مرحوم غلام نبی نوشہری
مجھے اللہ تعالیٰ نے اس سعادت سے نوازا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے سولہ سترہ برس مرحوم قائد مولانا سعد الدینؒ کی قربت میں گزارے۔ ان کی مثالی امارت میںمجھ ناچیز کو مختلف تحریکی ذمہ داریاں انجام دینے کا شرف حاصل ہوا۔مرحوم کی داعیانہ زندگی کا ہر لمحہ دعوت و اشاعت اسلام اور فکر حریت کی نشو و نما کے لے وقف تھا ۔ مولانا مرحوم نے سری نگر کے محلہ تارہ بل کے ایک ممتاز و معروف دینی و علمی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔اس خاندان کے جد اعلیٰ حضرت احمد تارہ بلی ؒ صاحب کمال بزرگ تھے ۔ ان کے عقیدت مندوں کا حلقہ بر صغیر اور افغانستان تک پھلاہو اتھا ۔ یہی وجہ ہے اس خاندان کو اندرون و بیرون ریاست انتہائی عقید ت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔مولانا سعد الدین ایک پر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ متبسم چہرہ ،دور اندیش، کم گو مگر حق کی ترجمان زبان ، غرض اللہ تعالیٰ نے انہیں گونا گوں روحانی و جسمانی، علمی اور فکری نعمتوں سے نوازاتھا۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کُشا ، کار ساز

مولانا سعد الدین علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی عملی تصویر تھے۔ آپ ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ نہ صرف جموں و کشمیر کی حدود کے اندر قابل تقلید اور احترام کے نظروں سے دیکھے جاتے ، بلکہ آج برصغیر کے باہر بھی پوری دنیا میں ان کی تربیت یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اشاعت اسلام میں مصروف عمل ہے ۔وہ ایک بلند قامت بین الاقوامی شخصیت بھی تھے ان کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے بانی امیر کی حیثیت سے غیر منقسم جموں و کشمیر میں اس وقت متعارف ہوے جب وہ دارالاسلام پٹھانکوٹ سے واپس کشمیر آئے ۔اس وقت ان کے ہمراہ جماعت اسلامی کے دو بزرگ رہنما مولانا غلام احمد احرار اور جناب قاری سیف الدین صاحب بھی تھے۔ موسس جماعت اسلامی اور مفکرالاسلام سید مودودیؒ کے ساتھ ان کا تحریکی مکالمہ ۱۹۴۰ سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس مکالمے کی ٹھوس شکل ۱۹۴۵ میںعمل میں آئی جب برصغیر کے جید علماء کی موجودگی میں وہ پٹھانکوٹ تشریف لے گے۔ اس اجتماع میں مولانا ابوالحسن ندی ؒ ۔ مولانا منظور نعمانیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ جیسی علمی اور دینی شخصیت بھی موجود تھیں۔مولانا مرحوم نے جس تحریک کی داغ بیل ڈالی وہ بنیادی طور پر اقامت دین اور غلبہ اسلام کی تحریک تھی۔ ان میں وہ تمام خصوصیات بہ درجہ اتم موجود تھیں جو اسلامی تحریک کےقائد اور راہنما کا خاصہ ہو ا کرتی ہیں۔
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اقامت دین کی اس تحریک میں مختلف ادوار آئے اور انہیں ثابت قدمی کے ساتھ نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ وہ پابند سلاسل بھی ہوئےمگر اس دوران بھی آپ تحریک اسلامی کو ہمہ گیر بنانے کے لے مصروف کار رہے ۔ فرعون اور نمرود کے دربار میں اذان دینے والے لوگ قلیل تعداد میںہوتے ہیں۔ مرحوم نے ڈوگرہ حکمرانوں کے دور استبداد میں بھی کلمہ حق بلند کیا ۔ اس وقت سرکاری احکامات کے تحت مدرارس و دفاتر میں مہاراجہ کو روزانہ صبح سلامی دی جاتی تھی۔ انہوں نے اس غیر اسلامی عمل کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،جس کی پاداش میں انہیں سری نگر سے ایک دور افتادہ علاقے میں چکار تبدیل کر دیا گیا جو اس وقت آزاد کشمیر میں شامل ہے اور یہاں بھی ان کے شاگر موجود ہیں۔