موجودہ دور میں حکومتِ الٰہیہ

انجینئر عدنان الوہاب خان

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نو ِر توحید کا اہتمام ابھی باقی ہے

ہماری نظریاتی اساس اور جدو جہدکا ماخذ قرآ ن مجید کی مندرجہ ذیل اوراس قبیل کی دوسری آیات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہیں۔پھرذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میںزمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں۔۔۔(البقرۃ 30 )۔اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس ے نوح کو دیاتھا۔ اور جسے۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم (اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑکو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاو)۔ (شوریٰ 13) (اللہ نے وعدہ فرمایا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو ایما ن لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ا نکو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ا ن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے ان کے لیے ا نکے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ا نکے لیے پسند کیا ہے اور ا نکی)موجودہ (حالت خوف کو امن سے بدل دے گا۔النور55) ۔۔وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(صف9)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے مقاصدمیں عدل وا نصاف کا نظام قائم کر نا اورلوگوں کے مابین موجودظلم واستحصال ختم کر نا۔ ترجمہ:۔’’اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ میں تمہارے درمیان نظام عدل قائم کروں ‘‘(شور یٰ15)قرآ ن اورشریعت کے مطابق نظام عدل اجتماعی قائم نہیں ہوتاتوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کامشن مکمل نہیں ہوتا، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے (آل عمران 18) تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور ہدایت یافتہ لفائے راشدین کی سنت کی پیروی کریں(الحدیث)۔

نصب العین:۔ تحریک پوری ا نسا نیت کو بندوں کی غلامی سے نجات اورظالم و باطل نظام کے چنگل سے نکال کراسلام کے عادلانہ نظام میں لا نے کو اپنا نصب العین سمجھتی ہے جس کا منہج رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ہوگا۔ ا نشاء اللہ ا۔لہٰذاا تحریک عدل کی سرگرمیوں کا اولین ہدف حزب اللہ کو معرض وجود میں لا نا، پاکستان میںاسلام کا نفاذ اور بحالی خلافت ہے۔ترجمہ:۔’’اللہ کی جماعت ہی سب پرغالب رہنے والی ہے‘‘۔(المائدہ 56)طریقہ کار:۔ تحریک تبدیلی نظام کا وہی کام کر نا چاہتی ہے جو ا نبیاء کی بعثت کا مقصدِ اولی رہا ہے۔ اور جسے اپنی مکمل اور جامع ترین صورت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا اس سلسلے میں قیام خلافت اور دوام خلافت کے ادوار کو جو نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے عیاں ہیں اختیار کیا جائے گا۔ مکی دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم جو قیام خلافت کے دور پر مشتمل ہے میں جوتبدیلی نظام کے لیے طریقہ کار کا اختیار کیا گیا وہ مختصر یہ کہ جس نظام کو لانا تھا اس کی دعوت دی گئی اور جس کو بدلنا تھا اس سے بقدر استطاعت، ا تنقطاع کیا گیا۔ یاد رہے ہمارا نام مسلم ہمارا مسلک اسلام ہماری جماعت امت مسلمہ ہے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام، دنیا کی امامت کا

تحریک عدل اسلام کی نشاط ثا نیہ کے لیے کوشاں تحریک ہے جس کا مقصدقیام دین و خلافت اور غلبہ دین ہے۔ اسلام کی نشاط ثا نیہ تب تک نا ممکن ہے جب تک ہر مسلمان اسلام کو اپنی ذات پر اسی طرح نافذ نہیں کرلیتا جس طرح صحابہ کرام اجمعین نے اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اسلام کو اپنی ذات پر نافذ کر نے والا شخص ہی اپنے گھر، محلہ، خا ندان،ملک اور پوری د نیا پر نافذ کر سکتا ہے۔ تحریک عدل قرآن کے ذریعے سے مملکت پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کر نے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ انقلاب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی رہ نمائی کے لیے ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے قرآن کریم سے راہ نمائی حاصل کریں اور قرآن ہی کو اپنا دستور اورآئین ما نیں اور قرآن کی روشنی کو د نیا کے کو نے کو نے میں پہنچائیں۔تحریک عدل مملکت پاکستا ن جو کہ اسلام کے نام پر بنا میں فوری طور پر اسلام کے نفاذ کا مشن رکھتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں کوئی بھی آئین و قا نون اسلام سے متصادم نہیں ہو سکتا، تمام غیر اسلامی آئینی دفعات اور غیر اسلامی قوا نین سے فوری دستبرداری، فوری طور پرشریعت کے نفاذکا ارادہ رکھتی ہے۔ اسلامی پاکستا ن ہی خلافت کے احیا کی طرف پہلا قدم ہے۔اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹ مرنے والے راسخ عقیدہ مسلما ن، جفاکش، محنتی عوام ;آرمی، نیوی اور ائیرفورس اسلامی پاکستا ن کو ایک عالمگیری خلافت کی تحریک میں بدل دے گا جس کے پیش نظر زمین پر اللہ کے دین کا نفاذ، غلبہ دین اور شہادت علی الناس جیسے اعلیٰ فرائض کی ا نجام دہی ہوگی۔ ا ن شاء اللہ ۔

