مولانا غلام نبی نوشہریؒ ایک تحریک ایک کارواں

مولانا غلام نبی نوشہریؒ ایک تحریک ایک کارواں

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

24جون 2024ء بمطاق17ذوالحجہ بروز سوموار علیٰ الصبح جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے نائب امیر، حزبُ المجاہدین کے سابق سرپرست اعلی، ڈائریکٹر امورِ خارجہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر اور چیئرمین ریلیف آرگنائزیشن فار کشمیری مسلمز مولانا غلام نبی نوشہریؒ تقریباً 84برس کی عمر میں اِس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کی وفات کی خبر نے آزاد جموں و کشمیر، مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور پاکستان کی فضاء کو سوگوار کردیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے نماز جنازہ پڑھائی ،سماجی کارکن، مذہبی رہنما، سیاسی و سرکاری شخصیات اور حریت رہنماؤں نے آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کی۔یوں جماعت اسلامی کے ایک ہمہ وقت کارکن، داعی اور مبلغ کی حیثیت سے پژمردہ دلوں کو روشن کرنے والا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔ اُن کی رحلت کی خبر مقبوضہ جموں و کشمیر، آزاد جموں و کشمیر، پاکستان و بیرون ممالک میں بسنے والے تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کیلئے بجلی بن کر گری۔ آزاد جموں و کشمیر، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خاص کر صوبہ جموں میں اُن کی تحریکی و سماجی خدمات لازوال ہیں۔ مولانا غلام نبی نوشہری ؒنے صوبہ جموں خاص کر بھدرواہ، مرمت ڈوڈہ میں تحریکی خدمات سرانجام دیں۔۔ کئی مرتبہ راقم کو اُن کا انٹرویو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جب کبھی وہ جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ظلم و ستم دیکھتے یا پاکستان کو مسائل میں گرا دیکھتے تو تڑپ اُٹھتے۔ کئی مرتبہ جب میں اُن کی عیادت کیلئے گیا تو خاصی دیر تک جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی۔ کشتواڑ کے غلام حسین متوؒ، ماسٹر غلام نبی گندنہؒ ، ماسٹر غلام محمد شیخ ؒ، عبد الرشید متوؒ، شہیدعبدالرشید اصلاحیؒ، مرمت ڈوڈہ کے صحرائی، بھدرواہ کے عبدالحئی خطیبؒ اور سعداللہ تانترےؒ سمیت بہت سارے تحریکِ اسلامی کے افراد کیساتھ گزرے ہوئے واقعات کو یاد کرتے۔

امیر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر مولاناسعدالدین تاربلی ؒکے حکم پر ڈوڈہ، بھدرواہ اور جموں قصبے میں دعوتی کام کا سلسلہ شروع کیا۔ نوشہری صاحب کے بقول سیّد صلاح الدین احمد کے ہمراہ مرمت، بھدرواہ میں ہم نے دعوتی کام کا آغاز کیا، میں نے ڈوڈہ اور جموں کے لوگوں میں بہت سادگی پائی یہ لوگ جفاکش اور بہادر ہیں۔ وہاں ہم نے بہت سارے کارکن تیار کئے، مولانا غلام نبی نوشہری ؒکا تعلق ایک روحانی و دینی خاندان سے تھا۔ آپ عالم فاضل کی ڈگری بھی حاصل کرچکے تھے۔ عوامی خدمات ،اپنی صلاحیتوں اور اچھی کارکردگی کی بنیاد پر جموں و کشمیر اسمبلی کے ممبر بنے۔ ممبر اسمبلی ہوتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنا آپ کی ذمہ داری تھی۔ حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں کئی بار جموں و کشمیر اور بھارتی جیلوں میں بھی قید رہے۔ مرتے دم تک جماعت اسلامی کیساتھ وفا نبھائی۔غلام نبی نوشہریؒ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کا بہت بڑا اثاثہ تھے۔ آپ کی تحریکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک پھل دار درخت گرگیا ہے۔ اُنہوں نے سیّد مودودیؒکے سچے کارکن کی حیثیت سے کامیابیوں کا سفر طے کیا۔ غلام نبی نوشہری ؒجیسے تحریکی افراد صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اُن جیسے لوگ تاریخِ انسانی کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں جن پر تاریخ فخر کرتی رہے گی۔ آپ شعلہ بیان مقرر اورخطیب تھے۔ آپ نے کبھی بھی حق کو نہیں چھپایا اور نہ کبھی اصولوں پر سودا بازی کی۔ بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان کارکن تحریکِ اسلامی کیلئے تیار کئے۔ مولانا غلام نبی نوشہریؒ نے تحریکِ آزادی جموں و کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر بھی اُجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 30 برس قبل مولانا نے لندن کے ایک پروگرام میں اسلامک مشن کے زیرِ اہتمام منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی۔ وہاں اُنہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ کشمیری عوام اُمتِ مسلمہ کا حصّہ ہیں۔ تاہم اُمتِ مسلمہ جموں و کشمیر کے عوام سے سخت غفلت برت رہی ہے کشمیری عوام گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے حق خودارادیت کی جنگ لڑرہے ہیں بھارت مختلف ہتھکنڈوں اور حربوں سے اہل جموں و کشمیر کو اُن کے بنیادی حق سے محروم رکھے ہوئے ہے اور بھارت ظلم کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ ان مظالم کے خاتمے کیلئے ضروری تھا کہ تمام اسلامی ممالک مل کر بھارت پر دباؤ ڈالتے، اگر ایسا ہوجاتا تو بھارت کی کیا مجال تھی کہ وہ اسلامیانِ جموں و کشمیر کی طرف میلی آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکتا۔ مولانا نوشہری ؒنے مطالبہ کیاکہ مسلمانان عالم کا فرض ہے وہ اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ بھارت سے ہر قسم کے تعلقات ختم کریں۔ بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ سابق نائب امیر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر غلام نبی شہری ؒنے مزید کہا کہ مسلمانانِ عالم کیلئے سیرت مطہرہ کا پیغام یہ ہے کہ وہ مظلومان جموں و کشمیر کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں جہاں ہزاروں کشمیری مسلمان جانیں قربان کرچکے ہیں۔

وادی کشمیر سرینگر نوشہرہ سے کون واقف نہیں، اِس علاقے سے مختلف عظیم شخصیات نے جنم لیااور اِس علاقے سے ایسے تحریکی پھول کھلے جنہوں نے اپنی خوشبو سے وادی کشمیر کو معطر کیا، اُنہوں نے تحریکِ اسلامی اور تحریک آزادی جموں و کشمیر میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ کچھ روز قبل امیر حزبُ المجاہدین و چیئرمین متحدہ جہاد کونسل سیّد صلاح الدین احمد نے مولانا نوشہریؒ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے اور مولانا ؒنے بہت سارے دعوتی و تحریکی سفر ایک ساتھ کئے، اِسی سلسلے میں صوبہ جموں کے ضلع ڈوڈہ کے علاقے بٹوٹ، عسر، بگر، مرمت، بھدرواہ کی جانب رختِ سفر باندھا تو راستے میں ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی بھوک، کبھی پیاس، تو کبھی تھکاوٹ، اُن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تحریک اسلامی کے دعوتی کام کو سرانجام دیتے رہے۔ اِس نیک اور مخلص مجاہد بندے کو اللہ تعالیٰ کی رضا تحریک اسلامی کی کامیابی کے علاوہ اور کچھ پیش نظر نہ تھا۔ غلام نبی نوشہری ؒکے دل میں یہی آرزو تھی کہ تحریک اسلامی پھلے پھولے اور ریاست جموں و کشمیر کا ہر پیر و جواں سیّد مودودی ؒکی فکر سے منسلک ہوجائے۔
مولانا نوشہری ؒجماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ایک معروف رہنما تھے۔ وہ اپنی ذہانت فطانت پر نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں بلکہ آزاد جموں و کشمیر و پاکستان میں بھی مشہور تھے۔اُن کو اللہ تعالیٰ نے
