میرے اباجی

ثروت حمید بنت عبد المنان

میرے والد محترم مولانا عبدالمنان رحمہ اللہ(اباجی) اللہ کی زمین پہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کی خواہش اور صالح اور باصلاحیت لیڈر شپ کا خواب دیکھتے ہوئے 23ستمبر2024کو 101برس کی عمر میں امام سید مودودی ؒکے یوم وفات کے اگلے دن اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ اناللہ وااناالیہ راجعون
میرے اباجی انتہائی محبت کرنے والے شفیق اور مہربان تھے ہم نو بہن بھائی ہیں الحمدللہ سب اپنی بہترین زندگی گزار رہے ہیں ہمارے اباجی نے اپنے پیار محبت اور خلوص میں کھبی فرق نہیں کیا بہن بھائیوں میں میرانمبر چوتھا ہے میٹرک کے بعد اباجی نے میرا داخلہ جامعہ المحصنات منصورہ میں کروایا اس دوران مجھے خود منصورہ لے کر گئے جہاں بہترین اساتذہ کی تربیت اور اسلامی جمعیت طالبات میں شمولیت کی وجہ سے زندگی کا ایک واضح مقصد حاصل ہوا۔ جس طرح میرے اباجی نے گلگت کے اندر جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ الحمدللہ مجھے بھی گلگت میں اسلامی جمعیت طالبات کی بنیاد رکھنے اور گلگت کی پہلی رکن جمعیت بننے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس سفر میں میرے اباجی نے میرا ہرطرح کا ساتھ دیا مجھے تربیت گاہوں اور سالانہ اجتماع کے لیے گلگت سے لاھور بھی لے جاتے رہے یہ سلسلہ 1998میں اسلام آباد منتقل ہونے تک رہا الحمدللہ میں اس وقت جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان دونوں کی رکن ہوں اور اس راستے پر چلنے کاحوصلہ ہمت خلوص اور جذبہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اباجی کااس تحریک سے عقیدت اور محبت دیکھ کے ملا۔ قرآن وحدیث ترجمان القرآن ایشیا اور دیگر اسلامی کتب کا مطالعہ اباجی کی زندگی کا معمول تھا۔ نوائے وقت کے مستقل خریدار تھے۔ 2007میں اباجی کی نظر کافی کمزور ہوگئی تھی اور مطالعہ کرنے میں اباجی کو مشکل ہوتی تھی اس لیے ہم بہن بھائی اور قریبی عزیز اباجی کی خواہش پر ترجمان القرآن اور ایشیا اونچی آواز میں پڑھتے تھے اور اباجی چاہتے تھے کہ سب گھر والے سنیں اور اس پہ تبصرہ کریں اسی طرح ہفتے میں ایک دن تفہیم القرآن کا کچھ حصہ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سننے کا اہتمام کرواتے تھے یہ کام سب سے چھوٹے بھائی عمر فاروق کے ذمہ تھا اس دوران بھی تمام گھر میں موجود افراد کو خاموشی سے سننے کی تاکید کرتے تھے ترجمان القرآن کے ستمبر کے اشارات میں نے اباجی کی خواہش پہ وفات سے ایک ہفتہ پہلے پڑھا تھا اس دوران ملکی حالات اور حافظ نعیم الرحمن کی کچھ تقاریر بھی سنائیں۔

دھرنے کے دوران اہم تقاریر بھی غور سے سنتے اور خوش ہوتے تھے آخری ایام میں اباجی بڑی بہن کی خواہش پر ان کے گھر قیام پزیر تھے اس دوران میری باجی کو اللہ تعالیٰ نے بھرپور خدمت کا موقعہ دیامیرے بہنوئی نے بھی اباجی کی خدمت بالکل ایک بیٹے کی طرح کی جس میں نمازمغرب با جماعت پڑھانا بھی شامل تھا نہایت اہتمام سے کرتے رہے بہنوئی اس وقت وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکرٹری اور کینیڈا میں ہائی کمشنر نامزد ھوئے ہیں۔ مسجد میں نماز باجماعت اباجی کی زندگی کا خاصہ تھا گرمی سردی اندھی بارش ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہ بن سکی باوجود خرابی صحت کے مسجد جاکے نماز اداکرتے رہے ۔کرونا کے بعد گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام اباجی کیلیے کیا گیا جس میں اباجی خود نماز جماعت سے پڑھاتے رہے جس میں گھر کی خواتین اوربچے بھی باقاعدگی سے پڑھتے رہے میرے چاروں بھائی جب بھی گھر پہ موجود ہوتے تو اباجی چاروں بھائیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے رہے اللہ تعالیٰ نے اباجی کواپنی تمام اولاد کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنے کا موقعہ دیا۔ آخری ایام میں بڑے بھائی کو صبح کی نماز کیلئے یاد کرتے تھے بڑے بھائی ڈیڑھ سال پہلے اباجی کی خاظر پاکستان آئے تھے اورالحمداللہ بڑا بیٹا ہونے کا حق ادا کیا اپنی مصروف ترین جاب کے باوجود اباجی کو بھرپور وقت دیا جس میں اباجی کے ساتھ ترجمان القرآن پڑھنا مطالعہ لٹریچر اخبار رسائل پاکستان اور ملکی صورتحال سے آگاہی وہ بھائی جان سے لیتے رہتے تھے اور آخری ڈیڑھ سال بھائی جان کا گھر ہی ہم سب بہن بھائیوں کیلیے ایک مرکز کی شکل اختیار کر گیا جس میں چاروں بھائی اباجی کے ساتھ ایک دن گزارنے تھے۔ میں ویک اینڈ پر واہ کینٹ سے ہمیشہ آتی رہی ۔ اس سال رمضان میں گھر پہ اباجی کے لیے تراویح کا اہتمام کیا جس کی سعادت جاراللہ کو نصیب ہوئی عمر کے اتنے بڑے حصے کو پہنچنے کے باوجود ہرسال رمضان المبارک کے روزے مکمل رکھتے رہے۔ زندگی کے سفر کے اختتام تک بقائم حوش و حواس میں رہے میں نے پوری زندگی ان کو راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھنے ہوئے دیکھا۔ رات کے ابتدائی حصے میں بیدار ھوتے اور وقت پوچھتے تھے۔ جس پہر بھی اٹھتے تھے وقت پوچھنے کا معمول وفات تک قائم رہا۔ اباجی کی زندگی کاسب سے بہترین پہلو صلہ رحمی اور خدمت خلق تھا اس کے لیے اباجی کو ہمیشہ میں نے اس حدیث کے مصداق پایا جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں اور جو مجھے محروم کریں میں اسے حق دوں اس کے علاوہ ایک اور نمایاں پہلو امی کے ساتھ انتہائی عزت اور احترام سے پیش آتے تھے میری امی اباجی سے کافی چھوٹی ہیں اس کے باوجود امی کاحددرجہ احترام کرتے تھے امی کی صحت کی ہمیشہ فکر کرتے تھے اللہ تعالیٰ میرے اباجی کی حسنات کو قبول فرمائے اور انھیں علیین اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ہم بہن بھائیوں کو ان کے نقش قدم پر چلتے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