حافظ حماد شاہین
آہ!!!مولانا عبدالقادر ندیم بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ایک تاریخ ساز شخصیت، ہزاروں کشمیری مجاہدین کی فکری اور نظریاتی تربیت کی ذمہ داری سرانجام دینے والے زندگی کے آخری ایام تک پاکیزہ خون سے سینچی ہوئی تحریک آزادی جموں و کشمیر سے منسلک رہے اور قدم بقدم کشمیری مجاہدین و مہاجرین کی رہنمائی کرتے رہے۔ 1965 میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے حاجی سائیں نواب خان مرحوم کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام غلام قادر رکھا۔ ابتدائی دینی تعلیم دارالعلوم احمد المدارس ہری پور میں حاصل کی۔وہاں مولانا قاری غلام مصطفی مرحوم نے غلام قادر کا نام تبدیل کر کے عبدالقادر ندیم رکھا جو اب تک حضرت مولانا عبدالقادر ندیم سے جانے جاتے تھے، اپنے رب کے حضور 21 رمضان شب جمعہ 1445 ہجری 2024ء میں حاضر ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون

مولانا عبدالقادر ندیم مرحوم ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہمیشہ اللہ کے کلمے کی سربلندی کیلئے محنت اور کوشش کی۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2000ء میں جنگل منگل میں ہوئی۔ ایک روز شہدائے کشمیر کانفرنس کے نام سے ایک پروگرام رکھا گیا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر و سربراہ متحدہ جہاد کونسل سید صلاح الدین احمد کے ہمراہ مولانا عبدالقادر ندیم صاحب بھی تھے۔ ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون علامہ صاحب ہیں جو کشمیری مجاہدین کے ماتھوں پر بوسہ دے رہے ہیں اور ساتھ ہی انہیں حوصلہ اور ہمت بھی دے رہے ہیں کہ آپ لوگ ہی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ایک خاص مقصد کیلئے چنا ہے، بس ایک کام کرنا ہے کہ جب آپ میدان کارزار میں واپس لوٹیں گے جب اللہ تعالی آپ کے سینے پر شہادت کا تمغہ سجا دیں گے تو آپ ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بھی اپنے ساتھ جنت میں لے جانا۔ مجھے ان کی طرف سے یہ حکم ملا کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں اس لیے آپ کچھ ٹائم کیلئے رک جائیں اور محترم سید صلاح الدین احمد کو بھی درخواست کی گئی کہ حماد شاہین کو پار نہ جانے دیا جائے۔ سید صاحب نے جواب دیا کہ مولانا اس راستے میں کئی شاہین آتے ہیں ان کے سینوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت معجزن ہوتا ہے اس لیے ان کو روکنا آسان کام نہیں ہے بہرحال پروگرام شروع ہو گیا جو رات گئے تک جاری رہا۔مختلف ذمہ داران نے خطاب کیا اور کشمیری مجاہدین نے ترانے پیش کر کے مجاہدین کے خون کو گرمایا۔ آخری خطاب حضرت مولانا عبدالقادر ندیم ؒکا تھا جو مسلسل دو گھنٹوں تک جاری رہا۔ایسا خطاب نہ اس سے پہلے سنا تھا نہ اس کے بعد سنا ہے۔ غزوہ بدر سے بات شروع کی گئی جو سرینگر کپواڑہ، جموں کٹھوعہ، راجوری،پلوامہ بڈگام ڈوڈہ اوربانہال کے محازوں تک پہنچ کر ختم ہوئی۔
تقریب کے اختتام کا منظر دیدنی تھا ۔مولانا صاحب کا خطاب ختم ہوا۔اسی اثنا میں سید صلاح الدین احمد اٹھے اور مولانا کا ماتھا چوما۔خطاب سن کر اور محترم پیر صاحب کا مولانا صاحب کے ساتھ والہانہ اظہار عقیدت دیکھ کر ہمیں ان کی عظمت کا اندازہ ہوا۔ہمیں سمجھ آگئی کہ جس انسان کے ماتھے کو ایک عظیم جہادی سالار بوسہ دیں وہ کوئی عام انسان نہیں ہو سکتا ہے۔ اس پروگرام کے بعد مولانا عبدالقادر ندیم صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ 2001 میں میں مقبوضہ کشمیر روانہ ہو گیا تھا پھر دوبارہ ملاقات مقبوضہ کشمیر سے واپسی پر ہوئی اور الحمدللہ 2011ء سے لیکر زندگی کے آخری ایام تک میرا مولانا صاحب کے ساتھ ایک گہرا تعلق رہا ہے،لہذا مجھے اس وقت تک یقین نہیں آ رہا کہ مولانا صاحب ہم سے جدا ہو گئے ہیں اور رب کی جنتوں کے مہمان بن گئے ہیں۔


