میرے ہمسفر میرے مہربان

پروفیسر شمیمہ شال

یہاں غم کسی اور ہی شے کا تھا بات عید کی ہو رہی تھی آج آپ کی بیٹی ثوبیہ نے چائے کی فرمائش کی۔ اس کا دل روہا تھا مگراظہار نہیں کرپاتی وہ قرآن کا حوالہ دیکر صبر کی تلقین کرتی مگر خود آپ کی ہر چیز آپکی آخری غزل گھر سے نکلنے سے پہلے کی تصویر اپنے گھر پر فریم میں سجا لی۔ ثوبیہ اور یاسر مجھ سے پہلے آپ کیAutobiography پڑھ چکے۔ وہ بہت ساری باتوں اور چیزوں سے ناواقف تھے۔ وہ والدین سے محبت کا یہ طرز عمل اور رویہ دیکھ کر اور پڑھ کر حیران ہوئے اتنی فرمانبرداری بیٹیوں میں نہیں ہوتی ۔ آپ ان کیلئے کس طرح دعاگو ہوتے اور کس کمال احترام سے ان کا نام لیتے وہ آپ کا رب جانتا ہے۔ مجھے رشک ہوتا کہ کاش میں بھی ان دعائوں میں شامل ہوں اور میں نے کئی بار آپ سے کہا بھی کہ ہمارے لیے بھی اسی طرح دعا کریں اور آپ آگے سے مسکراتے۔ آپ ہمیشہ اپنے کام میں مگن رہتے اپنے اردگرد کے ماحول اور لوگوں سے بظاہر لاتعلق مگر زیادہ تر اپنے کام میں مشغول اور مصروف کبھی تھڑوں پر بیٹھنے کے عادی نہیں۔ لائبریری یا گھر کی بیٹھک جہاں مخصوص دوستوں کیساتھ علامہ اقبالؒ فیض احمد فیض اور ترقی پسند شاعروں کو بلند آواز میں پڑھتے۔ مجھے بھی ایسی کتب کا مطالعہ کرنے کیلئے کہتے اور کتب کا نام بھی بتاتے جو ہمیشہ سر سے ہی گزر جاتا۔ مجھے خود بھی پڑھنے کا شوق تھا مگر دلچسپی کچھ اور ہی تھی۔ میں سابق سویت یونین کے رسالے جس میں ہر ریاست کی تاریخ اور جغرافیہ جاننے کا موقع ملتا۔ یہ میگزین اردو زباں میں بھارتی دارالحکومت دہلی سے آتے تھے روسی افسانے اورناول،اردو میں ابن انشاء کے جاسوسی ناول پڑھنے کا جنون تھا ۔ بیسوی صدی اور اردو ڈائجسٹ بھی۔ گھر میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒکا لٹریچر سب کچھ میسر وہ بھی۔ آپ مجھے Email پڑھنے کو کہتے۔ میں بادل ناخواستہ ہی ہاتھ لگاتی۔ آپ کیا کیا پڑھتے۔ آپ کے استاد اور دوست پروفیسر آغا اشرف صاحب اور پروفسر حبیب صاحب آپ کے درمیان فلسفہ سے اسلام روحانیت صوفی ازم اور شاعری پر گفتگو ہوتی۔ اس کا اعتراف آپ نے اپنی آٹو بائیوگرافی میں بھی کیا ہے۔ آپ کا یہ شوق ہمیشہ قائم رہا مگر کام کی نوعیت نے اس سے تھوڑا دور بھی کیا۔ آج آپ کے دوست پروفیسر ارشاد نبی نے لکھا اور یاد کرایا کہ ہم آپ کے گھر کی بیٹھک میں بیٹھ کر مستقبل کے بارے میں جدید نظام تعلیم کے تقاضے، اپنے شہر کیلئے کچھ خواب بنتے تھے۔ آپ سب دوست کبھی اقراء سکول کے نام سے کبھی کسی اور نام سے۔آپ سب اپنے شہر بارہمولہ میں نئے سکولوں کی بنیاد جدید نظام تعلیم پررکھنا چاہتے تھے مگر آپ جس سفر پر نکلے اس میں کانٹے ہی نہیں تعصب کی گہری کھایاں بھی تھیں۔ آپ نے بہت مشکلات و مصائب کا سامنا کیا۔آپ جس calibreکے انسان تھے۔ وہ انسان کہیں گم ہوگیا ہم اور بچے آپ کیلئے دیوار بن گئے جب سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا۔ آپ نے مشکل ترین کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ آپ کچھ contribute کرنا چاہتے تھے مگر اس کیلئے گلے میں تنظیمی شناخت کا طوق ہونا لازمی تھا۔ کشمیری اور قابل ہونا آزادی کیلئے ایک جیسا درد۔۔۔ رکھنا لازمی نہیں تھا ہم دونوں کیلئے کسی کا reference لازمی تھا۔

