مودی حکومت آنے سے پہلے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے ایک بنیادی اور اہم فریق پاکستان کے ڈیڑھ سو سے زائد مذاکراتی راؤنڈ ہوچکے تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات ہوتے رہے لیکن مسئلہ کشمیر بحیثیت کو ر ایشو زیر بحث کبھی نہیں آیا۔ بے مقصد اور لامتناہی مذاکراتی عمل کے ذریعے بھارت ایک طرف عالمی برادری کو دھوکا دے رہا تھا کہ خطے میں امن قائم کرنے کیلئے وہ اپنی کوششیں کررہا ہے لیکن دوسری طرف اپنا فوجی قبضہ مستحکم کرنے کے لیے وقت حاصل کررہا تھا اور وہ وقت بڑی مکاری اور چالبازی سے اس نے حاصل کیا۔ حریت پسند عوام کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال اب بغیر کسی کی رکاوٹ کے استعمال ہورہا ہے۔ہزاروں پُرامن شہری جن میں بزرگ، جوان، خواتین اور بچے شامل ہیں، بھارتی زندانوں اور عقوبت خانوں میں شدید مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے انتہائی کربناک زندگی گزار رہے ہیں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔لاکھوں کنال زرعی، باغاتی، جنگلاتی زمین فوج کی تحویل میں تھی ہی اب2019ء سے مزید زرعی زمین اور جنگلاتی زمین کو دفاع کے نام پر قبضے میں لیا جارہا ہے۔اطلاعات کے مطابق پانچ ملین بھارتی شہریوں کو ریاست کی سٹیٹ سبجیکٹ جاری کی جاچکی ہیں اور مزید جاری کرنے کے فرمان جاری ہورہے ہیں،ہر اہم منصب پر غیر ریاستی افسر تعینات ہے اس لئے بلا کسی رکاوٹ کے وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو فلسطین میں صیہونی کررہے ہیں۔جب پوری طرح بظاہر اپنا قبضہ امن اور مذاکرات کے نام پر مستحکم کیا تو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بجائے،اس ریاست کی مسلم شناخت کو بھی ختم کرنے کے اقدامات بڑی سرعت سے شروع کئے۔امن اور مذاکرات کے نام پر مشرف یہ کھیل نہیں سمجھ سکا اور یہ اسی کے ثمرات ہیں کہ جہاں بھیگی بلی شیرنی کی طرح اب دانت دکھارہی ہے اور ان دانتوں سے اب کھل کے اور بے خوف ہوکے کاٹ بھی رہی ہے۔ کوئی اور اس حقیقت کو سمجھے یا نہ سمجھے، کشمیری اس طریقہ واردات کو خوب سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ تاہم اب بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی، غیر حقیقت پسندانہ روش اور فوجی غرور اور عالمی طاقتوں اور اداروں کے دہرے معیار اور سرد مہری کی صورتحال نے پرامن ذرائع کی افادیت مکمل طور پر ختم کردی ہے۔ وہ طبقہ بھی جو کل تک عسکریت اور فوجی حل کا قائل نہیں تھا اب وہ بھی دبے دبے الفاظ میں کہہ رہے ہیں لکھ رہے کہ جارحانہ سیاسی و سفارتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ تیر بہدف مسلح جدوجہد ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان کو سیاسی اور سفارتی محاذ پر اعتماد کے ساتھ جارحانہ انداز میں مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں میں اُٹھانا چاہئے۔ بھارت کشمیریوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے، اس کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے اجاگر کرکے بھارت کو ایکسپوز کروانا چاہئے۔ لیکن معاملہ اب اسی حد تک محدود رکھنا انتہائی مضر اور نقصان دہ اور بے معنی ہے۔شاید اسی طرف توجہ دلانے کیلئے حزب نائب امیر سیف اللہ خالد نے ایک حالیہ انٹرویو میں اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ” بھارت نے پاکستان کو دو لخت کرنے کیلئے جو کردار1971ء میں مشرقی پاکستان میں ادا کیا، حالانکہ بھارت کیلئے کوئی جواز نہیں بنتا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان میں اپنی فوج مکتی باہنی کے لباس میں داخل کرکے بنگلہ دیش معرض وجود میں لائے۔ پاکستان کو ایک بنیادی فریق کی حیثیت سے یہی کردار کشمیر میں ادا کرنا چاہئے، کیونکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم اور بنیادی فریق ہے”۔ تاریخ گواہ ہے ۴۷ سال گزرنے کے باوجود بھارت اور اقوام متحدہ کشمیریوں سے کیے گئے وعدے کو نبھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ان حالات میں پاکستان کو معذرت خواہانہ انداز چھوڑ کر جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہئے۔نریندر مودی کے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرتے وقت ستم رسیدہ کشمیریوں کے جذبات و احساسات ملحوظ رکھنے کے مکلف کو یہ حقیقت ازبر ہونی چایئے کہ مقتول کی وکالت اور قاتل کے ساتھ دوستی بیک وقت چل نہیں سکتی۔اس طرح کی حکمت عملی دشمن کی دشمنی سے زیادہ خوفناک ثابت ہوگی۔اللہ رحم فرمائے
٭٭٭