ڈاکٹر خالد محمود خان سابق امیر جماعت اسلامی
مولانا عبدالمنان رحمۃ اللہ علیہ گلگت بلتستان کی تحریک آزادی کے ہیرو تھے اور ان کا شمار امت کے عظیم قائد ین میں ہوتا تھا۔گلگت بلتستان کی آزادی کے بعد اسلامی تحریک کے قائد کی حیثیت سے اور جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے بانی امیر کی حیثیت سے سنگلاخ علاقوں میں اپنے لوگوں کی خدمت اورسماجی سطح پر اور پھر اقامت دین کی جدوجہد کو جس شان کے ساتھ مولانا نے کم و بیش ستر پچہتر برس تک جاری رکھا یہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ مولانا سید مودودی ؒکے ساتھ ان کا ذاتی تعلق تھا۔مولانا عبدالمنان کا تعلق چلاسی بابا سے بھی بہت گہرا تھا۔مولانا عبدالمنان مرحوم نے ہی چلاسی بابا کو مولانا مودودیؒ سے متعارف کروایا۔

مولانا عبدالمنان نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اسلامی تحریک کے گلگت بلتستان کے بزرگ قائدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مولانا عبدالمنان نے مشکل حالات میں جدوجہد کی۔اس دور میں سرگرم عمل سیاسی کارکنان اور اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بہت سارے اسباق موجود ہیں ۔مولانا نے ایک کتاب ڈوئیاں سے زوجیلا تک لکھی۔۔۔ ہماری نئی نسل کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔مولانا کی زندگی میں بہت سارے اسباب اور بہت سارے اسباق اور پہلو ایسے ہیں جو یقینا ہم سب کے لیے قابل تقلید ہیں۔مولانا کی زندگی محض گلگت بلتستان نہیں بلکہ سارے پاکستان اور آزاد کشمیر کے سماج میں ایک بلند ترین اسلامی انقلاب اور بقیہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کا نصب العین لے کر جو لوگ سرگرم عمل ہیں ان کے لیے قابل تقلید ہے۔مولانا جیسے لوگ قوموں میں مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔مولانا عبدالمنان رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کے بہت سارے ایسے پہلو ہیں جن پرکتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور جن پر محققین تحقیق بھی کرتے رہیں گے اور نئی نسل کے سامنے ان کی زندگی کے وہ گوشے بھی آئیں گے جو اب تک کماحقہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکے۔کسی نصب العین کے ساتھ جینا اور مشکل ترین حالات میں اپنے گھر والوں کی نگہداشت بھی کرنا،سماجی سطح پہ سرگرم رہنا،مشکل حالات میں اسلامی تحریک کے قائد کی حیثیت سے مخالفتوں کے باوجود گلگت بلتستان جیسے مسالک اور فرقوں میں بٹے ہوئے سماج میں ایک متوازن شخصیت کے طور پر آگے بڑھنا اور پھر ہر ایک طبقہ فکر اور مکتبہ فکر میں اپنے لیے احترام کے جذبات کو برقرار رکھتے ہوئے ہر ایک کے لیے مر جا خلا ئق بننا یہ مولانا ہی کا حصہ تھا اور مولانا کی زندگی کے یہ پہلو ہم جیسے لوگ جو اس زمانے میں سہولتوں والے زمانے میں آسودگی والے زمانے میں سرگرم عمل ہیں قابل تقلید ہیں اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ان کی جدوجہد کے ایک ایک لمحے کو قبول فرمائے اور ہم سب کو انہی کی طرح سرگرم عمل رہنے کی توفیق عطا فرمائے مولانا ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی کو دیکھ کے زندگی پہ اعتبار آجاتا تھا اور زندگی کے حوالے سے انسان میں ایک نئی روح اور ولولہ جنم لیتا تھا اور مولانا وہ شخصیت تھے جنہیں دیکھنے کے بعد اگلے وقتوں کے جو قرون اولیٰ کے مسلمان گزرے اورمصلح امت گزرے ان کی یاد تازہ ہوتی تھی اور مولانا کے قرب میں بیٹھنے سے ایمان و یقین میں اضافہ ہوجاتا تھا اور علمی حوالے سے بھی انسان کی پیاس کا ازالہ ہوتا تھا اور یوں مولانا ان بزرگوں میں سے تھے جو اب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔



گلگت بلتستان کے سماج میں اسلامی تحریک کے بڑی تعداد میں کارکنان کی صورت میں ایک تناور درخت ہے جس کے سائے میں وہاں کاسماج بھی اور وہاں کے آنے والے اسلامی تحریک کے کارکنان آگے بڑھ رہے ہیں یوں ایک فرد کے تن تنہا سفر کو اللہ نے یہ برکت اور وسعت عطا کی یہ ان کے اخلاص ان کی ہما پہلو محنت اور ان کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔مولانا کے اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اللہ تعالیٰ ان کو آسودگی عطا کرے عالم برزخ میں اور ان کے ایک ایک لمحے کی کاوش کو اللہ قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں انہی کی طرح جدوجہد کرنے اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے اور اس خطے کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے حوالے سے جدوجہد کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین.۔۔۔
٭٭٭