میری پیاری امی جان

ام عبداللہ ہاشمی

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس کی جگہ نیا اخروٹ کا درخت بالکل صحن میں ہے۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے گھر میں سانپ بہت آتے تھے امی اکثر ان کو مارتی تھی اتنی بہادر تھی کہ ایک دفعہ دو سانپ ایک ساتھ لیٹے تھے مگر امی نے دونوں ماردئیے۔امی کا نشانہ پکا تھا۔امی بہت مہمان نواز تھی ،ملنسار خوش اخلاف اس لیے ہمارے گھر مہمان بہت آتے تھے۔ہماری خالہ کے بچوں کا پکنک پوائنٹ ہمارا گھر تھا ۔گھر کے پاس ایک قدرتی سوئمنگ پول ہے بلکہ دو تین چار پول ہیں جن میں ہم سب مزے سے سوئمنگ کرتے ،امرود توڑ کر کھاتے ،امی اپنی زمین سے بھٹے انگاروں پر بھون کردیتی ،صبح تنور کی روٹی مکھن سے ناشتہ۔الحمدللہ بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔امی دیسی مرغے پال رکھتی جب یوکے سے ہمارے ماموں نعمانی ماموں آتے تو ان کے لیے دیسی مرغا پکاتی ۔ماموں نے امی کا بے حد خیال رکھا ،ہمیں پڑھایا ہر طرح سے ہمارا خیال رکھا ۔ماموں کی شکل امی سے ملتی ہے ،امی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہت اچھی تھی،ہمارے پڑوسی بھی بہت اچھے ہیں،ان میں ایک گھر سادات کا بھی تھا مائی صغراء صاحبہ وہاں رہتی تھی۔ ہمارے پڑوس میں قدرتی سومنئگ پول کے پاس تھوڑا اوپر ان کا ایک بیٹا ہے جو اللہ لوگ سے ہیں ۔اشفا ق شاہ میرے ابو کی عمر کے ہیں مائی صاحبہ کے والد کا نام تھا حسین شاہ انہوں نے دو تین شادیاں کررکھی تھی ۔مائی صاحبہ کی شادی ان کے کزن کے ساتھ ہوئی جوکہ کراچی میں ڈیوٹی کرتے تھے ۔مائی صاحبہ گائوں کی کھلی فضاء کی رہنے والی تھی۔شاہ صاحب مائی صاحبہ کو اللہ نے ایک بیٹا جو قدرے اللہ لوک سے ہیں اور ایک بیٹی جو کہ ماشااللہ ٹھیک ہیں مگر مائی صاحبہ کراچی ایڈجسٹ نہ ہو سکی اور ان کی بھی طلاق ہوگئی وہ دونوں بچے لے کر اپنے والد کے گھر آگئی جہاں ان سے چھوٹی دور نہیں اور ایک بھائی تھے خیر مجھے سادات سے بہت پیار ہے اشفاق شاہ جوکہ اللہ لوک ہیں بزرگ ہیں مجھے کہتے ہیں درود تاج پڑھا کرو۔مائی صاحبہ کے گھر میں ایک آم کا درخت تھا سب بچے ادھر جاکر انہیں بے حد تنگ کرتے مگر ہم کبھی نہیں ادھر گئے شاید ایک دفعہ ان کے گھر گئی لسوڑے کا ایک درخت تھا۔میری ایک کلاس فیلو مجھے اپنے ساتھ لے گئی مائی صاحبہ خود ہی آم اور میٹھی روٹی پکا کر ہمارے گھر بھرادیتی اللہ ان کی قبر کوجنت کا ایک باغ بنا دے ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین ۔ہاں تو میں اپنی پیاری امی کا ذکر کررہی تھی ۔امی بے حد بہادر تھی مگر بہادر سے بہادر لوگوں کی زندگی میں بھی بعض دفعہ ایسے مقام آجاتے ہیں جب وہ قدرے بے بس ہوجاتے ہیں ۔زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔بظاہر ہمارا یہ سرسبز پہاڑوں خوش رو پھولوں رس بھرے پھلوں میں گھرا بڑا سا گھر بے حد آرام دہ ہے ضرورت کی ہر چیز ہے اور اللہ کی کون کون سی نعمت ہے جسکو تم جھٹلا ئوگے ۔