دینی اور دنیوی علوم سے مالا مال کیا تھا۔ مولانا غلام نبی نوشہری ؒ نے جماعت اسلامی اور تحریکِ آزاد جموں و کشمیر کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ کچھ کتابوں کے مصنّف بھی تھے۔ کچھ ماہ قبل جب اُن کی دوسری کتاب طباعت کے مراحل سے گزر رہی تھی تو دورانِ ملاقات راقم سے مخاطب ہوئے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کیلئے بھارت کی قاتلانہ مہم بازی کوئی نئی بات نہیں، بھارت اور اُس کی خفیہ ایجنسیوں نے کب جماعت اسلامی کو اپنے عتاب کا نشانہ نہیں بنایا۔ اُنہوں نے قدم قدم پر اپنی اسلام دشمنی اور مسلمان بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو مصائب و مشکلات سے دوچار نہ کیا ہو۔ وجہ صرف یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقامتِ دین کا وہ انقلابی فریضہ انجام دینا چاہتی ہے جو طاغوت و باطل کے خلاف ایک اعلان جنگ سے کم نہیں۔ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر نے کبھی بھی طاغوت کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، ہم نے ہمیشہ اسلام کی بالادستی کیلئے کام کیا، ملّت کے اتحاد کو بحال کرنے کیلئے جان جوکھم میں ڈال کر دشمنیاں مول لیں۔جماعت اسلامی ایک کھلی کتاب کی مانند لوگوں کے سامنے ہے، ہم نے اصولوں سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا، نہ ہی دوست اور دشمن اور حق و ناحق کے درمیان تمیز کرنے کی قرآنی کسوٹی سے منہ موڑا۔ اِسلئے بھارت ہمارا اور ہم بھارت کے باطل نظام کے دشمن ٹھہرے۔ایک دوسرے کے خلاف یہ دشمنی عملاً اُس تاریخی تسلسل کا حصّہ ہے جو کبھی فرعون اور موسیٰ ؑکبھی ابراہیم ؑاورآذر کبھی محمد مصطفی ﷺاور ابو جہل کے درمیان کشمکش کا باعث بنی۔ آج کل بھارت جماعت اسلامی کے زعماء ،ارکین، ہمدردوں اور رفقاء کو چن چن کر قتل اور گرفتار کر رہا ہے۔ اِس خام خیالی میں مبتلا ہو کر کہ وہ اِس طرح سے ریاست جموں و کشمیر کی سرزمین پر اپنا تسلط قائم رکھ سکے گا لیکن ہمارا پختہ یقین و ایمان ہے کہ آج تک جتنے بھی خدا کے باغی اور سرکش بندگانِ خدا پر ظلم و ستم ڈھاکر اپنی دھاک زمانے پر بٹھاتے رہے وہ آخر کار ذلیل و رسوا ہو کر رہے۔ فرعون کا انجام ہمارے سامنے ہے، ابو جہل کی عاقبت سے ہم واقف ہیں ،یزید اور حسین ؓکے درمیان معرکے کا حال ہماری نظروں کے سامنے ہے۔اِن تاریخی حقائق سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بھارت جو تحریکِ اسلامی کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے وہ بھی ناکامی سے دو چار ہوں گے۔ جماعت اسلامی کو ختم کرنا بھارت کی بھول ہے، یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ہزاروں اراکین، کارکنان اور ہمدرد شہید ہوئے اُن کے جواں سال بیٹے اللہ کوپیارے ہوگئے لیکن بھارت کے ہاتھ کیا آیا؟ رسوائی ذلت اور خواری۔۔۔ بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتی اِس تحریک اسلامی کی آبیاری میں مولانا غلام نبی نوشہری ؒ کا بھی بھرپور حصّہ ہے، خاص کر جموں، گجر نگر اور بہو قلعہ میں مساجد اور مدارس کے قیام میں مولاناؒکے کردار کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔۔ مولانا ؒاپنی کتاب ـ’’قصہ نصف صدی‘‘ میں جموں کے حوالے سے رقمطراز ہیں۔
اسپیشل جیل جموں کے چند واقعات
