مولانا غلام نبی نوشہری

اویس بلال

(گزشتہ سے پیوستہ)

جامع مسجد کی بحالی

جموں شہر میں شہیدی چوک میں ایک پرانی مسجد تھی۔ جموں اوقاف کے منتظمین نے اِس مسجد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اِس مسجد میں شرابی اور چرسی لوگوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ 1972ء میں جب میں جموں گیا تو اُس مسجد کی حالت زار دیکھ کر افسوس اور تعجب ہوا کہ اوقاف اسلامیہ جموں نے اُس مسجد کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ جماعت اسلامی صوبہ جموں کے امیر محترم غلام نبی فرید آبادی (مرحوم) کا تعلق ڈوڈہ سے تھا۔ اُنہوں نے اُس مسجد کی حالت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اللہ کے بھروسے پر ہمت کرکے اِس مسجد کو شرابیوں، چرسیوں اور اُوباش لوگوں سے پاک کرکے دوبارہ نمازیوں کیلئے تیار کریں گے۔ فرید آبادی صاحبؒ نے اِن لوگوں کو آہستہ آہستہ مسجد شریف سے بڑی حکمت سے نکالا اور خود اِس مسجد میں قیام کرکے مسجد کو دوبارہ آباد کیا۔ آس پاس رہنے والے بعض خود غرض مسلمانوں نے اوقاف والوں کو فرید آبادی صاحبؒ کے متعلق شکایت کی کہ یہ آدمی مسجد پر قبضہ کررہا ہے لیکن اُنہوں نے اوقاف اسلامیہ کے زمہ داران پر یہ واضح کردیا کہ یہ اللہ کا گھر ہے، اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے تو میں اِس مسجد کو سنبھالوں گا۔ فرید آبادی صاحب نے ایک عرصہ تک اِس مسجد کے ایک حصے میں قیام کرکے اُوباشوں کو بے دخل کیا اور صفائی اور مرمت کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے مسجد کو دوبارہ نمازیوں کیلئے قابلِ استعمال بنایا۔ آس پاس کے مسلمان دکانداروں اور علاقہ مکینوں کو اِس مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے تیار کیا۔ وہ چوبیس گھنٹے مسجد کے جملہ اُمور انجام دینے میں لگے رہے۔ حکومتی سطح پر کوئی اعتراض آتا تو محترم قاری سیف الدین صاحبؒ سے مدد لیتے۔قاری صاحب حکومتی سطح کے ذمہ داروں سے فرید آبادی صاحب کا مسئلہ حل کراتے۔ جموں میں جب بھی ہمارا بجٹ سیشن ہوتا، ہم ہر جمعہ قاری سیف الدین صاحب ؒسے اِس مسجد میں خطاب کراتے تھے۔ اِس طرح یہ مسجد دوبارہ آباد ہوگئی۔ اُس وقت اِس مسجد کی حیثیت ایک جامع مسجد کی ہے۔ اِس مسجد کو وسعت دینے کیلئے پھر فرید آبادی صاحبؒ نے کروڑوں روپے خرچ کئے۔ آج اِس مسجد میں ہزاروں لوگ نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مرحوم غلام نبی فرید آبادیؒ اور اُن کے چند ساتھیوں کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایک غیر آباد مسجد آباد ہوگئی۔