محروم تماشہ کو پھر دیدہ بینادے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

موجودہ دور میں خلافت کا احیاء:۔

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

کیا موجودہ دور میں خلافت کا احیاء ممکن ہے یا یہ کسی دیوا نے کا خواب ہے اکثر داعیا ن خلافت کو اس سوال کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور اس کا جواب بھی ہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پا نچ ادوار ہو ں گے۔1۔ دور نبوت2۔ دور خلافت راشدہ 3۔ دور بادشاہت /ملوکیت4۔دور ظلم و جبر5۔دور خلافت علی منہاج نبوت۔۔ آج ظلم و جبر کا دور دورہ ہے، زمین پر اللہ کا نظام نافذ نہیں ہے۔ خلافت کے ادارے کو ختم ہوئے ایک سو سال ہو چکے ہیں۔ نیشین اسٹیٹس کی کے ادارے کی بنیاد رکھ کر وطنیت کے بتوں کی پوجا شروع ہے، سود اور سرمایہ داری نظام نافذ ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے ا نسانوں کو بحیثیت مجموعی غلام بنایا گیا،د نیا کو جنگوں اور تباہی کے دھا نے پرلاکھڑا کیا گیا، آزادی اظہار، جمہوریت، مادر پدر آزادی کے نام پر ا نسا نیت کا جنازہ نکال دیا گیا۔ ظلم کا نظام اپنے ا نجام کے قریب ہے۔ اگلا دور خلافت علیٰ منہج نبوت کا ہے ان شا ء اللہ جس کا مقصد خلافت راشدہ کا احیا،۔۔۔ ظلم سے بھری ہوئی د نیا کو عدل سے بھر نا، نیشن سٹیٹ کا خاتمہ، زمین کو اللہکے نور سے بھرنا اور اسلام کاپوری د ینا پر غلبہ قائم کرنا ہو گا۔ظلمت کی اندھیری رات کا منحوس سایہ بہت تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اورختم ہونے کے قریب ہے۔ ان شا ء اللہ۔ ظلم کے نظام کوایک نہیں۔۔آخری دھکا دو۔ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مولیٰعلیؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ ایک اور مغالطہ جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ہے وہ یہ کہ خلافت امام مہدی/امام غائب ہی قائم کریں گے اور ا نکے ظہور تک خلافت قائم نہیں ہوسکتی۔ تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیاِم خلافت سے آ نکھیں چرائیں؟ اسی طرح خلافت کے قائم نہ ہو نے کے نقصانات مثلاً شرعی قوا نین کا نفاذ نہ ہو نا، جہاد بالسیف ناممکن، اتحادمسلم ناممکن، قیام صلواۃوزکوٰۃاور فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کما حقہ ادائیگی ناممکن، نظام اطاعت کا درہم برہم ہو نا،نہ غلبہ دین، حق کی جستجو اور اجتہاد کے دروازے بند کر کے نظریں نہیںچرا سکتے۔قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیںکچھ بھی پیغام محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں۔۔

محنت سے خلافت کا قیام عمل میں آئے گا۔ ا نسان کے ہاتھ میںکوشش ہے اور اس کو احیائے خالفت کی ہر ممکن کوشش کر نی چاہیے۔ خلافت کے قیام کی جدو جہد فر ِض کفایہ ہے۔ خلافت کے قائم کر نے کی اہمیت کا ا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین تین دن تک موخر رکھی جب تک خلیفہ کا اعلان نہیں ہو گیا۔