اندرا گاندھی نے جب بھارت بھر میں ایمرجنسی لگائی تو شیخ عبداللہ نے موقع غنیمت جان کر اُس کا اطلاق مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھی کیا۔ کولگام میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ ہوا جس میں جماعت کے پانچ ممبرانِ اسمبلی نے مسئلہ کشمیر اور ایمرجنسی کے حوالے سے بھرپور تقریریں کیں۔ چنانچہ ہم پانچوں کے خلاف ایک جعلی کیس بنایا گیا جس کے نتیجے میں ہمیں دس برس کی سزا ہوسکتی تھی۔ ہمیں گرفتار کرکے جموں جیل بھیج دیا گیا۔یہاں جیل میں جماعت کے کئی نامور قائدین پہلے ہی قید تھے۔ اُن میں مولانا حکیم غلام نبیؒ سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر، صوبہ جموں کے امیر محترم سعد اللہ تانترے صاحبؒ (گھٹ ڈوڈہ)، غلام نبی فرید آبادیؒ گوجر نگر جموں اور قیم صوبہ جموں عبدالرشید اصلاحی صاحبؒ (شہید) شامل تھے۔

ہمارے ساتھ صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے آر ایس ایس اور راشٹریہ سیوگ سنگھ اور دوسری متعصب ہندو تنظیموں کے خاص خاص لوگوں کو بھی جموں جیل میں نظربند کیا گیا۔ ایک ماہ تک ہمارا اور اُن لوگوں کا عجیب آمنا سامنا ہوتا رہا۔ وہ ہمیں دشمن کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب ہم ایک ہی جیل میں ہیں تو کیوں نہ ہم اِن کے قریب ہونے کی کوشش کریں ممکن ہے فائدہ ہو۔ چنانچہ ہم نے اُن سے کہا کہ بھائیو! ہمیں شوق ہے کہ ہندی زبان سیکھیں۔ کیا آپ ہمیں ہندی سکھا سکتے ہیں؟ وہ خوش ہوگئے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے بھی فرمائش کردی کہ کیا آپ ہمیں قرآن شریف پڑھا سکتے ہیں؟ ہم بھی دیکھیں کہ اِس میں کیا لکھا ہے۔ دونوں طرف اتفاق ہوا۔ ہم روزانہ صبح دو گھنٹے اُن سے ہندی زبان پڑھنے اور لکھنے کی کوشش کرتے تھے اور وہ ہم سے یسرناالقرآن۔ اِس دوران مختلف موضوعات پر آپس میں تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ باقاعدہ مختلف عنوانات پر بحث و مباحثہ بھی ہونے لگا۔ ہمارے درمیان ایک اچھا ماحول بن گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل ہندو تھا، یہ دوستانہ ماحول دیکھ کر وہ پریشان ہوا۔ دو تین ماہ اِس دوستانہ ماحول میں گزرے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ آپس میں مجلس مذاکرہ بھی کریں گے۔ ہندو لیڈر بھی تیار ہوگئے۔ یقین کیجیے،جب ہم اسلام کے معاشی نظام کے حوالے سے کسی موقع پر بات کرتے تو ہندو لیڈر برملا کہتے کہ ہندو مذہب میں مکمل زندگی کا کوئی جامع پروگرام نہیں، جیسا آپ کہہ رہے ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو واقعی اسلام ہی مکمل دین ہے۔ مختلف موضوعات پر مشترکہ پروگرامات ہوتے رہے۔ وہ اِس طرح ہمارے قریب ہوگئے تو اُنہوں کہا کہ ہمیں اردو اور انگریزی میں اپنا لٹریچر فراہم کریں۔ چنانچہ ہم نے اُن کیلئے جیل میں لٹریچر منگوایا۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ کیسے دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ جیل سے رہائی کے وقت دونوں طرف بعض دوست روتے نظر آئے۔ رہائی کے بعد اُن کے ساتھ جموں میں بھی اچھا تعلق قائم رہا۔ جب بھی ہمارا جموں میں سرمائی بجٹ سیشن ہوتا تو وہ ہندو لیڈر ہم سے ملنے آتے۔ اپنے گھروں میں لے جاتے۔ اُن کا ایک لیڈر شری سوشیل کمار جو ممبراسمبلی بھی تھا، ایک بار میرے گھر سرینگر آیا۔ جمعہ کے دن اُس نے کہا، میں آپ کی مسجد میں جاکر سپیشل جیل جموں میں گزارے گئے واقعات کے بارے میں اپنے تاثرات لوگوں سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جماعت کی طرف سے میں نے سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں چودہ پندرہ برس بحیثیت امام و خطیب خدمات انجام دی ہیں، اِسلئے میں اُس کو اپنے ساتھ مسجد لے گیا۔ اُس نے جیل میں ہمارے ساتھ گزارے وقت اور جماعت اسلامی کے متعلق اظہار خیال کیا اور کہا کہ حکومت نے ہمیں آپس میں لڑانے کیلئے ایک ساتھ سپیشل جموں جیل میں نظربند کیا تھا لیکن وہاں اِن لوگوں کے دوستانہ رویے اور کردار کی وجہ سے ہماری دوستی ہوگئی اور ہمارے درمیان جو عموماً غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں وہ بھی جیل میں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں۔ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ حُسن اخلاق اور قرآنی تعلیمات ہی نفرتوں اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرسکتی ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎

گر تومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جزبہ قرآن زیستن

جیل کا ایک اور واقعہ
ایک دن امیر زندان مولانا حکیم صاحبؒ کی امامت میں نماز ظہر ادا کی۔ نماز کے بعد امیر صاحب درس قرآن کا فریضہ سرانجام دے ہی رہے تھے کہ اچانک میرے کانوں میں کسی کتے کی بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ کسی نے اُسے پتھر مارا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ آواز سن کر میرے دل پر سکون کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ درسِ قرآن کے بعد حکیم صاحب کو اِس حالت کے متعلق بتایا تو حکیم صاحب نے فرمایا، نوشہری صاحب! ہم یہاں جرم بے گناہی کے نتیجے میں بہت عرصے سے اپنے بچوں، والدین اور احباب سے سینکڑوں میل دور ایک جیل میں قید ہیں جس کی چاردیواری بہت بلند ہے۔ یہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ باہر کتے کو کسی نے پتھر مارا تو تکلیف سے اُس کی چیخ نکل گئی۔ کتا آزاد ماحول کا جانور ہے۔ اُس کی آواز آپ کے کانوں میں آئی تو آپ کو سکون سا محسوس ہوا۔یہ فرق ہے آزاد ماحول میں رہنے والے اور جیل کی چاردیواری میں رہنے والے انسانوں کا۔
الدنیا سِجْنُ المُؤْمِن ’’دنیا مومن کیلئے قیدخانہ ہے‘‘
اسی جیل میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔
جیل میں اکثر بڑے بڑے سانپ سوراخوں سے نکلتے نظر آتے تھے۔ ماہ رمضان کے چند دن گزرچکے تھے۔ ہم نے جیل کے ہندو باورچی کو کہا، (وہ ایک اخلاقی قیدی تھا) کہ آج ہم افطاری میں فرنی (میٹھا) کھانا چاہتے ہیں۔ افطاری سے ایک گھنٹہ پہلے اُس نے فرنی تیار کرکے لائی۔ ہم نے پلیٹوں میں ڈالنا شروع کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ تین تین چار چار مکھیاں ہر پلیٹ میں پڑی ہیں۔ ہمیں تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔ بیس پچیس گز کی دُوری پر واقع یہ کچن ایک بوسیدہ جگہ پر تھا۔ اُس میں ہر قسم کے حشرات الارض ”حاضری” لگاتے تھے۔ فرنی کے ساتھ مکھیوں کو دیکھ کر ہم نے باورچی کو کہا کہ آپ ہمارے لئے چائے بنا کر لائیں۔ وہ کچن میں گیا۔ اُس وقت وہاں کچن میں ایک سانپ نے کچن پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ باورچی نے اسے مارنے کیلئے پتھر پھینکا لیکن پتھر سانپ کو نہیں لگا۔ جواباً اُس نے باورچی پر حملہ کر دیا۔ باورچی چینچ کر باہر بھاگا۔ سبھی لوگ چیخ سن کر اُس طرف بھاگے۔ دیکھا تو سانپ پیچھے پیچھے اور باورچی آگے آگے تھا۔ کچھ اور قیدی وہاں آگئے۔ اتنے میں باورچی نے بڑا سا پتھر اُٹھایا اور سانپ کے سر پر دے مارا۔ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ سپریٹنڈنٹ جیل نے بتایا کہ یہ سانپ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ ڈستے ہی آدمی مرجاتا ہے۔ اِس سانپ کے مارنے پر اُس باورچی کی سزا میں پندرہ دن کی رعایت دی گئی۔ اُس روز ہم افطار میں کچھ کھائے پیئے بغیر رہے اور نہ ہی چائے پی سکے۔ یہ جموں کی معروف جیل تھی جہاں مرحوم شیخ عبداللہ کو برس ہا برس نظر بند رکھا گیا تھا، جیل میں مختلف سانپوں کی بھر مار ہوتی تھی، اب یہ جیل گرادی گئی ہے۔
صوبہ جموں کے بارے میں تاثرات
(جاری ہے)