ان کی زندگی کا ایک اور نمایاں واقعہ شیخ عبداللہ کے پہلے دور اقتدار میں پیش آیا جب وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ اور ان سے ٹکر لینا بڑے دل گردے کی بات تھی، مولانا نے ان کے سامنے کلمہ حق کہنے میں کبھی خوف محسوس نہیں کیا۔ محکمہ تعلیم میں افسران کی تقرری و تعیناتی کے لئے شیخ عبداللہ نےچند گنےچنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو دعوت دی جن میں مولانا سعد الدین بھی شامل تھے۔ جونہی مولانا انٹرویو کےلئے ان کے دفتر میں داخل ہوے۔ انہوں نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا۔ شیخ عبداللہ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ مولانا کے اندر کا مومن جاگ اُٹھا ۔ انھوں نے شیخ عبداللہ سے استفسار کیا ۔ انٹرویو لینے سے پہلے آپ مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ آپ نے سلام کا جواب کیوں نہیںدیا۔ جب کہ سلا م کا جواب دینا واجب ہے شیخ عبداللہ بر افروختہ ہو گئےغصے میں کہا، یہ باتیں چھوڑو اور انٹرویو دو ۔ مولانا نے کہا انٹرویو بعد میں، پہلے میرے سوال کا جواب دو۔ اس پر بہت ہی گرم بحث ہوئی او ر مولانا احتجاجاََ انٹرویو دیئے بغیر واپس آ گئے۔ شیخ عبداللہ نے مولانا کی اس جرأت مندانہ حرکت کا سخت نوٹس لیا۔ ان کی پروموشن روک دی گئی ۔ بعد میں مولانا نے بحیثیت صدر مدرس ہائی سکول استعفا دے کر اپنی زندگی ہمہ وقت اقامت دین کے لئےوقف کر دی۔مولانا مرحوم کی قائدانہ صلاحیتوں کا ہی اعجاز ہے کہ انھوں نے انتہائی نا مساعد حالات میں قیادت کر کے اسے مقبوضہ علاقے کی سب سے فعال، منظم اور معتبر ترین تنظیم بنایا۔ دین اور سیاست کے درمیان تفریق کرنے والوں اور الحاد پسند طبقے کی مخالفتوں کے گرداب میں سے آپ نے تحریک اسلامی کو جس کامیابی سے گزارا اور آپ کی استقامت و عزیمت ، تحمل مزاجی اور توکل علی اللہ کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ مولانا کے پائے استقامت میں اس وقت بھی لغزش نہ آئی جب ۴ اپریل ۱۹۷۹ کو دشمنان تحریک اسلامی نے تحریک کے کارکنوں رفقاءاور ہمدردوں کو نشانہ ستم بنایا گیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی کا اثر و نفوز ریاست کے ہر حصے میں طاغوت وقت کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا تھا ۔ ابتلا و آزمایش کے اس دور میں مولانا مرحوم نے رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئےاپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھایا ،ان کو صبر و استقامت کی تلقین کی اور ان کے زخموں پر پھا ہا رکھا۔ سری نگر سے انھوں نے اسلام آباد ، پلوامہ، شوپیاں، اور دوسرے علاقوں کا پیدل سفر کیا ۔ اس کے ساتھ صوبہ جموں کا بھی دورہ کیا ۔ یوں جماعت اسلامی کا یہ کٹھن دور بھی گزر گیا۔ مولانا مرحوم نے اقامت دین کی عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری اور علمی سطح پر بھی بہت خدمات انجام دی، جگہ جگہ درسگاہیں قا ئم کیں۔ فکری تربیت ایک تحریکی کارکن کا بنیادی اثاثہ ہوتا ہے، اس عمل کو راسخ بنانے کے لئے مولانا نے جماعت کےترجمان ’’اذان‘‘ کا اجراء اپنی ادارت میں کیا۔ اس اخبار نے اپنا سفر ایک ماہنامے کی حیثیت سے کیا اور رفتہ رفتہ روزنامہ تک پہنچ گیا ۔اس اخبار کا ی خاصا یہ تھا کہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی طرح اس میں قرآن فہمی اور حدیث فہمی کےلئےاوراق وقف کئے گئےتھے۔ یہاں یہ بھی بتا نا ضروری ہے کہ آج جب مولانا ہم میں موجود نہیں ،وقت کے حکمرانوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دوسری آزادیوں کی طرح پریس کی آزادی کو بھی سلب کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں جماعت السلامی کا پریس اور اخبار اذان سربمہر ہے۔ تالیف و تصنیف کے میدان میں بھی مولانا نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تصانیف میں اما م امین( ابو حنیفہ ؒ)اسلام کا فلسفہ معاش ( ایواڈ یافتہ ) او ر حضرت بلال حبشیؓ کےعلاوہ کئی کتابچے بھی شامل ہیں ۔ وہ مترجم تھے۔ انہوں اوراد فتحیہ ، اوراد قادریہ ، پارہ عم، اور احمد دیدات کی مشہور انگریزی کتاب AL QURAN THE ULTIMATE MIRACLE کا اردو ترجمہ’’ قرآن ایک لاثانی معجزہ ‘‘کے نام سے کیا۔ مرحوم شاعرانہ ذوق بھی رکھتے تھے اور ان کا منظوم کلام شائع ہو کر منظر آم پر آ چکا ہے ان کا ایک مشہور شعر زبان زد خاص و عام تھا
کون کہتا نہیں خدا کو خدا
ہم نے جب کہا تو سزا پائی
میں اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مولانا مرحوم ایک صاحب الرائےقائدتھےمگر جماعتی امور میں اپنی رائےکے اظہار سے پہلے رفقا ء کار کی دلیل کو غور سے سنتے تھے جماعت کے اندر جمہوریت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ حریت فکر و ضمیر کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے آخر میں اپنی رائےپیش کرتے تھے ۔ان کے رفقاء کار ان کی رائےسن کر بے اختیار پکار اُٹھتے کہ اگر آپ نے پہلے ہی اپنی رائےکا اظہار فرمایا ہوتا تو ہم اس طویل بحث و مباحثے میں الجھنے سے بچ جاتے۔ مرکزی مجلس شورٰی میں اس قسم کے کئی تجربے مجھے یاد آرہے ہیں۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ تحریک کے ہر اہم موڈ پر آپ ااستخارہ سے کام لیتے تھے اور غیب سے بہترین رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کی پوری زندگی روحانی لزتوں سے آشنا تھی۔ اس میں ان کی عبادات کابڑادخل تھا۔ ان کی کرامات کے بارے میں بہت ساری باتیں عوام میں مشہور ہیں ،مگر مولانا خود اس بات کو سخت نا پسند فرماتےاور یہ کہ کر بات ٹال دیتے تھے کہ سب کچھ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے اور اللہ کے ارادوں میں کسی کا دخل نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کامل عشق رسول کی دلیل کہتے تھےاکثر فرمایا کرتے تھے
بہ مصطفیٰ بہ رساں خویش کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ایست
مولانا سعد الدین روز اول سے ہی مسلہ کشمیر کو متنازعہ مان کر اس کے منصفانہ ، دیر پا اور آبرومندانا حل کے لئےدستور جماعت کے مطابق کوشاں رہے۔ جنوبی ایشیا میں دیر پا امن و آشتی کےقیام کے لئےمسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کی بھر پور وکالت کرتے رہے۔ جس کی پاداش میں بارہا پابند سلاسل ہوئے۔مولانا کو اپنی زندگی میں عالمی سطح پر بھی پذیرائی نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں وہ رابط عالمی اسلامی ،عالمی مساجد کونسل اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر رہے۔ آخر میں یہ بتانا موزوں رہے گاکہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے اولین سند یافتہ مسلمان بی اے ،بی ٹی تھے۔ وہ ۳۸ سال تک جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ ۱۹۱۲ءمیں تارہ بل سری نگر میں ان کی ولادت ہوئی۔
۸۷ سال کی عمر پا کر عمر کالونی ، لال بازار سر ینگر میں ۱۳مارچ ۱۹۹۹ ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مولانا مرحوم ۱۲ سال تک صاحب فراش رہے ۔اور اپنی علالت کے دوران بھی وہ جماعت اسلامی کی فکر ی رہنمائی کرتے رہے۔ جماعت کے ذمہ داروں کو اس دوران اپنے ضرورری اور زریں مشوروں
سے نوازتے رہے اور ہر اہم موڈ پر ان کی رہنماءی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو دینی و سیاسی خدمات کو قبول کرے اور ان خدمات کے عوض انہیں اجر عظیم سے نوازےآمین
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست