پروفیسرڈاکٹر آمنہ قاسم
میں نے جولائی 1997 میں پبلک سروس کمیشن کاانٹر ویودیا اور پاس ہوگئی۔اسی سال 20 اکتوبر میری بیٹی نمرہ کا یوم پیدائش ہے۔جنوری 1998 میں میراتقرری نامہ آگیا اور مجھے بحیثیت بائیولوجی لیکچرر عباس پور گرلز کالج حاضری دینی پڑی۔یہ جگہ راولاکوٹ سے تقریبا 3 گھنٹے کی مسافت پر تھی3ماہ کی نمرہ بھی ہمارے ساتھ تھی اماں کو اس بات کی تو بہت خوشی تھی کہ میری بہو لیکچرر ہو گئی ہے مگر پوتی سے جدائی کا دکھ بھی تھا۔قاسم کو سردیوں کی چھٹیاں تھیں اس لیے وہ بھی ساتھ گئے اور وہاں ہم نے ایک گھر کرایہ پہ لیا۔اب میری ٹرانسفر عباس پور سے راولاکوٹ تو فورا نہ ہو سکتی تھی اس لیے قاسم نے اپنی ٹرانسفر عباس پور کروا لی۔
یوں میں گرلز کالج میں بائیو پڑھاتی اور قاسم بوائز کالج میں اردو پڑھاتے۔گرلز کالج کے پرنسپل چودھری بشیرصاحب اور بوائز کالج کے پرنسپل جان محمد عباسی صاحب دونوں بہت اچھے انسان ثابت ہوئے کہ ان کے تعاون سے میری دونوں کلاسزدن 11 بجے سے پہلے ختم ہو جاتیں اور قاسم کی 11 کے بعد شروع ہوتیں۔ یوں نمرہ کو باری باری امی ابا سنبھالتے۔گھر کے کاموں کے لیے بھی ایک خاتون مل گئی۔ہمیں جو گھر کرائے پہ ملا اسکا مالک پٹواری تھا اور اس کی بیوی کا نام ہم نے اپنے طور پر پٹوارن باجی رکھ لیا تھا،بہت اچھے لوگ تھے جہاں بھی ہیں اللہ ان سے راضی ہو۔
جب میں کالج سے گھر واپس آتی تو کیا دیکھتی کہ نمرہ نہائی دھوئی دھوپ میں سوکھنے کے لیے پڑی ہے۔میں قاسم سے کہتی کہ آپ روز اس کو نہلا تے ہیں سردی میں یہ بیمار ہو جائے گی مگر میری بات نہ مانی اور پھر ایک دن پٹوارن باجی نے ان کو ڈانٹا کہ اتنی چھوٹی بچی کو روز کون نہلاتا ہے بچی کو نمونیہ ہو جائے گا۔ تب تھوڑا وقفہ ہونے لگا۔ایسے میں مجھے اماں بہت یاد آتیں کیونکہ اماں تو نمرہ کو ضرورت پڑنے پہ خود نہلاتیں،باپ تو کیا وہ ماں کو بھی اس قابل نہ سمجھتیں کہ اتنی چھوٹی بچی کو نہلائے۔ہم تقریباََ ہر ہفتے عباس پور سے راولاکوٹ اتوار کی چھٹی منانے آتے۔یوں دادی پوتی کو زیادہ جدائی برداشت نہ کرنا پڑتی۔سردیوں میں اماں ہمارے پاس عباس پور آجاتیں،نمرہ اب باتیں کرنے لگی تھی۔اماں اور نمرہ گھر میں نکلنا زیادہ پسند نہ کرتیں بار بار باہر گھومنے چلی جاتیں۔قاسم بار بار دادی پوتی کا لفظ استعمال کرتے،دادی پوتی کہاں جارہی ہیں؟کیا کر رہی ہیں؟وغیرہ۔نمرہ یہ لفظ ہنس ہنس کر دھراتی اور پھر ایک دفعہ اس کے ابا نے اسے سمجھایا کہ اماں دادی ہے اور نمرہ پوتی ہے تب نمرہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔” میں پوتی نہیں ہوں میں پوتی نہیں ہوں۔۔۔”نمرہ سمجھتی رہی کہ دادی پوتی اماں کا نام ہے جب اسے معلوم ہوا کہ وہ پوتی ہے تو اسے کچھ اچھا نہیں لگا۔بڑی مشکل سے چپ کرایا کہ وہ پوتی نہیں ہے وہ تو نمرہ ہے ہماری پیاری بیٹی۔