میں نے انہیںresist کیا آپ یہ کس کو بتاتے کہ آپ کے گھر سے تیسری بار 5 افراد نامعلوم سفر پر ہجرت کر چکے تھے ۔پہلی بار 1947 میں جب خواجہ عبدالسلام وانی صاحب جو مسلم کانفرنس کے سرگرم رکن تھے کو گرفتار کیا گیا۔جموں کی ریاسی جیل میں نظر بند رکھا گیا اور بعد میں جلاوطن اس لیے کیا گیا کہ وہ بھارتی قبضے کو نیشنل کانفرنس کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ دوسرا قافلہ 1952 میں 4 افراد پر مشتمل قافلہ مسلم کانفرنس سے وابستگی اور نیشنل کانفرنس کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ تھا مگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں نے compromise نہیں کیا۔ سزائیں ملی کوڑے کھائے۔ جبر اور سختیاں برداشت کیں مگر جھکے نہیں۔ آپ کی دادی نے توfreedom fighter certificate لینے سے انکار کیا۔ انہیں زندگی بھر اپنے میاں سے ملنے کی اجازت نہیں ملی۔میں نے بار بار آپ کو یہ باور کرایا کہ یہاں وہ سب کچھ نہیں جو دکھتا تھا۔ یہاں تحریکی عصبیت ،علاقایت، شخص پرستی اور تنظیموں میں بٹی قوم کا۔۔۔ المیہ بن کر رہ گئی تھی یہاں ایک ایسی فضا قائم کی گئی کہ ہمیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔یہاں (کسی سرٹیفکیٹ)کے بغیر داخلہ ممنوع تھا۔ میں نے خود اس پار کے بچوں کیساتھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دنیا کچھ اور ہی تھی وہاں تصور آزادی کچھ اور تھا۔ یہاں مفاد تنظیم اور اپنا آپ بہت اہم ہوگیا تھا۔ اس کی وجوہات ان شاء للہ آئندہ بیان کرو ںگی۔ میں نے2 مہینوں میں بہت کچھ سیکھا اور دیکھا۔ ہم میدان کارزار میں کسی اور ہی جذبے سے کام کرتے تھے۔یہاں آزاد فضائوں میں نہ اس کا تصور تھا نا ہی اس کے آگے کی حکمت عملی کا کوئی سرا ملتا تھا۔ آپ اس یقین کیساتھ کہ یہاں ڈپلومیٹک فرنٹ پر انگریزی زبان میں مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات سے متعلق material لکھنے اور دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے کان بند کرکے لکھنے پڑھنے کے کام پر لگ گئے۔ ساتھ ساتھ انگریزی اخباروں میں بھی اپنا کالم لکھنا شروع کیا۔ یہاں غم روزگار بھی تھا۔ہم کسی تنظیم کے beneficiary نہیں تھے یہ پہلے ہی طے کیا تھا کہ کسی سے کوئی ریلیف نہیں لیاجائے گا