درس گاہ گوجر نگر کا قیام

گوجر نگر جموں شہر میں مسلمانوں کی بہت کم آبادی تھی۔ ایک موقعے پر مرحوم فرید آبادی صاحبؒ، مرحوم سعد اللہ تانترے صاحبؒ اور شہید عبدالرشید اصلاحی صاحبؒ جموں سے تعلق رکھنے والے سری نگر، جماعت کے امیر سعدالدین صاحبؒ سے ملنے آئے۔ امیر جماعت سے مرکز جماعت میں ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے امیر جماعت سے درخواست کی کہ ہم گوجر نگر میں ایک درس گاہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی جگہ ہم نے اِس سلسلے میں حاصل کی ہے لیکن اُس پر ایک صاحب نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے چونکہ گوجر نگر میں دوچار گھر ہی مسلمانوں کے ہیں اور متعلقہ حکومتی لوگ بھی ہمارے حوالے سے مخلص نہیں ہیں کہ کہیں اِن کا یہاں اثر ورسوخ بڑھ نہ جائے۔ ہم درس گاہ کے ساتھ چند مسلمان گھرانوں کو بھی آباد کرناچاہتے ہیں تاکہ یہاں مسلمانوں کا تناسب قدرے بڑھ جائے، اِسلئے ہماری گزارش ہے کہ آپ غلام نبی نوشہری صاحب کو چند ایام کیلئے جموں ہمارے پاس روانہ کریں۔ وہ ممبر اسمبلی ہیں۔ اُن کی سربراہی میں ہم درس گاہ کی جگہ پر رات کے وقت ایک دو کمروں کا اسٹریکچر تعمیر کرلیں گے۔ امیر جماعت نے مجھے حکم دیا تاکہ جموں جاکر اُن ساتھیوں کی رہنمائی کروں۔ ہم نے پلاننگ کی۔ اینٹیں کھڑکیاں، دروازے اور دوسرا سامان تیار کیا اور اُس جگہ دو کمرے راتوں رات تعمیر کر دیئے۔ قریب ہی ایک کمرے میں حکومت نے چپراسی محمد رمضان (شاید ڈوڈہ سے تعلق رکھتا تھا) یہاں کی نگرانی کیلئے رکھا تھا۔ رات کے وقت جب اُس نے دیکھا کہ چند لوگ اِس جگہ کمرے تعمیر کر رہے ہیں تو اُس نے شور مچانا شروع کردیا۔ دو آدمی ہم نے پہلے ہی اِس صورت حال سے نپٹنے کیلئے تیار کر رکھے تھے۔ اُنہوں نے پکڑ کر رمضان کو اُسی کے کمرے میں باندھ دیا اور وارننگ دی کہ خاموش رہو، ورنہ تمہارے ساتھ بُرا بھی ہو سکتا ہے۔ ڈر کے مارے وہ خاموش رہا۔ ساتھیوں نے دو کمرے راتوں رات تعمیر کئے۔ میں رات بھر گشت کرتا رہا اور حالات کا جائزہ لیتا رہا صبح ہوتے ہی رمضان چپراسی پولیس کے پاس گیا اور رات کا سارا قِصّہ پولیس کو بتادیا۔ پولیس نے اُسے آدمیوں کی شناخت کرنے کیلئے کہا۔ اُس نے کچھ ساتھیوں کی شناخت کی اور ساتھ میرے متعلق بتایا کہ یہ شخص بھی رات کو اِن لوگوں کی رہنمائی کررہا تھا۔ میں نے رات والے کپڑے اُتار کر نئے کپڑے پہن لئے تھے۔ پولیس والوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کیا، آپ کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میرا نام غلام نبی نوشہری ہے۔ سری نگر سے تعلق ہے اور میں اسمبلی ممبر ہوں۔ یہ سن کر پولیس والے گھبرا گئے اور اُلٹا چپراسی پر غصّہ ہوگئے کہ ایک ممبر اسمبلی کو involve کرکے تم ہماری پٹیاںبھی اُتروانا چاہتے ہو۔ چپراسی کو اُلٹا لینے کے دینے پڑگئے۔ اُس رات کی محنت کام آئی۔ پھر مسلمانوں کو بھی وہاں سرکاری ملکیتی زمین ملنے لگی۔ بہت عرصے سے یہ کوشش تھی کہ پہلے کی طرح مسلمان جموں میں دوبارہ آباد ہوجائیں، وہ خواب پورا ہوا جس کو تعبیر دینے کا سہرا اُن چند لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے اِس درس گاہ کے قیام کیلئے اوّل و آخر کوشش کی۔ اللہ نے بھی اُن کی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔

وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِینَ (القرآن)