پھلوں کے ان گنت درخت ہیں ،چھائوں بھراصحن ایک بیری کا شاید سوسالہ قدیم درخت بلکہ اس کے ساتھ چھوٹے دوتین درخت ہیں جہاں سے دور دور سے بچے پھل اتارنے آتے ہیں۔اس سب کے باوجود ان کی زندگی میں سب سے بڑا دکھ میری پیاری امی کا تھا ۔واقعی کہتے ہیں اولاد کا دکھ بہت ظالم ہوتا ہے۔ امی بتاتی ہیں کہ بچپن میں میں ایک صحت مند بچی تھی دیگر بہنوں کی نسبت زیادہ بیمار نہیں ہوتی تھی۔پڑھائی میں بھی تیز تھی مگر عین جوانی میں بلکہ شادی کے بعد زیادہ بیمار رہنے لگی۔عبدالرحمان کے ساتھ میں ایک دیڑھ دال رہی عبداللہ 20 مئی 2015 کو پیدا ہوا تو میں بیمار ہوگئی ۔مجبوراََ امی کو عبداللہ کو جوکہ محض سات دن کا تھا لے کر گائوں آنا پڑا ۔امی کے لیے یہ بہت کڑی آزمائش تھی مگر امی اپنی فطری بہادری سے جھیل رہی تھی ۔عبداللہ کو گائے کا دودھ پلاتی اپنے پاس سلاتی قدرت کے فیصلوں میںجو حکمت ہوتی ہے ہم انسان اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ظاہری حالات پر واویلا کرتے رہتے ہیں۔عبداللہ رفتہ رفتہ عمر کی منازل طے کرتا گیا ۔امی اس کو دیسی انڈا کھلاتی ۔سیب ،سوپ پلاتی چھ ماہ کا گل گو۔۔۔ساعبداللہ سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ ماشااللہ عبداللہ کشمیری حسن رکھتا ہے کسی دیس کا شہزادہ لگتا ہے ۔میرا اپنا بیٹا ہے تو شاید اس لیے بہرحال آج میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ میرے معاملے میں قصور کسی کا نہیں تھا۔یہ اللہ کی طرف سے ایک آزامائش تھی ورنہ نرالی فیملی بہت اچھی نیک اور سادہ منش تھی اور ہے رزق دینے والا اللہ ہے۔عبداللہ کو یہاں ہر چیز وافر مقدار میں ملتی ہے مگر پتہ نہیں کیا بات ہے عبداللہ کھانے پینے کا اتنا شوقین نہیں ہے۔امی تو اکثر اس کے منہ میں نوالے ڈالتی رہتی رات کو دودھ کا ایک کپ ضرور دیتی میری اور امی کی چارپائی ساتھ ساتھ ہوتی تودیر تک عبداللہ کے ساتھ کھیلتی رہتی۔عبداللہ ماشااللہ اب سات سال کا ہوگیا ہے۔میری حالت اکثر بہت خراب ہوجاتی ان چھ سات سال میں تو چھ ماہ بیمار رہی اور چھ ماہ تندرست تو امی کو سب سے زیادہ میری فکر رہتی۔امی کہتی یہ میرا بے بی ہے۔اکثر میں کھانا تک نہ کھا سکتی اپنے ہاتھوں سے کھلاتی پلاتی نہلاتی ۔سردیوں میں رات کو لحاف بھی خود اوڑاتی۔بس امی کی زندگی میں ایک میرا غم تھا میری حالت انہیں بے حد بے چین رکھتی۔مگر وہ صابر و شاکر تھی۔جس شام وہ فوت ہوئی صبح اٹھی نماز پڑھی لمبی دعا مانگی ۔میں نماز پڑھ کر دوبارہ سوجاتی امی ناشتہ بنایا دوپہر کا کھانا سدرہ نے بنایا میں نے تندور کے ساتھ روٹیاں لگائیں پھر ہم دونوں بہنیں بھینس کے لیے گھاس کاٹنے چلے گئیں سدرہ گھاس کاٹتی اور میں اٹھا کر گھر لاتی ۔نہا کر ہم نے عصر کی نماز پڑھی تو امی کے پاس دوسرے گائوں سے دو بہنیں سمعیہ کی تعزیت کے لیے آئی ہوئیں تھیں ۔