مشتاق احمد خان ایڈوکیٹ نائب امیر جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر وگلگت بلتستان
ہمار ے گھرانے، تعلق دار، اورقریبی دوست احباب مجاہد اول، غازی تحریک آزادی گلگت بلتستان مولانا عبدالمنان رحمت اللہ علیہ کو بہت ہی عزت احترام سے مولوی صاحب پکارتے تھے آپ بچپن سے نوجوانی اور عمر کے آخری دور تک ایک بے باک نڈر مجاہد سچے اور کھرے انسان کی حیثیت سے پورے گلگت بلتستان میں جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ آپ غلط اور خلاف واقعہ بات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرتے تھے خواہ آپ کے رو برو کیسی ہی بڑی شخصیت یا عہدے دار کی کیوں نہ ہو۔ساری زندگی حق اور سچ کے لئے تن من دھن سے جدوجہد کے لئے تیار رہنا ان کا شعار تھا۔


آپ کے آباواجداد کا تعلق کوہستان سے تھا جہاں سے ہجرت کر کے پہلے ضلع گلگت کی تحصیل جگلوٹ اور بعد میں ضلع استور کے گاوں ڈوئیاں جو ہمارا آبائی گاوں ہے میں آبسے اور پھر ہمارا خاندان ہی ان کا ننیال بنا ۔ مولانا عبدالمنان رحمت اللہ علیہ کا رشتہ میرے خاندان کے ساتھ کچھ اس طرح جڑا کہ ان کی والدہ محترمہ میرے والد گرامی کی پھوپھی تھی اس نسبت سے وہ میرے چچا تھے اپنے خاندان اور ننیال سے متعلق مرحوم اپنی خود نوشت”ڈوئیاں سے زوجیلا تک میرا سفر جہاد” میں یوں رقمطراز ہیں
”والدصاحب اورخاندان کے دیگر بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے آباواجداد کوہستان کے علاقے کولئی سے آئے ہیں کوہستان میں ہمارا قبیلہ” گبر خیل” کہلاتا ہے جس کی شاخ نواخیل سے ہمارا تعلق ہے اور ننیال سے متعلق فرماتے ہیں کہ جس خاندان میں ہمارے والد کا رشتہ ہوا حسن اتفاق دیکھئے کہ وہ بھی کوہستان سے نزدیک ترین علاقہ تانگیر سے ہجرت کر کے استور کے اس گاوں ڈوئیاں میں آباد ہوا تھا ”
راقم مولانا عبدالمنان رحمت اللہ علیہ کے قریبی عزیز کی حیثیت سے ان کی مجاہدانہ زندگی اور تحریک اسلامی سے مخلصانہ وابستگی کا گواہ ہوں ۔ میں جب سن شعور کو پہنچا تو مولانا ہمارے خاندانی حلقہ جو پورے ضلع استور میں پھیلا ہوا ہے میں محبت اور احترام سے جیسے میں پہلے تحریر کر چکا ہوں” مولوی صاحب” کے نام سے یاد کئے جاتے تھے تو مولوی صاحب ہمارے تمام دینی، معاشرتی، اور سیاسی مسائل کا حل تھے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے ان ہی سے رجوع کیا جاتا تھا اور مولانا اس مسئلہ کیلئے اپنا دن رات ایک کرتے تھے اور بلاتفریق ہر ایک کی دستگیری اور مدد کے لئے تیار رہتے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رسل رسائل اور آمد رفت کے لئے زرائع بہت محدود تھے دور دراز علاقوں تک رسائی کے لئے اکثر پا پیادہ یا گھوڑوں پر سفر ہوا کرتا تھا۔ آج اتنی سہولیات کے باوجود رابطوں کا فقدان ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستگی کے حوالے سے مولانا اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ”جماعت اسلامی سے میرا تعارف 1950میں اس وقت استوار ہوا جب استور میں متعین پوسٹ آفس کے انچارج فرید صاحب اور گلگت میں متعین پوسٹ آفس کے انچارج آفیسر جناب بشیر خان فوق صاحب سے میرا تعارف ہوا ۔انہی دونوں شخصیات کی وساطت سے رسالہ کوثر اور رسالہ چراغ راہ کا میں قاری بنا۔ اس طرح رسالہ کوثر اورچراغ راہ میرے لئے جماعت اسلامی سے مستقل تعارف کا ذریعہ ثابت ہوئے اوربعد میں میرے بھائی اسماعیل خان اور عبدالحمید خان جو سرینگر کشمیر سے جماعت سے متعارف تھے مولانا مودودی رحمت اللہ علیہ کی خطبات اور دیگر لٹریچرکامطالعہ کیا اور مولانا مودودی رحمت اللہ علیہ کے افکار نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے اسلام کو بطور دین ،بطور نظام قائم کرنے کا اپنا نصب العین بنا لیا ”

راقم جب یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گلگت آیا تو مولانا اس وقت جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر تھے چونکہ مولانا ہمارے بچپن سے ہی مربی اور دینی روحانی رہنماتھے انہی سے ہم نے جماعت کا تعارف حاصل کر کے دوران طالب علمی میںجمعیت اور اب عملی زندگی میں انہی کی رہنمائی میں جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ۔مولانا 1950 سے ہی جماعت کے اجلاسوں اور مولانا مودودی رحمت اللہ علیہ سے ملاقاتیں اچھرہ لاہور پہنچ کر ان کی عصری مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے۔وہ پاکستان میں مارشل لائی ادوار ایوب خان اور ضیاء الحق میں جماعت پر پابندیاں اور جبر کے دن دیکھ چکے تھے ان کا ہمیشہ یہ معمول تھا کہ وہ پورے گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے لوگو ںتک مولانا مودودی کا لٹریچر پہنچاتے تھے بقول ان کے مولانا مودودیؒ نے جبر کے زمانے میں انہیں ہدایت کی تھی کہ ”خبردار مولانا گلگت میں جماعت اسلامی کا نظم قائم نہ کرنا کیوں کہ وہ سمجھتے تھے مولانا اکیلے ہین کہیں یہ انہیں نقصان نہ پہنچائیں ـ”
انکی مجاہدانہ زندگی کا ایک بہت ہی نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تحریک آزادی گلگت بلتستان میں ایک سول مجاہد کی حیثیت سے تربیت یافتہ فوجیوں کے شانہ بشانہ تربیت یافتہ مسلح دشمن کی فوج کیخلاف برف پوش 18 ہزار فٹ بلند چوٹیوں میں مقابلہ کیا اور دشمن کو شکست فاش دیَ۔
انکی زندگی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ بیک وقت مجاہد فی سبیل اللہ کے ساتھ ایک مذہبی و سیاسی رہنما کی حیثیت سے گلگت بلتستان کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں نہ صرف استعمار اور ہندو بنیئے کی غلامی سے شخصی آزادی کی فکر تھی جس کے خلاف انہوں نے مسلح جدوجہد کی بلکہ آزادی کے بعدیہاں کی معاشی ترقی اور سیاسی آزادی کے لئے بھی انتھک محنت کی ۔حکام بالا سے رابطے اور پاکستان کی بیوروکریسی اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتوں کے لیے سینکڑوں میل سفر پیادہ اور گھوڑوں پر کر کے راولپنڈی اور لاہور پہنچ کر علاقے کے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کی۔مولانا کی زندگی کے ان تمام پہلوؤں کا تفصیلی احاطہ تو محض ایک مضمون میں ناممکن ہے بحر حال ان نامساعد حالات میں ان کی زندگی کے ہر پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہے اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے
٭٭٭