آ نحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب معاشرہ گمراہیوں،شرک،فضول رسم ورواج،معاشرتی ا نحطاط کی دلدل میں گھراہواتھا۔،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید،فکرآخرت،رجوع اللہ،اور انکی جدوجہداقامت دین حق یعنی اسلام کوغالب کر نے کیلئے تھی۔اس کام کوکر نے کیلئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعت قائم کی ا ن کو تعلیم دی،ا نکاتزکیہ نفس کیا،ا نکوقرآن اورحکمت سے روشناس کروایا،انکے آپس کے معا ملات میں قربا نی وایثار،بھائی چارہ اورمساوات،رحمدلی اورہمدردی اوراعلیٰ جذبے کوپروا ن چڑھایا۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزِم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن

اقامت دین

صحابہ کرام رضوان اللہ تعلی علیھم اجمعینکے آگے اعلیٰ مقصد حیات رکھا اورپھرصحابہ کی جماعت نے بھی اپنے آپ کو اللہکی جماعت ثابت کرنے اورد نیاسے گمراہی کے ا ندھیروں اورتوحیدکے نغموں سے منورکر نے کیلئے تربیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاحق اداکردیا۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

کیاہماراعدالتی نظام،اسلامی قا نون کے مطابق فیصلے کررہاہے ترجمہ:۔اورجولوگ فیصلہ نہ کریں ا حکام کے مطابق جو نازل کئے ہیں اللہ نے توایسے ہی لوگ کافرہیں۔۔۔۔ ظالم ہیں۔۔۔۔۔ فاسق ہیں۔المائدہ-44۔47۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے مقاصد میں عدل وا نصاف کا نظام قائم کر نااورلوگوں کے مابین موجودظلم واستحصال ختم کر نا۔ ترجمہ:۔اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ میں تمہارے درمیان نظام عدل قائم کروں۔۔شور یٰ15۔۔قرآن اورشریعت کے مطابق نظام عدل اجتماعی قائم نہیں ہوتاتوحضور کامشن مکمل نہیں ہوتا۔ محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کامقصدیہ ہے کہ جوہدایت وراہ نمائی اوردین حق یعنی ضابطہ حیات دے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ادیا ن پرغالب کردیں۔ ترجمہ:۔’’وہی ہے وہ ذات جس نے بھیجا اپنارسول ہدایت اوردین حق کے ساتھ تاکہ غالب کردے اسے تمام ادیا ن پر‘‘۔توبہ،33الفتح،28الصف9

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طہٰ
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں

یہی وجہ ہے کہ جب حضور کامشن پایہ تکمیل کوپہنچا اورآپ کاوصال ہواتونظام خلافت کی ابتداہوئی ۔آپ کے وصال کے بعداب یہ کام ہرمسلما ن پرفرض ہے کہ وہ یہ دعوت عام کرے اورسنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پرچلتے ہوئے اقامت دین حق کی اپنی سی کوشش کرے۔ آج کامسلما ن اپنے اوپرعائددعوت کی ذمہ داری سے نا آشناہے،امربالمعروف و نہی عن ا لمنکرکر نابھی چاہے توقوت نافظہ کی غیرموجودگی میں نہیں کرسکتا،آج بھی کروڑوں،اربوں لوگ اسلام کی نعمت سے محروم ہیں کیو نکہ آج کامسلما ن شہادت علی الناس کافریضہ ادا نہیں کررہے۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

آج کامسلما ن تفریق درتفریق میں گھراہواہے پہلے ہی مسلکی،فقہی تفریقوںمیں بٹاہواتھا اورموجودہ دور میں رہی سہی کسرملکی،لسا نی، نسلی اورزبا نی تقسیم نے پوری کردی ہے۔ ترجمہ:۔’’اور ہیں فرقوں میں بٹے لوگ مگراس کے بعدکہ آچکاتھا ا نکے پاس صحیح علم اورہوئی یہ فرقہ بندی ایک دوسرے کی ضد میں ‘‘۔شور یٰ14۔۔تحریک عدل امت مسلمہ کوایک پلیٹ فارم پراکٹھاکر نے کیلئے کوشاں ہے۔ ترجمہ:۔’’اورمضبوطی سے تھام لوتم اللہ کی رسی کوسب مل کراورفرقہ بندی نہ کرو‘‘۔آل عمران 103(اور اللہ کی جماعت)حزب اللہبنا نے کی کوشش ہے۔ آئیں اپنے اس دینی فریضہ کوسمجھتے ہوئے اسلام کے داعی بنیں اوریہ پیغام د نیاکے کو نوں کو نوں میں پہنچائیں۔ ترجمہ:۔’’اوراس شخص سے بہتربات اورکس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اوروہ نیک عمل کرے اورکہے کہ میں مسلما نوں میں
سے ہوں ‘‘۔ حٰم سجدہ33

