مولانا عبدالمنان

مولانا عبدالمنان

عبد الہادی احمد

مولانا عبدالمنان رحمۃ اللہ علیہ پچہتر برس پہلے میدان جہاد سے فتح یاب ہو کرلوٹے تھے۔یہ سرزمین جسے ہم شمالی علاقہ جات کے نام سے جانتے ہیں،اس کے فاتحین میں مولانا عبدالمنان کا نام نامی بھی شامل تھا۔ان کی کامیابی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ وہ جہاد کشمیر کے اولین داعی بھی تھے۔ وہ سچ مچ کے مجاہد اول تھے،لیکن ان کو اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ لگانا پسند نہ تھا۔ان کا اعزار یہ بھی تھا کہ دشمن کی تڑتڑاتی گولیوں کے سامنے انہوں نے اذان کہی۔ابھی انہوں نے اذان شروع ہی کی تھی کہ گولیاں ان کے آس پاس پتھریلی چٹانوں کو لگنے لگیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان کو لاکھ آوازیں دیں،مگر انہوں نے اذان ختم کر کے ہی دم لیا۔وہ ایک مجاہد صف شکن کے طور پر کارگل کی وادیوں کو فتح کرتے ہوئے زوجیلا جا پہنچے۔ لیکن بعد میں فوج کے قادیانی افسروں نے یہ سارا فتح کردہ علاقہ بخوشی دشمن کو سونپ دیا۔

ان کی بے مثال جدوجہد تاریخ آزادی کا انمٹ باب ہے۔شمالی علاقہ جات کے حوالے سے وہ ایک عہد ساز شخص ہیں۔وہ 1947ء اور 1948ء میں شمالی علاقوں کی آزادی کی جنگ کی منصوبہ بندی میں شریک ہوئے۔جہاد کی دعوت دی، خود جہاد میں شامل رہے۔تب وہ 25 برس کے نوجوان عالم دین تھے۔ ان کی دعوت سے ان گنت لوگ جہاد میں شریک ہوئے۔ جہاد کرتے ہوئے وہ جس خطے سے گزرے، کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ پھر جہاد کا سفر رک گیا، مگر مولانا عبدالمنان مرحوم کے قدم نہیں رکے۔ ایک مجاہد کے طور پر انہوں نے شمالی علاقوں کے لوگوں کے اندر جذبہ آزادی ابھارا اور شوق شہادت کاشت کیا۔ جہاد کے بعد اسلامی تحریک کے لیے ان کی خدمات شروع ہوئیں۔وہ جماعت اسلامی شمالی علاقہ جات کے پہلے امیر بنے۔

پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے حکومتی نوازشات کا رخ قادیان کی جانب موڑ دیا،تو مولانا عبدالمنان نے قدم قدم پر قادیانیوں کی شر انگیزی کا مقابلہ کیا۔ زندگی بھر سچے مومن کی طرح لڑتے رہے اور قادیانیوں کو شمال کی زمینوں میں قدم جمانے نہیں دیے۔ اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعے پورے خطے پر مثبت اثر ات ڈالے۔ قدرت نے ان کو متنوع کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ اپنے خطے کے لوگوں کی فلاح و تعمیر کی خاطر انہوں نے طویل سفر کیے ان میں سے اکثر سفر پا پیادہ کئے۔

30 برس تک ایک لینڈ لاکڈ خطے میں کشمیر کی آزادی کی جنگ کا تسلسل باقی رکھنا بھی ان کا ایک کارنامہ ہے۔ کئی برس تک مجاہدین کشمیر کی کامیاب میزبانی کی۔انہوں نے مجاہدین کو یقین دلایا کہ آخری فتح ان کا مقدر بنے گی۔ اپنی تقریروں میں وہ مجاہدین کشمیر کو باور کراتے رہے کہ جب تک وہ ڈٹے رہیں گے، ہندو اپنے حقیر ایجنٹوں کے ذریعے کامیاب نہیں ہوگا۔

ان کے سینے میں تاریخ آزادی کے ان گنت راز پنہاں تھے۔مگر وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ میں نے جو کیا وہ اللہ کی رضا کے لیے کیا۔اس کی تشہیر کیوں کروں۔ان کے پڑھے لکھے بیٹوں نے بہت اصرار کے بعد ان کو آمادہ کیا کہ وہ ریکارڈ درست کرنے اور آنے والی نسل کو تاریخی دور کی درست تاریخ سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی زندگی کے اہم واقعات قلم بند کردیں۔اس لیے کہ آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ آزادی کے اس باب کے وہ مستند ترین گواہ ہیں۔پھر جب ان کا بدن بندوق اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا تھا،انہوں نے قلم اٹھا لیا۔’ڈوئیاں سے زوجیلا تک ‘مولانا عبدالمنان کی آپ بیتی ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب کشمیر میں آنے والے دور کے مجاہدین کو رہنمائی فراہم کرے گی۔مولانا عبد المنان ایک سو برس کی زندگی گزار کر سوموار 23 ستمبر کو اپنے رب کے حضور پیش ھو گئے۔اللہ تعالیٰ ان کی تسامحات سے درگزر فرمائیں اور ان کی خدمات کو قبول فرمائیں اور ان کو جنت میں اعلیٰ مرتبہ عطا فرمائیں۔آمین۔