پہاڑی قلعہ مسجد

سردیوں میں تمام ممبرانِ اسمبلی سرمائی بجٹ سیشن کیلئے جموں جاتے تھے۔ یہاں جموں شہر میں توی پل کے ساتھ ہی ایک پہاڑی ہے جہاں ایک مندر ہے۔ مندر کا نام بہو قلعہ ہے۔ سنا تھا کہ یہاں ایک پرانی بڑی مسجد بھی ہے۔ ایک روز ہم پانچوں جماعتی ممبران اسمبلی اُس پہاڑی پر گئے۔ یہ ایک بڑا قلعہ ہے جہاں ہندو پوجا پاٹ کیلئے آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ساتھ ہی ایک جگہ پر غیر آباد مسجد بھی تھی۔ مسجد کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ مسجد بندروں کی قیام گاہ تھی اور کچھ کتے بھی وہاں موجود تھے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، کسی نے اُسے آباد کیوں نہیں کیا؟ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اِس مسجد کو آباد کریں گے، چنانچہ ہم اِس مسجد میں آنے جانے لگے۔ ہم نے مل کر مسجد کی صفائی کی۔ مسجد کی دیواروں کو صاف اور ٹھیک کیا۔ میں نے میاں بشیر احمد کو جو اُن دنوں وزیر تھے، کو بھی ایک موقع پر مسجد بلایا۔ مسجد کی حالت دیکھ کر اُنہیں بھی بہت دکھ ہوا۔ پھر آخر طے پایا کہ ہم اِس مسجد کو آباد کرنے کیلئے اِس پہاڑی پر مسلمانوں کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسجد میں مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ میں اِس مسجد میں ہفتے میں ایک بار درس قرآن و درس حدیث دیا کروں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور اِس طرح آہستہ آہستہ یہ مسجد آباد ہوگئی۔ ہمارے کہنے پر کچھ مسلمانوں نے پہاڑی پر زمین خریدی اور گھر بنائے۔ الحمد للہ، آج کل اِس جگہ مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

1970ء میں بھدرواہ میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع تھا۔ امیر جماعت محترم سعد الدین صاحبؒ نے اُس اجتماع میں شرکت کیلئے فلاح عام ٹرسٹ کے چیئرمین غلام محمد بٹ صاحب اور مجھے اپنے ساتھ لیا۔ ہم تینوں بھدرواہ جانے کیلئے سری نگر سے بس پر روانہ ہوئے۔ بٹوٹ پہنچ کر بارش شروع ہوگئی۔ بٹوٹ، بھدرواہ، ڈوڈہ اور کشتواڑ کا راستہ اُس وقت تنگ اور خراب تھا، گاڑی تقریبا 32 میل چل کر ایک جگہ ملوری پہنچی۔ رات کا وقت تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ بس ڈرائیور نے بس روک لی اور اعلان کیا کہ یہ پہاڑ مٹی کا ہے۔ تیز بارش ہو رہی ہے۔ پہاڑ کھسک رہا ہے۔ مٹی نیچے آرہی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے۔ گاڑی کو آگے لے جانا خطرناک ہے۔ سب سواریاں بس سے اُتر کر پہاڑ پر چڑھنے لگیں۔ ہم بھی ساتھ چل دیے۔ اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ ہی آگے جاکے ہم تینوں ایک درخت کے پاس کھڑے ہوگئے۔ لوگ اِدھر اُدھر جا رہے تھے لیکن کوئی مکان یا جائے پناہ نہیں مل پا رہی تھی۔ حالات ایسے ہوئے کہ محترم سعد الدین صاحبؒ اور محترم غلام محمد بٹ صاحب مجھے کہنے لگے کہ اللہ کا شکر ہے، ہم راہ ِحق میں نکلے ہیں۔ ہم تحریکی ساتھی ایک ساتھ ایک جگہ کھڑے ہیں۔ اگر یہی جگہ ہمارے لئے دُنیا سے رخصت ہونے کی ہے تو ہمیں اِس پر اللہ سے شکر کے الفاظ کہنے چاہئیں کیوں کہ ہم راہِ حق کے سفر میں اکھٹے ہیں۔ باقی مسافروں کو تھوڑی تگ و دو کے بعد کچھ دُور ایک دوکان میں روشنی نظر آئی۔ سب دوکان کے اندر چلے گئے۔ رات اِسی طرح گزاری۔ دوکاندار کے پاس کھانے کیلئے کچھ بسکٹ تھے جو مسافروں نے خرید لئے۔ دوکاندار نے کہا، میرے پاس صرف چھوہارے ہیں، اگر لیں تو حاضر ہیں۔ دوکاندار ہندو تھا۔ میں نے لینے سے انکار کیا اور امیر جماعت سے واپس آکر کہا، دوکاندار کے پاس صرف چھوہارے ہیں، معلوم نہیں وہ کیا چیز ہے۔ کھائی جاتی ہے یا پی جاتی ہے۔ امیر جماعت نے کہا، جاؤ، لے آؤ، دیکھتے ہیں کیا چیز ہے یہ چھوہارے۔ دوکاندار نے تول کر دیئے تو دیکھا وہ خشک کھجور تھی۔ تب تینوں کو معلوم ہوا کہ خشک کھجور کو چھوہارہ کہتے ہیں۔