عباسپور کے ساتھ بہت پیاری یادیں وابستہ ہیں۔میں 9 بجے کالج جاتی مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ ساڑھے آٹھ سے نو تک آدھا گھنٹہ آفیشلی درس قرآن کے لیے مقرر ہے مگر عملا نہیں ہوتا تو میں نے پرنسپل سے بات کی۔ وہ بہت خوش ہوئے کیوں کہ ان کی خواہش کے باوجود کوئی یہ پیریڈ لینے کو تیار نہیں تھا۔اللہ نے یوں مجھے موقع دیا اور اس کے نتیجہ میں طالبات میں بڑی اچھی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔اسی دوراں کرہ ارض پر دو شخصیات اور نمودار ہوئیں،ایک عدیس احمد جس کا یوم پیدائش 24 فروری 2000 اور دوسرابلال احمد جو25 فروری 2001 میں پیدا ہوا۔اماں اب صرف دادی پوتی نہ رہیں بلکہ دادی پوتے بھی بن گئیں۔مجھ پہ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ گیا مگر ماں بیٹے کا تعاون مجھے حاصل رہا۔
البتہ عباس پور اور راولاکوٹ کے درمیان کا سفر بہت تکلیف دہ ہو گیا۔پھٹیچر قسم کی ویگنوں پہ سفر پہلے بھی آسان نہ تھا اور اب تین بچوں کے ساتھ اور زیادہ مشکل ہو گیا۔کبھی کوئی رونا شروع کر دیتا،کبھی کسی کو الٹیاں شروع ہو جاتیں۔دلچسپ بات یہ ہوتی کہ ہم بچوں میں سے کسی میں آثار دیکھتے تو اس کے منہ کے قریب شاپر پکڑے رکھتے تاکہ گاڑی اور کپڑے دونوں محفوظ رہ سکیں جب کافی دیر ایسا کچھ نہ ہوتا تو اطمینان محسوس کرتے اور شاپر ہٹا لیتے۔بس شاپر ہٹانے کی دیر ہوتی پھڑک کر کے ساری الٹی ہمارے کپڑوں پر۔شاید یہ بھی ایک اشارہ تھا کہ جب انسان ہو تو اتنا بھی دامن نہ بچاو کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔یوں فرشتے کیا وضو کرتے ہماری اپنی نمازیں بھی الٹیوں والے کپڑے تبدل کر کے ہی ادا ہو پاتیں۔
ایک حل یہ بھی تھا کہ ہم راولاکوٹ آنا جانا کم کر دیتے مگر یہ مشکل تھا۔میرے سسر تو میری شادی سے پہلے فوت ہو چکے تھے گھر کی ساری ذمہ داری قاسم پر تھی خاص کر بہنوں کے لیے رشتوں کا آنا،قبول یا رد کرنا،اگر قبول ہو تو مختلف امور طے کرنا اور شادی کے سارے معاملات طے کرنا ان سب میں قاسم کی موجودگی بہت ضروری تھی خاص کر اماں کو بیٹے کی رائے کے بغیر کچھ نہیں کرنا تھا۔ان امور میں بھائی بہنوں میں اختلاف بھی ہو جاتا،بعض دفعہ اختلافات بڑھ بھی جاتے خاص کر جب میں شوہر کی حمایت میں خواہ مخواہ بیچ میں کود پڑتی۔میری خامی یہ ہے کہ میں نیوٹرل نہیں رہ سکتی جو حق لگے وہ کہہ دیتی ہوں مگر یہ ضروری تو نہیں کہ حق وہی ہے جو مجھے حق لگ رہا ہے اسی لیے تو وہ دعا سکھائی گئی کہ اے اللہ مجھے حق کو حق اور باطل کو باطل ہی دکھانا
ایسے اختلافی معاملات میں اماں بھی بیٹے کی حمایتی ہوتیں مگر اماں بہت سمجھدار تھیں۔گھر سے باہر تو اماں شیرنی کی سی گھن گرج رکھتیں مگر گھر میں بھیگی بلی بن جاتیں اورچپکے چپکے کہتیں لڑکیوتمھارا لالہ ٹھیک کہتا ہے۔
میں کبھی کبھی اماں سے کہتی کہ اماں ساری غلطی آپ کی ہے آپ اپنے بیٹوں بیٹیاں سے ڈرتی ہیں آپ کی جگہ میری امی ہوتیں تو کسی کی مجال نہ ہوتی جھگڑا کرنے کی۔اماں اپنی زبان میں مجھے صبر کی تلقین کرتیں۔اماں اپنے بچوں کو کبھی بھی ناراض نہ کرتی تھیں۔اماں کی اعلی ظرفی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میں اماں سے اس سلسلے کے جو دکھ درد بانٹتی اماں ان کا ذکر کسی اور سے کبھی نہ کرتیں اور نہ اماں نے مجھ تک کبھی کوئی ایسی بات کسی اور کی پہنچائی۔