2017 سے لیکر 2024ء تک کئی سفر مولانا صاحب کے ساتھ کیے۔ ان کے توسط سے کئی اہم عہدوں پر فائز لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ مولانا صاحب کو اللہ تعالی نے بہت ہی عزت سے نوازا ہے اور ہر انسان کے دل میں مولانا صاحب کیلئے بے پناہ محبت ہے۔ انتہائی سفید پوشی میں زندگی بسر کی جہاں گئے آپ اپنے لیے صرف لوگوں کی دعائیں اور محبت ہی ساتھ لائے۔ مولانا کی وفات نے ہر انسان کو اشکبار کیا۔ عموما جنازوں میں یہ ہوتا ہے کہ وفات پانے والے انسان کے اہل و عیال سے تعزیت کی جاتی ہے یہ واحد جنازہ تھا کہ ہر آدمی افسردہ تھا، ہر آنکھ اشکبار تھی، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون کس سے تعزیت کرے۔ مولانا صاحب کی وفات کی خبر محترم پیر صاحب کو دی گئی،توان پر بھی یہ خبر پہاڑ بن کر ٹوٹی لیکن ساتھ ہی انہوں نے حوصلہ دیا کہ ہر ذی روح کو عارضی دنیا کو چھوڑنا ہے لیکن مولانا کی وفات ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہ خلاء کبھی بھی پر نہیں ہو سکتا۔

حیران کن بات تھی کہ مولانا مرحوم کے بیٹوں نے بھی مجھ سے تعزیت کی اور دعا دی کہ اللہ تعالی آپ کو صبر سے نوازے۔ مولانا صاحب کا آپ کیساتھ بہت ہی گہرا تعلق تھا گھر آ کر بھی وہ آپ کو نہیں بھولتے تھے۔میرے لیے یہ سعادت ہے کہ سب سے پہلے میں نے ہی مولانا صاحب کے پروگرام کی ویڈیو ریکارڈنگ شروع کی۔ اس ریکارڈنگ کیلئے مجھے حزب میڈیا سروس کے ذمہ داران کا مکمل تعاون رہا۔پھر اس میڈیا کا کام کلیہ الدعوہ کے ایڈمن احسن اقبال عباسی صاحب نے سنبھالا اور الحمدللہ ہر جمعہ کی ریکارڈنگ کی کافی عرصہ سے شوگر اور گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باوجود 12،12 گھنٹوں کا سفر طے کر کے طویل خطاب کرتے اور پھر عوام الناس سے ملاقاتیں بھی کرتے تھے۔ مولانا صاحب کی تین جگہوں پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔پہلی نماز جنازہ کورنگ ٹاون راولپنڈی میں ادا کی گئی، جہاں ان کے بھانجے مولانا محمد صدیق صاحب نے اہتمام کیا تھا۔ دوسری نماز جنازہ یونیورسٹی گراونڈ چہلہ مظفرآباد میں ادا کی گئی، جہاں تمام مکاتب فکر کے علما اور عوام نے شرکت کی۔ تیسری نماز جنازہ ان کے گاوں پانچ میل میں ادا کی گئی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مولانا کو یاد نہ کیا جائے، دل مغموم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا صاحب کے بغیر اب دل نہیں لگتا۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ پیار بھرا لہجہ میں نہیں بھول سکتا۔وفات سے کچھ ہی دن پہلے کہنے لگے کہ حماد بھائی ہمارے مدرسے کے کافی بچے روان برس بھی قرآن پاک مکمل کر چکے ہیں۔ اتنے وسائل نہیں ہیں کہ کوئی بڑی تقریب منعقد کی جا سکے، البتہ ایک مختصر تقریب ضرور رکھیں گے اور باربار اپنے ایک ہمدرد اور عزیز کو یاد کرتے کہ وہ سعودیہ سے آئیں گے جن کا نام ممتاز یعقوب ہے اور ان کا بیٹا شاہد ممتاز حفظ مکمل کر رہا ہے۔ دو دن پہلے ممتاز بھائی سے ملاقات ہوئی تو ان کو اس حوالہ سے بہت افسردہ پایا کہ میرے بچے نے حفظ کر لیا اس کی مجھے بہت خوشی ہے مگر میرے بچے کی دستار بندی میں مولانا موجود نہیں تھے اور ہم سے جدا ہو گئے تھے اس بات کا دکھ اور غم کبھی نہیں بھول پاوں گا۔یہ تھی عوام الناس کی مولانا صاحب سے محبت کی جھلک۔حزب المجاہدین اور دیگر دوست و احباب ایک عظیم مربی مشفق انسان سے محروم ہو گئے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا کو جنت الفردوس میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے اور بروز قیامت بدر کے شہدا میں ان کا شمار فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے، آمین ثم امین یا رب العالمین۔بلاشبہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر بالعموم اور آزاد خطہ بالخصوص ایک عملی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے،یہ خلاء شائد ہی پر ہوجائے لیکن ان کی شخصیت میں کئی پہلو موجود تھے۔وہ ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے،آزاد کشمیر علماء کونسل کے سربراہ بھی تھے اور پھر تحریک اسلامی کا قیمتی اثاثہ بھی تھے۔ان تمام صلاحیتوں سے ہم محروم ہوچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ رحم فرمائے
ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا
٭٭٭