عبدالرشید ترابی سابق امیر جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیر گلگت بلتستان
حضرت مولانا عبدالمنانؒ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے اولین مجاہدین اور راہبروں میں سے تھے۔ مولاناؒ کو یہ اعزاز حاص ہے کہ انھوں نے 1947 کو گلگت بلتستان کے تمام علمائے کرام کو جمع کیا اور جہاد کے حق میں فتوی حاصل کیا اور اس کے نتیجے میں ہر سطح پر ایک یکسوئی پیدا ہوئی اور ڈوگرہ فوج کے خلاف منفرد انداز سے ایک ہمہ گی جدوجہد شروع ہوئی حالانکہ اس وقت ان کی عمر محض 23 24. برس کی تھی لیکن ان کی قائدانہ بصیر ت نے اس اہمیت کو محسوس کیا کہ علماء کرام بالخصوص اس خطے میں ان کا اثر بہت زیادہ ہے جب تک کہ وہ مکمل طور پر یکسو نہ ہوں تو بڑی تحریک نہیں چل سکتی۔ انہوں نے یہ عظیم الشان فریضہ انجام دیا اور مولانا نے نہ صرف فتویٰ لیا بلکہ پوری اس جدوجہد میں مجاہدین کے شانہ بشانہ رہے اور فتوحات کے تمام مراحل میں ان کا کردارنمایاں رہا۔کرگل اور لداخ سے آگے ایک بڑا محاذ تھا وہاں تک وہ پہنچے اور مجاہدین کی قیادت کی اور اگر کہاجائے کہ وہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے وہ مجاہد اول تھے تو بے جا نہ ہوگا۔
مولانا عبدالمنان مرحوم جہاد کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذپر آگے بڑھ کر خدمات انجام دے رہے تھے،اس خطے کے انتظامی امور کی سر انجام دہی کے لیے اس وقت کی پاکستانی قیادت وزیراعظم لیاقت علی خان اس دور کے وزیر امور کشمیر اور دیگر عام پالیسی سازوں سے روابط کے ذریعے انہوں نے اس علاقے میں نظم و نسق تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ہوئے وہاں تعمیرو ترقی اورمواصلات کا نظام قائم کرنے میں اہم کردارادا کیا۔مولانا عبدلالمنانؒ ۔۔۔مولانا مودودی ؒکی فکرسے آشناتھے اور مولانا موددوی ؒ سے ان کے ذاتی روابط تھے۔مولانا عبدالمنان مرحوم کے بابا چلاسی سے خصوصی روابط تھا وہ بابا چلاسی کو سید مودودیؒ کی عصری مجالس میں لے جاتے تھے۔
جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیرگلگت بلتستان کاقیام1974 میں عمل آیا تو مولانا عبدالمنان مرحوم بانی امیر کی حیثیت سے گلگت بلتستان میں تنظیم سازی کی اور جماعت کو وسعت دی۔جماعت اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے کی پاداش میں ان کو بے شمار صحبتوں سے بھی گزرنا پڑا ان کے کاروبارمیں حکومت نے رکاوٹیں ڈالیں اور کئی کام حکومت نے منسوخ کیے۔مولانا عبدالمنان ؒکے معاش کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود انہوں نے استقامت سے الحمدللہ اس تحریک کی بنیادوں کو اٹھانے میں عام کردار ادا کیا۔ وہ ہمارے واجب الاحترام بزرگ تھے۔ مرحوم بطور امیر جماعت میری ٹیم کا ایک طویل عرصے تک ذمہ داریوں پر فائز رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی دلی خواہش اور جستجو تھی کہ وہاں پر نئی قیادت سامنے آئے۔ محترم مشتاق خان ا یڈووکیٹ جو کہ آج کل ہمارے مرکزی نائب امیر ہیں ان کے عزیزوں میں سے تھے۔ ہم ایک ساتھ کراچی یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے۔ مشتاق صاحب کی مختلف سرکاری عہدوں پر بھی کی تقرریاں ہو چکی تھیٰ لیکن ہم نے ان کے مشورے سے یہی فیصلہ کیا کہ ہم اور ہماری ساری ٹیم سرکاری مراعات اور نوکریوں سے دست کش ہو کر میدان کارزار میں اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے ۔ الحمدللہ پھر انہی کے نقوش پاک پر مشتاق صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس مشن اور تحریک کوآگے بڑھایا ۔ اس نوجوان ٹیم کی بھرپور طور پر مولانا نے سرپرستی کی۔ ہماری شوریٰ کے ا جلاسوں میںہماری رہنمائی کرتے رہے۔ مولانا نے اپنی اولاد کی بھی بالکل نظریاتی تربیت کی اور الحمدللہ ان کے سارے بیٹے اور بیٹیاں تحریک اسلامی کا اثاثہ ہیں وہ ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان بھی ایک پل کا کردار ادا کرتے ہی۔ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت ہے اس کے ساتھ ان کی وابستگی بے پناہ تھی جس طرح سے سید علی گیلانی ؒ پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کی منزل قرار دیتے تھے اسی طرح سے مولانا عبدالمنان ؒ بھی پاکستان کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے تھے اور اس حوالے سے اس کے نظریاتی استحکام پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں تھے وہ ریاست کی قیام کی علامت تھے اور ریاست کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کی بھی وہ ایک علامت تھے بلا شبہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کوکماحقہ اد ا کیا۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔یہ بھی نہایت خوش آئند ہے کہ ہے کہ ان کی تدفین ہمارے جماعت کے مرکز میں ہوئی جہاں پر مولانا غلام نبی نوشہری صاحب پہلے ہی سے مدفون ہیں۔ تحریک کے یہ دونوںعظیم سالار تھے اور ان کی آپس میں بڑی گہری دوستی اور تعلق بھی تھا دونوں بابا چلاسی کے مرید تھے اور حلقہ ارادت سے ان کا بڑا ایک گہرا تعلق تھا۔دونوں یہ پیغام بھی دے گئے کہ آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر گلگت بلتستان اسلامی تحریک کی وساطت سے ایک نظریاتی تسبیح کے اندر الحمدللہ مربوط ہیں ۔ان قائدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ ان کے مشن کی تکمیل کے لئے ہم اسی طرح کام کریں جس طرح ہمارے ان قائدین نے کیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی مشن کی تکمیل کا ذریعہ بنائے آمین۔
٭٭٭