اماں میری ماں ہی نہ تھیں بلکہ سہیلی بھی تھیں،مجھے قاسم سے کوئی شکایت ہوتی تو بھی اماں سے کہتی مگر اماں تب بھی مجھے صبر کا کہتیں اور بیٹے سے کچھ نہ کہتیں۔کیسی ماں تھی جو کسی سے کچھ نہ کہتی مبادا کوئی ناراض ہو جائے۔عباس پور سے راولاکوٹ میری ٹرانسفر جس خاتون کی جگہ ہوئی وہ کافی بااثر تھیں انھوں نے کیس کردیا اور میں بھی ضد پر اڑ گئی کہ واپس عباس پور نہیں جاوں گی اور یہ جھگڑا چلتا رہا یہاں تک کہ 2005 کا زلزلہ آیا اوربہت تباہی مچی۔حالات کافی خراب تھے اور نمرہ، عدیس اور بلال کا ایک اور بھائی ہشام عبدللہ دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے چین تھا۔ایسے میں میمونہ باجی(میمونہ حمزہ)نے مجھے کال کر کے آفر کی کہ پنڈی میں ان کی امی کا گھر خالی ہے اس لیے میں ادھر شفٹ ہو جاوں،میں نے آفر قبول کرلی۔30 نومبر کو ہشام عبدللہ تشریف لے آئے اور میں میمونہ باجی کی محبت اور خدمت سے لطف اندوز ہونے لگی۔۔۔میمونہ باجی میری ایسی پرخلوص دوست ہیں جو ہر کڑے وقت میں میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں،خاص کر نمرہ کی بیماری اور موت کے مواقع پہ۔میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ اللہ نے مجھے کئی پرخلوص اور بہت محبت کرنے والی ساتھیوں سے نوازا ہے۔
پنڈی قیام کے دوران ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد ڈیپوٹیشن کرڈالوں اور یوں دسمبر 2006 میں،میں ڈیپوٹیشن پہ اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز ایف ایٹ ون میں آگئی۔بعد میں ایف پی ایس سی کے ذریعہ مستقل یہیں براجمان ہو گئی۔قاسم نے بھی اسلام ڈیپوٹیشن کروالی اور یوں ہمارا دانہ پانی ادھرہی لکھ دیا گیا۔
یہاں بھی اماں سردیوں میں ہمارے پاس آتیں اور اپنی محبتوں سے ہمیں مستفید کرتیں۔پوتوں سے بھی اماں کو بہت پیار تھا مگر نمرہ کی تو بات ہی اور تھی،دونوں دادی پوتیbest friends بنی رہتیں۔دونوں کی عادات بھی ملتی جلتی تھیں۔میرے مزاج میں سنجیدگی ہے اور عام لڑکیوں جیسے شوق(جو ہونے چاہئیں)نہیں ہیں مثلا شاپنگ کرنا،مہندی لگانا اورمیک اپ کرنا وغیرہ بس بحالت مجبوری ہی کرتی ہوں اگر کرنا پڑے۔مگر دادی پوتی بیحد شوقین تھیں،خاص کر شاپنگ کی۔
ایک دن نمرہ اور اس کی دادی دونوں گھر پر تھیں جب میں کالج سے واپس آئی تو اماں کا حلیہ دیکھ کر میں بہت ہنسی اور میں نے اماں سے کہا کہ ”آپ تو آج دلہن بنی ہوئی ہیں۔”اماں نے مسکرا کر کہا” کیا کروں یہ نمرہ مجھے نہیں چھوڑتی۔”نمرہ نے اماں کے بالوں میں مانگ نکال کر دونوں طرف تتلیوں اور دل والی رنگ برنگی سلائیاں لگائی ہوئی تھیں،ساتھ کچھ جیولری بھی پہنائی ہوئی تھی اور اماں دلہن سے زیادہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھیں،بس فرق یہ تھا کہ اس بچی کے بال سفید تھے اور منہ میں دانت ایک ہی تھا۔
اماں کی زندگی کے کچھ واقعات تھے جو اماں مجھے بار بار سناتیں اور میں ہر بار ایسے سنتی جیسے پہلی بار سن رہی ہوں۔ان میں سے ایک یہ بھی تھا۔
