محمد رضی الاسلام ندوی
آہ، مولانا محمد فاروق خاں کی اچانک وفات کی اطلاع کتنی اذیت ناک ہے۔29جون 2023کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ – مولانا کا قیام عرصہ سے مرکز جماعت اسلامی ہند نئی دہلی میں تھا – معلوم ہوا کہ وہ آج ہی اپنے صاحب زادے برادر مکرم طارق انور خاں اور ان کے بچوں کے ساتھ عید الاضحٰی منانے کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے تھے – میں بھی اپنے وطن آیا ہوا ہوں – افسوس کہ میں ان کے جنازے میں شرکت سے محروم رہوں گا –
مولانا فاروق خاں جماعت کے ان اکابر میں سے ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لیے وقف کردی تھی – وفات کے وقت ان کی عمر 90 برس تھی – ان کا وطن ریاست اترپردیش کا ضلع سلطان پور تھا – وہ 1956 میں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے تھے – اس وقت سے زندگی کی آخری سانس تک انھوں نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ نچوڑ کر تحریک کی آبیاری کی –
مولانا کا اوّلین تعارف ‘شیدائے قرآن’ کا ہے – انھوں نے متعدد پہلوؤں سے قرآن مجید کی خدمت کی ہے – سب سے پہلے انھوں نے جناب ابو سلیم محمد عبد الحی بانی ادارہ الحسنات رام پور کے کہنے پر اس کا ہندی ترجمہ کیا – یہ کام انھوں نے مولانا امانت اللہ اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی کی نگرانی میں انجام دیا – یہ ترجمہ مکتبہ الحسنات سے برابر شائع ہورہا ہے اور ہندی کے مقبول ترجموں میں سے ہے – پھر انھوں نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے اردو ترجمہ قرآن کا ہندی ترجمہ کیا – مولانا نے اردو زبان میں خود بھی اپنا ترجمہ قرآن کیا ہے، جس کے کئی ایڈیشن منظرِ عام پر آچکے ہیں – اس کے علاوہ انھوں نے اردو زبان میں تفسیر بھی لکھی ہے، جس کی کمپوزنگ ہوچکی ہے اور جلد شائع ہونے والی ہے – قرآنی موضوعات پر ان کی بہت سی کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز اور دیگر مکتبوں سے طبع ہوئی ہیں – چند کتابوں کے نام یہ ہیں: شاہ عبد القادر کی قرآن فہمی، انتخاب قرآن، قرآن کے تدریسی مسائل، قرآن کا صوتی اعجاز، قرآن مجید کے ادبی محاسن، ایمائے قرآن، وغیرہ –
مولانا کا پرانی دہلی میں دو مقامات: جامع مسجد دہلی اور مرکز جماعت (چتلی قبر) میں درس قرآن کا برسوں معمول رہا ہے – انھوں نے درس میں پورے قرآن کو پانچ مرتبہ ختم کیا ہے – ان کے دروس میں شرکت کے لیے لوگ دوٗر دوٗر سے آتے تھے – مرکز جماعت (ابو الفضل انکلیو، نئی دہلی) میں منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا درس مسجد اشاعت اسلام میں جاری رہا، لیکن کچھ دنوں کے بعد صحت کی خرابی کی وجہ سے سلسلہ منقطع ہوگیا – ان کے دروس کی اپنی شان ہوتی تھی – قرآنی معارف و نکات اور ایمانی و روحانی اسرار و رموز کے ساتھ آواز کا زیر و بم سامعین کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا تھا –