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

اللہ تعلینے زما ں و مکان کی قید کے بغیر ا ن لوگوں سے جو ایما ن لائے اللہ پر اور نیک عمل کرتے رہے سے زمین میں خلیفہ بنا نے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک اور مغالطہ جو آج مسلما وں کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ آج جب امت ملکی، فرقی، لسا نی بنیادوں پر تقسیم ہے تو خلافت کیوں کر قائم ہو گی۔ کیا ایک عجمی خلیفہ ۔۔عربوں کو قابل قبول ہو گا،خلیفہ کس فرقہ کا ہو گا، کس امام کا مسلک آفیشل مسلک تصور ہو گابدقسمتی سے یہ سوال اٹھاتے ہوئے لوگ اسلام کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں، اسلام نے آج سے 1400برس پہلے تمام عصبیتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور تمام نسلی، قومیتی،لسا نی تفرقوں کو ختم کر دیا ہے اور کسی کی بڑائی کا معیار صرف اورصرف تقو ی کو قرار دیا ہے۔ اسلام نے فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اور آپس کی ضد کو فرقہ بندی کی وجہ بتایا ہے۔ اگر اسلام کی کسوٹی پر ا ن سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو آسا نی سے اسلام کی روشنی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر تفرقہ بازی خلافت کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ خلافت تب قائم ہو گی جب مسلمان فروعی اختلافات پس پشت ڈال کر مسلکوں سے اوپر اٹھیں گے۔ موجودہ دور میں کسی اسلامی ملک کی تحریک ہی عالمی خلافت میں تبدیل ہو گی۔

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھادئے
اے مصطفوی! خاک میں اس بت کو ملا دے

پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، بد قسمتی سے جس مقصدکے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، آج تک ہم وہ مقاصد حاصل کر نے میںنا کا م رہے ہیں۔ پاکستا ن بننے کے بعد با نی پاکستا ن نے کئی مواقعوں پراس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اللہ کی خاص عنایت ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اسے د نیا کے سامنے جدید اسلامی ،فلاحی ریاست کا نمونہ بنائیں اور خلافت راشدہ کا احیا کریں۔

دین کا آئین ہی درکار ہے۔دین کا بس اک یہی معیار ہے پاکستا ن میں وقتاًفوقتاً نفاذ شریعت، ختم نبوت کی تحاریک چلتی رہیں۔ پاکستا ی عوام مصر، الجزائر، ترکی، لیبیا کی اسلامی آزادی کی تحریکوں، کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں، بوسنیا، چیچنیا کی آزادی کی جنگ کے حمایتی رہے ہیں۔ افغانستان کے عالمی جہاد کے ذریعے طویل عرصے کے بعد جہاد کا احیاء ہوا ہے اور اسی طرح تبلیغ کی عالمی جماعت کا روز بروز بڑھتاہوا سلسلہ، ناموس رسالت کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھانے جیسے معاملات پاکستان سے احیائے خلافت کے لیے سازگار ماحول فراہم کر نے کی نوید سنا رہے ہیں۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اسلامی پاکستان سے خلافت کو عالمگیر تحریک میں بدلنے میں پاکستان کی چھ لاکھ فوج،جدید ائیر فورس، میزائل اور ایٹمی پروگرام، محنتی جفاکش عوام، پڑھا لکھا طبقہ، وسیع نوجوا ن طبقہ اہم کردار ادا کرے گا۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ضرورت ہے صاحب اقتدار کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کر کے ایک پرزور اسلامی عوامی تحریک کے نتیجے میں پاکستان میں ایک اسلامی حکومت کے قائم کر نے کی۔تحریک عدل پاکستان ان مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہے ۔آئیں ہمارا ساتھ دئیں۔

(انجینئر عدنان الوہاب خان نے یہ مقالہ قلم کاروان ادبی انجمن کے اہتمام سے منعقدہ کانفرنس میں پڑھا۔موضوع کی اہمیت اور مناسبت کی وجہ سے ہم یہاں اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں )