ڈاکٹر محمد مشتاق خان امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرگلگت بلتستان
مولانا عبدالمنان ؒ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے مجاہد اول ہیں،1947ء میں مولانا عبدلمنان وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے خطہ کی صورت حال کے پیش نظر علماء کرام کو جمع کرکے جہاد کافتویٰ حاصل کیا اورپھرپوری یکسوئی کے ساتھ جہاد کیا اور مجاہدین کی قیادت کی،مولانا گلگت بلتستان کی عہد ساز شخصیت ہیں،ان کی دعوت سے ان گنت لوگ جہاد میں شریک ہوئے۔ وہ جہاد کرتے ہوئے جس جس خطے سے گزرے کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ جہاد کا سفر رک گیا مگر مولانا عبدالمنان صاحب کے قدم نہیں رکے۔
مجاہد اول کے طوپر لوگوں کے اندر جذبہ آزادی ابھارا اور شوق شہادت کاشت کیا۔اس حیثیت سے وہ جہادکشمیر کے ان منفرد بانیوں میں سے ہیں، جومجاہد بھی رہے اور داعی جہاد بھی۔ وہ اسکیمو فورس کے بے سرو سامان لشکر کے قائد کے طور پراستور سے لے کر زوجیلا تک مصروف جہاد رہے۔ ان کی سپاہ میں ایسے سرفروش بھی شریک ہوئے اور مردانہ وار لڑے ، جن کے پیروں میں جوتیاں نہیں تھیں۔ اسی بے سرو سامانی کی حالت میں وہ کارگل اور دراس کی وادیوں کو روندتے ہوئے زوجیلا تک جا پہنچے۔
ہندوستان کو شکست سامنے نظرآنے لگی تو ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو جنگ بندی کی فریاد لے کر سلامتی کونسل میں پہنچ گئے تھے۔ پنڈت نہرو نے جنگ بندی کے بدلے وعدہ کیا تھا کہ امن قائم ہوتے ہی کشمیر میں استصواب رائے کرادیا جائے گااور کشمیریوں کو پورا پورا حق ِ خود ارادیت دیا جائے گا کہ وہ اپنی آزادانہ رائے سے فیصلہ کریں گے کہ پاکستان یا ہندوستان میں کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جنگ بندی نہ ہوتی تو مجاہدین بھارتی فوج کے کشمیر میں داخلے کے واحد راستے کو بند کرنے والے تھے۔
مولاناعبد المنان بھی زوجیلا کے محاذ جہاد سے واپس آگئے، مگران کے قدم عمر بھر رُکے نہیں، وہ زندگی بھرایک سچے مومن کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی خاطرجدو جہد کرتے رہے۔ کارگہہ حیات میں انہوں نے جو بھی فریضہ ادا کیا، اس کی کامیابی کے لیے ایک مخلص ترین انسان کے طور پر اپنی بہترین کوششیں شامل کیں۔ اپنے اس پاکیزہ کردار کے ذریعے وہ پورے خطے پرمثبت طور پر اثر انداز ہوئے۔ قدرت نے ان کو متنوع کردار سونپے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد انہوں نے اپنے خطے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اورتعمیر وترقی کی خاطر طویل سفر کیے، خصوصاًجہاد سے واپسی پرانہوں نے اپنی قوم کی تعمیر وترقی میں بے لاگ حصہ لیا۔ اسی سلسلے میں دوسری اہم شخصیات کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان سے بھی تفصیلی ملاقات کی۔ وزیر امور کشمیر اور دیگر اعلیٰ افسروں سے بھی ملے اور ہر محاذ پراپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔ ہر میدان میں ان کی جہادی اسپرٹ بروئے کار آتی رہی اور وہ ہر جگہ سے فتح یاب لوٹے۔

جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے بانی امیر کی حیثیت سے جماعت کی دعوت اور اس کے نظریاتی کام کے پھیلاؤ میں عملی حصہ لیا، انہوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر سے براہِ راست کسبِ فیض کیا تھا۔ اسی وجہ سے طبقہ علماء کی عمومی روش کے برعکس آپ کے مزاج ومذاق میں اعتدال وتوازن اور بصیرت و تحمل کے عناصر نمایاں ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے مرشد جناب چلاسی بابا کے نظریات اور افکار کا پرچم اُٹھائے ہوئے دکھائی دیتے تھے، بابا صاحب کی فکرونظر اورعلم وعمل بھی ان کی ذات میں جھلکتا تھا۔ ان کی ذات میں اخلاص وللہیت، فکرِ آخرت اورحمیت حق کا غلبہ ان ہی دو ہستیوں کی وجہ سے تھا۔ مولانا عبدالمنان مرحوم کوخراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جائے۔ان کا مشن اللہ کے دین کا قیام اور کشمیرکی آزادی تھا۔
٭٭٭