبود پہاڑوں کو کس طور ہٹائے گا
اک اوجِ ہمالہ سے کس کس کو گرائے گا

گنگا کا پجاری ہے پتھر کو خدا جانے

یوں دیکھا ہے جذبے ہی تعزیر سے جیتے ہیں
زنجیر کے زندانی شمشیر سے جیتے ہیں
تصویر بنے پھر بھی تقریر سے جیتے ہیں
تنویرِ یقیں لے کر تقدیر سے جیتے ہیں

یہ شوق تو طوفاں میں جینے کی ادا جانے

اک جرم ہے حق تلفی تسلیم کیے جانا
بے مایہ خداؤں کو خود بھینٹ دیے جانا
جو زہر نظر آئے اس کو بھی پئے جانا
جو بول بھی سکتے ہوں وہ ہونٹ سِیے جانا

وہ شان سے جیتا ہے سر جو بھی کٹا جانے

انعامؔ وہاں ذلت مقسوم نہیں رہتی
آزادی تمنائے موہوم نہیں رہتی
کمزور اگر ہو بھی مظلوم نہیں رہتی
وہ قوم زمانے میں محکوم نہیں رہتی

جو آن سے مرنے کی بھرپور ادا جانے

٭٭٭