مولانا فاروق خاں ؒکی شہرت کی دوسری بنیاد ان کا مطالعہ حدیث تھا – تشریحاتِ احادیث پر مشتمل ان کی کتاب ‘کلامِ نبوت’ تحریکی اور غیر تحریکی دونوں حلقوں میں یکساں مقبول ہے – لاکھوں انسانوں نے اس سے فیض اٹھایا ہے – اس کے علاوہ بھی ان کے متعدد مجموعے احادیث، آثارِ صحابہ اور مسنون دعاؤں کے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوئے ہیں – مثلاً: مطالعہ حدیث، دعائیہ چہل حدیث، آثار صحابہ، انتخاب احادیث قدسیہ، حکمت نبوی احادیث کی روشنی میں، آں حضور کی دعائیں – ان کی ایک کتاب ‘علم حدیث – ایک تعارف’ کے نام سے ہے، جس میں حدیث کی اہمیت و مقام، اصطلاحات حدیث اور محدثین کی سوانح بیان کی گئی ہے –
مولانا عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کے ہندی شعبہ کے انچارج رہے – انھوں نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا اور ان کی سربراہی میں دوسروں کے ذریعے بھی ترجمے کا خاصا کام ہوا – ان کے تربیت یافتگان میں مشہور داعی، مصنف اور عالم مولانا نسیم غازی بھی ہیں – مولانا کا ہندو مت کا مطالعہ بہت وسیع تھا – انھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اس موضوع پر متعدد علمی اور تحقیقی کتابیں تصنیف کی ہیں – اردو میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں: خدا کا تصور ہندو دھرم کی کتابوں میں، ہندو دھرم کی کچھ قدیم شخصیتیں، چند ہندوستانی مذاہب، رگ وید ایک تجزیاتی مطالعہ، اسلام کی اہمیت ہندو دھرم کے پس منظر میں –

مولانا روحانی شخصیت کے مالک تھے – لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی والوں کا روحانیت سے کیا واسطہ؟ لیکن مولانا کی روحانیت وابستگانِ جماعت کے درمیان مسلّم تھی اور باہر کے لوگ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے – ان کی تقریریں ہوں یا نجی مجلسیں سب روحانیت اور تربیت و تزکیہ کی باتوں سے معمور ہوتی تھیں – ہندو مت کی مذہبی شخصیات بھی مولانا کی گفتگو سے بہت متاثر ہوتی تھیں – مولانا کی تصانیف سو سے متجاوز ہیں، جن میں سے بیش تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہیں – چند مزید کتابوں کے نام یہ ہیں: تزکیہ نفس اور اخلاق، تزکیہ نفس اور ہم، تکریم نفس اور اسلام، تربیت کے فکری و عملی پہلو، خدا کیا اور کہاں؟، خدا کی پُر اسرار ہستی کا تصور، کلمہ سواء، آخرت کے سایے میں، آئین اسلام، اسماء حسنی، امت مسلمہ کا منصب و مقام، توحید اور مسائل حیات، علوم نبوت، عرفانِ حقیقت، کائنات آئین حقیقت، کائنات میں اللہ کی نشانیاں، فطری نظام معیشت، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت، حقیقت نبوت، حقیقی تصوف، دعوت اسلام اور اس کے اصول و آداب، دعوت دین اور اس کے کارکن، دعوت دین کے مضمرات، خواتین اسلام کی علمی خدمات، وغیرہ –
مولانا شاعر بھی تھے – وہ فراز سلطان پوری تخلّص رکھتے تھے – ان کا کلام بہت پہلے ‘حرف و صدا’ کے نام سے شائع ہوا تھا – کچھ عرصہ قبل اضافہ شدہ اڈیشن ‘لمعات’ کے نام سے ھدایت پبلیکیشنز نئی دہلی طبع ہوا ہے – میں نے ان کا کلام ان کی زبانی سنا ہے – عرصہ پہلے ایک غزل سنی تھی – اس کا ایک شعر اب تک حافظہ میں محفوظ ہے:
یہ کس نے کہا مت خطا کیجیے
جب خطا کیجیے رو لیا کیجیے