عصر کی نماز پڑھ کر میں ان کے ساتھ دیر تک بیٹھی۔سدرہ میری چھوٹی بہن نے سوییاں پکائی ۔دودھ ڈال کر وہ دونوں چلی گئی میںنے آٹا گوند ھا اور سدرہ نے ملکر بھینس کا دودھ دوہا امی کٹی کھول دیتی اور باندھ دیتی تھی اور دودھ کی بالٹی اپنے ہاتھ میں لے کر اندر رکھتی ۔سدرہ دودھ دوہتی یہ امی کی عادت تھی جب میں روٹیاں تندور کے ساتھ لگانے لگی تو امی باہر صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھی ۔کہنے لگی مریم مجھے بہت درد ہورہا ہے نہ بیٹھا جارہا ہے نہ لیٹا جارہا ہے۔ میں نے پیناڈال کی گولی پانی کے ساتھ دی ۔

تین روٹیا ں لگائی باقی آٹا فریج میںرکھنے کے لیے رکھ دیااور فوراََ دودھ گرم کرکے ایک کپ امی کو دیا ۔امی نے کہا گرم ہے ابھی نہیں پیتی پھر امی ہال میں آگئی مجھے کہنے لگی مجھے دبائو میں دبانے لگی پھر کہنے لگی ٹارچ دیں میں باتھ روم سے ہوکر آئوں۔ہال کے ساتھ برآمدہ ہے جس میں ایک سٹپ ہے امی سٹپ سے اتری تو صحن میں گر پڑی ۔سدرہ امی کے ساتھ تھی اس نے آواز دی میں بھاگ کرباہر گئی تو دیکھا کہ امی گری ہوئی ہیں اور سدرہ انہیں تھام رہی ہے سدرہ نے کہا باجی پانی لے کر آئیں ِمیں پانی لے کر آگئی سدرہ نے ہاتھ کے چلو سے پانی منہ میں ڈالا تو کچھ پانی اندر گیا باقی بہہ گیا گلے سے خرخراہٹ کی آواز دیں آنے لگی ہلکی ہلکی میں نے سدرہ اور ابو نے اٹھا کر امی کو چارپائی پر رکھ دیا پاس ہی چا چو گا گھر تھا انکو آوازدی پڑوسی بھی آئے امی یخ ٹھنڈی ہوگئی ایک دم ساکت۔پاس ہی ایک ڈسپنسر تھا اس کو بلایا تو اس نے بتایا یہ تو فوت ہوگئی ہیں۔کچھ دیر میں اور سدرہ ایک دوسرے سے لپٹ کر روتے رہے ۔پھر ہم خاموش ہوگئے باقی سب بہنیں اپنے اپنے گھروں میںتھیں ۔سب کو اطلاع دی ۔امی کو غسل دیا ۔گائوںکے اردگرد خواتین و مرد آنے لگے ۔میں نے نماز پڑھی اور قرآن کھول کر سورۃ یٰسین تلاوت کی ،میری خالہ بھی آگئی رات گئے سب بہنیں آگئی صبح گیارہ جنازے کا اعلان کروایا دیا گیا۔قبر کھودنے کا مرحلہ جب آیا تو ایک جگہ قبر کھودی گئی تو نیچے ایک اور قبر آگئی ۔سادات نے اپنی قبروں کے ارد گرد چار دیواری پھیری ہوئی تھی جہاں وہ صرف اپنے لوگوں کو دفن کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ادھر قبر کھودلیں وہاں مائی صغراء کی قبر تھی مائی صاحبہ کے ساتھ امی کو جگہ ملی۔پہلے تو میں بے حد پریشان ہوئی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے مگر جب پتہ چلا کہ امی کو مائی صغراء کے پاس جگہ ملی ہے تو دل خوشی سے بھر گیا ۔امی محرم کے دنوں میں فوت ہوئی ۔جمعرات کو دفن ہوئی اور سیدہ صاحبہ کے پہلو میں دفن ہوئی الحمداللہ ۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ مائی صاحبہ اور میری امی کو قبر کو نور خوشبو روشنی سے بھر دے اور جنت کا ایک باغ بنا دے ۔آمین

٭٭٭