” آمنہ میں سات بھائیوں ایک بہن تھی اور گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔سب کی بہت لاڈلی تھی۔میری چاچیاں کہتیں کہ جب اس کی شادی ہوگی تو یہ دوسرے دن کنگا پراندہ لے کر واپس آجائے گی(یعنی گھر بسانے والی نہیں لگتی)۔پھر میری ماں فوت ہوگئی اور میرے باپ نے بہت چھوٹی عمر میں میری شادی مجھ سے 20 سال بڑے شخص سے کردی(اماں ابا کی دوسری بیوی تھی پہلی بیوی سے اولاد نہیں تھی)۔آمنہ پھر میں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔آمنہ غیرت بڑی چیز ہوتی ہے۔میں غیرت مند ماں باپ کی اولاد تھی۔۔۔” ہائے اللہ کیا فلسفہ تھا؟اماں نے کوئی علامہ اقبال کو نہیں پڑھا تھا مگر اماں کو معلوم تھا کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ ودومیں
درویش کو پہناتی ہے تاج سر دارا
اماں درویشنی کا تاج تو ان کی اولاد ہے جس کے پاس دینی تعلیم بھی اور دنیوی بھی ہے اور وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے۔میں کالج سے واپس آکر سب کو کھانا دے کر،نماز پڑھ کر قیلولہ ضرور کرتی ہوں۔اماں کو یہ بات پسند نہ تھی ان کا دل چاہتا تھا کہ میں بیٹھ کر ان کے ساتھ باتیں کروں۔خود اماں دن کو نہ سوتی تھیں۔میں بھی اس وقت ڈھیٹ بن جاتی کہ مجھے معلوم تھا کہ شام مجھ سے کھانا پکانے کا کام نہیں ہو گا اگر میں نے تھوڑا آرام نہ کیا۔ اماں کا بیٹا چائے بناتا،خود بھی پیتا اور اماں کو بھی دیتا،لیکن جب میں اٹھتی اور اماں سے پوچھتی” اماں چائے پی ہے میں بنا کر دوں؟”
اماں کہتیں ” نہ بنائیں۔بنائی تھی قاسم نے آدھا سا کپ مجھے بھی دیا تھا۔”میں اماں کے دل کی بات سمجھ جاتی اور بہت اچھی سی چائے بنا کر ایک بڑا کپ بھر کر اماں کو دیتی اور پھر مجھ پہ دعاوں کی بارش ہونے لگتی اور اماں بالکل بھول جاتیں کہ یہ وہی خاتون ہے جو تھوڑی دیر پہلے انھیں کمپنی دینے کی بجائے خود غرضی کا شاندار مظاہرہ کر چکی ہے۔بوڑھے بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں بہت جلد ناراض بھی ہوتے اور بہت جلد راضی بھی ہوجاتے ہیں۔میں نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ مجھے اماں کی دعاوں کا مستحق کرنا۔اللہ نے میری بات کو رد نہیں کیا۔اماں نے مجھے بہت دعائیں دیں دنیا سے جاتے جاتے بھی۔
اماں ایک صابر شاکر اور غم وخوف سے آزاد قسم کی خاتون تھیں پر آخر میں دو غم اماں جیسی خاتون کو بھی مل ہی گئے۔ایک نمرہ کو بلڈ کینسر ہونا اور اس کا دنیا سے چلے جانا اور دوسرا آصف کے گھر کا ٹوٹنا۔آصف میرا اکلوتا دیور بہت پڑھا لکھا،بہت نیک اور اچھا انسان ہے،انگلینڈ گیا،اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی لے گیا،وہاں ایک اور بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی،جب شادی کے بارہ تیرہ سال ٹھیک گزر گئے تو اس کے بعد اس کی بیوی کو اس میں اتنی خامیاں نظر آنے لگیں کہ علیحدگی ہو گئی۔اماں کو اس بات کا بہت دکھ تھا۔۔۔(جاری ہے)
پروفیسر ڈاکٹر آمنہ قاسم اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز ایف ایٹ ون میں بائیولجی پڑھاتی ہیں۔اسلام کو مکمل ضابط حیات سمجھتی ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ان کے شوہر پروفیسر قاسم بن حسن ہیں۔جن کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے گاوں سرمرگ ہندوارہ سے ہے۔پروفیسر صاحب کے والد 1947ء میں ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں۔ڈاکٹر صاحب آزاد کشمیر اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
٭٭٭