مولانا فاروق خاں ادارہ تحقیق و تصنیفِ اسلامی علی گڑھ کے بانیوں میں سے تھے – 1981 میں ادارہ کی تشکیلِ نو کے وقت مولانا صدر الدین اصلاحی کو صدر اور مولانا سید جلال الدین عمری کو سکریٹری منتخب کیا گیا – مولانا فاروق خاں اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے – 1984 میں جب مولانا صدر الدین اصلاحی نے صدارت سے معذرت کردی تو مولانا فاروق خاں کو صدر بنایا گیا – برسوں کے بعد جب مولانا جلال الدین عمری مرکز جماعت (نئی دہلی) منتقل ہوئے تو مولانا نے ادارہ کی صدارت ان کے حوالے کردی – مولانا عہدوں اور مناصب سے بڑے بے نیاز رہتے تھے – وہ آخر تک ادارہ کی مجلس منتظمہ کی نشستوں میں پابندی سے شریک ہوتے رہے –
آخر میں مولانا سے اپنے ذاتی تعلقات پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں – مولانا مرکزِ جماعت (چتلی قبر، پرانی دہلی) میں تنہا رہتے تھے – ان کا کمرہ قرآنیات، مذاہب، تصوف، تاریخ وغیرہ کی کتابوں سے بھرا رہتا تھا – بارہا مجھے ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے – وہ ملاقاتیوں کو اپنے ہاتھ سے چائے بناکر پلایا کرتے تھے – اس کے لیے انھوں نے ایک الیکٹرک کیتلی لے رکھی تھی – چائے بسکٹ کے ساتھ وہ اپنی پُر لطف، معنی آفریں اور حکیمانہ باتوں سے بھی شاد کام فرماتے تھے – ان کا یہ معمول آخر تک رہا –

میں نے ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمٰن بنت الشاطء کی کتاب ‘الإعجاز البیانی للقرآن الکریم’ کا اردو ترجمہ کیا – میری خواہش ہوئی کہ وہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوجائے – میں نے سوچا، کسی سے سفارش کرادوں تو اشاعت یقینی ہوجائے گی – نگاہِ انتخاب مولانا پر پڑی – ان کی خدمت میں حاضر ہوا – عرضِ مدّعا کیا – ان کی دو سطری تائید و توثیق نے تمام مراحل آسان کردیے – میں نے سید قطب شہید کے مقالات کے مجموعے ‘دراسات اسلامیۃ’ کا اردو زبان میں ترجمہ ‘اسلام اور مغرب کی کش مکش’ کے نام سے کیا – میں نے مولانا سے خواہش کی کہ اس پر مقدمہ لکھ دیں – انھوں نے مایوس نہیں کیا –
2011 میں میں علی گڑھ سے دہلی منتقل ہوا اور مرکزِ جماعت میں 8 برس تصنیفی اکیڈمی کے سکریٹری کی حیثیت سے خدمت انجام دی – اس دوران مولانا کی تصنیفات کی طباعت کے لیے ان سے بار بار رابطہ ہوتا تھا – وہ اپنے مسودات دے کر بے نیاز ہوجاتے تھے – ‘کلامِ نبوت’ 5 جلدوں میں چھپ رہی تھی، جن میں سے دو جلدیں دوسری جلدوں کی بہ نسبت زیادہ ضخیم تھیں – فیصلہ کیا گیا کہ ترتیبِ نو کے بعد اسے 7 جلدوں میں طبع کیا جائے – مولانا نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی – تصنیفی اکیڈمی کی جانب سے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرائے جانے کا فیصلہ کیا گیا – مولانا نے بہ خوشی اس کی اجازت دے دی – جناب ڈی -عبد الکریم (میسور) اس کا ترجمہ کررہے ہیں اور کئی جلدیں Prophet speaks کے نام سے طبع ہوچکی ہیں – بعض اسباب سے ان کی بعض کتابوں کی عدم اشاعت کا فیصلہ کیا گیا، لیکن انھوں نے بُرا نہیں مانا – اللہ تعالیٰ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگزر کرے، انہیں اعلیٰ العلّیّین میں جگہ عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور تحریک کو ان کے نعم البدل سے نوازے، آمین، یا رب العالمین!