فجر کا وقت ہوا۔ پانی تھوڑا تھا۔ میں نے امیر محترم سے کہا کہ تیمم کرکے نماز باجماعت پڑھیں گے۔ اُنہوں نے منع کردیا۔ دراصل اُن ہی دنوں کشمیر میں ایک پنڈت لڑکی اپنی مرضی سے کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئی تھی۔ اُس کا نام پروین اختر رکھا گیا تھا۔ اُس پر پنڈتوں نے بہت شور مچایا تو مسلمانوں نے بھی سٹینڈ لے لیا۔ اُس وجہ سے سری نگر میں کشمکش بڑھ گئی تھی۔ ہماری بس میں پنڈت اور ہندو سواریاں تھیں۔ محترم امیر جماعت نے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ ہم الگ الگ انفرادی طور پر نماز فجر ادا کریں۔ کیونکہ جہاں ہماری بس رُکی تھی، یہ سارا علاقہ ہندوؤں کا لگ رہا تھا۔ صبح ہوئی تو دیکھا، پہاڑ کا ایک بڑا حصّہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے نیچے آچکا تھا۔ ہماری گاڑی بمشکل بچی تھی۔ اُس جگہ چوبیس گھنٹے بلڈوزر لگاتار کام کرتا رہتا تھا۔ یہ جگہ سال بھر بارشوں میں کھسکتی رہتی تھی، جیسے ناشری نالا، خونی نالااکثر خراب رہتا ہے۔ خیر صبح تین گھنے سفر کے بعد ہم بھدرواہ پہنچ گئے۔ اجتماع میں شرکت کی۔ شام کے وقت امیر محترم سعدالدین صاحبؒ نے خطاب کیا۔ سامعین میں شامل مسلمان، ہندو، مرزائی اور دیگر لوگ امیر جماعت کا خطاب سن کر بہت متاثر ہوئے۔ دو دن کے اجتماع کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ امیر جماعت اور دیگر ساتھی واپس سری نگر کیلئے روانہ ہوگئے۔ مجھے اور میرے ایک ساتھی حکیم غلام حسن کو بھدرواہ میں ٹھہرنے کیلئے کہا گیا، کیونکہ یہاں ساتھیوں کا مطالبہ تھا کہ ہم یہاں درس گاہ کھولنا چاہتے ہیں، اُس حوالے سے رہنمائی کیلئے ہمیں ایک دو ساتھی چاہئیں کہ درس گاہ میں کس طرح کام کرنا ہے، اُسے کیسے چلانا ہے۔ قرعہ فال میرے اور میرے ایک ساتھی کے نام نکلا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ہماری کاوش سے بھدرواہ کے مقام پر ایک درس گاہ کا افتتاح ہوا۔ چند چھوٹے بچے جامع مسجد بھدرواہ میں حاضر ہوئے۔

ہماری رہائش مسجد کے سامنے ایک کمرے میں تھی۔ ایک رات میں سویا۔ میرا ساتھی بھی قریب ہی سویا ہوا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ بلّی نما کوئی چیز میری آنکھ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں جاگ گیا اور ہاتھ سے اُسے دُور کیا۔ اندھیرا تھا۔ نظر کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ بار بار میرے چہرے پر حملہ کر رہا تھا۔ میں نے جھپٹ کر اُسے پکڑ لیا۔ یہ کوئی ایک، دو کلو وزن کا جانور تھا۔ میں نے اُسے پکڑتے ہی زور سے دُور پھینک دیا تو اُس کے منہ سے زبردست چیخ نکلی۔ میرا ساتھی بھی جاگ گیا۔ اُس نے کمرے کی لائٹ آن کی تو دیکھا وہ نیولا تھا۔ نیولے کے متعلق مشہور ہے کہ اُسے انسان کی آنکھ کھانے میں لذت آتی ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کشمیر سے بھدرواہ آیا تھا تو دو آنکھیں تھیں، اگر اللہ اپنا فضل نہ کرتا تو واپس ایک آنکھ کے ساتھ جاتا۔ کیا معلوم گھر والے پہچانتے بھی کہ نہیں۔ میرا ساتھی بھی چند دن درس گاہ میں کام کرتا رہا، پھر وہ واپس چلا گیا۔ اُس کے بعد میں بہت عرصے تک اکیلا چند بچوں کو پڑھاتا رہا۔ بعد ازاں مجھے کئی بار اُس علاقے کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یہاں صرف چند واقعات کا ذکر کیا گیا ورنہ اُن کی زندگی ایسے بے شمار واقعات سے لبریز اور مزین ہے۔