میڈیا کا دور شروع ہوچکا تھا الیکٹرانک میڈیا ایک طاقتور ہتھیار بن چکا تھا۔ اس کے اثرات اندر بھی نہ صرف محسوس کیے جانے لگے تھے بلکہ بہت شوق سے یہ پروگرام دیکھے بھی جاتے تھے۔ یہاں کا ٹی وی پاپولر بھی بہت تھا۔ مجھے یاد آیا، ابا کہا کرتے تھے کہ 1947 میں مقبوضہ کشمیر میں ریڈیو پاکستان سننے پر پابندی لگائی گی تھی۔ریڈیو پاکستان اور ریڈیو آزاد کشمیر لوگ چھپ چھپ کر سنتے۔راتوں کو نیشنل کانفرنس کے کارندے کھڑکیوں کیساتھ کان لگا کر لوکل پولیس تھانوں کو اطلاع دیتے اور لوگ گرفتار کیے جاتے۔ کہیں پر ریڈیو بھی گرفتار ہوتے تھے۔ اس جبر کے ماحول میں ہمارا گھر بہت متاثر ہوا تھا۔ہمار ے گھر میں اس زمانے کا ریڈیو بہت سنبھال کر طاق پر سجا ملتا۔ ابا جان ریڈیو پاکستان، بی بی سی اور دوسری تمام خبریں ہر وقت ریڈیو پرسنتے۔ وہ 1940 سے ہی عملی سیاست کا حصہ تھے۔ وہ روزانہ اردو اور انگریزی اخبار پڑھنے کے عادی تھے۔ اس طرح یہ سیاسی ماحول میرے دونوں گھرانوں سوپور اور بارہمولہ میں ہماری making opinion میں اور ہم پر بہت اثر انداز رہے۔
جب آپ شاہ ہمدان کانفرنس میں1987میں شرکت کیلئے یہاں آئے تو مرحوم سردار سکندر حیات صاحب آزاد کشمیر کے وزیراعظم تھے۔ انھوں نے رات ڈنر پر کشمیری ڈیلیگیشن سے ملاقات کی۔ بات کشمیر پر ہورہی تھی وہاں کے سیاسی پس منظر پر چونکہ خالصتان کی تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا اور دوسری طرف افغانستان کا جہاد شدت اختیار کر چکا تھا۔ دنیا دوسپر پاورزکے درمیان بٹ چکی تھی۔ اسی میں ہماری نئی نسل کو رہبر ملے مگر رہنما نہیں۔قیادت دور اندیش نہیں تھی۔ میں نے بھی یہاں کے میڈیا کے حوالے سے بات کی۔ ایک موثر پالیسی کی اہمیت پر زور دیا۔آزاد کشمیر میں ٹیلی ویژن سینٹر قائم کرکے ایک رابطہ بٹی ہوئی ریاست کے درمیاں پل کا کردار ادا کرے گا۔ کشمیر کے اندر اس کا اثر جدید ہتھیار سے زیادہ ہوگا۔یہ میرے ذہن میں کھٹک رہا تھا۔بھارت کا دوردرشن مقبوضہ کشمیر میں دیکھا جاتا تھا۔ ہماری نئی نسل کو ریاست کے اس پار یا اُس پار حالات کو سمجھنے کیلئے رابطے کا کوئی موثر ذریعہ بھی نہیں تھا۔ ہم ایک دوسرے سے دور نہیں تھے مگر ایک دوسرے کیلئے ممنوع تھے۔نہ کمیونیکیشن، نہ رابطہ اور نہ ہی کوئی متبادل راستہ۔ ایک دوسرے کی تعمیرو ترقی سے سیاسی اتار چڑھائوسے مسائل سے بے خبر ایک دوسرے سے نا آشناصرف دیو مالائی کہانیاں ہی سننے کو ملتی۔ ہر فرد جو عزیزواقارب سے ملنے آتے آج ہی کی طرح بدگمان زیادہ اور یہاں سے expectations بھی زیادہ۔میری بات سنی گی مگر عمل نا ہوسکا۔مجھے یاد ہے ہم مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی ڈرامے اور نیلام گھر دیکھنے کیلئے کیا جتن نہیں کرتے۔سفیدے کے درختوں پر انٹینا چڑھاتے۔ کچھ لوگ جموں میں دیکھ لیتے مگر یہاں پر بھی میں نے خود رامائین کتھا کو شوق سے ٹی ی پر لوگوں کو دیکھتے دیکھا۔ اس پر تبصرے سنے، ہم اس وقت اسلام آباد میں بھائی جان کے گھر پر تھے۔ ہم سے اگر کوتاہیاں ہوئیں تو قیادت سے بھی بڑےBlunderیہاں ہوئے۔نوجوان نسل پڑھی لکھی تھی اس میں اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ایسے ایسے نو جوان تھے جو اپنے اپنے میدان کے شہسوار تھے۔ بہت قابل، ہماری دوسری نسل اللہ کی راہ میں کام آئی۔ نتائج سے بے خبر ایک آرزو لیکر وطن پر نثار۔ وہ کامیاب ہوئے مگر کوئی و اضح حکمت عملی نہیں تھی۔ ہم نے آپسی چپقلش میں اپنے جوانوں کا خون بہایا۔بلا کسی مقصد کے بہلاوے یا بہکاوے میں آئے۔

مجھے یاد ہے شہید شمس الحق کو جب ایک مخبر کے پکڑنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے میری بات سنی اور یہ بھی مان لیا کہ ہم آس پاس اور اردگرد دوست کم دشمن زیادہ پیدا کر رہے ہیں۔ ایک جان ایک خاندان بچانے کیلئے مجھے کیا کچھ نہ کرنا پڑا ،وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم سب اس راہ پر چل پڑے بغیر پرواہ کیے کہ راستہ کہاں جا ملے گاکسی کونہیں معلوم، مگر قوم نے کسی دبائو کو قبول نہیں کیا۔ہم اتنے بہادر نہیں تھے مگر میری قوم کی بیٹیاں مائیں بہنیں کس طرح اس انوکھی جنگ میں اپنے بچوں، بھائیوں اور بیٹوں کی ڈھال بنیں۔ کس طرح اپنے گھر صحن اور چاردیواری کو میدان جنگ بنتے دیکھ کر لڑکھڑا ئی نہیں۔ صبرو عظمت اور ہمت کی داستانیں رقم کیں۔ ہمارے جوانوں سے زیادہ ہماری خواتین نے قربانیاں دیں۔ گھر چھوڑنا اپنے کازکیلئے کام کرنا مشکل نہیں مگر دشمن کو یہ باور کرانا کہ اس کازکیلئے بچوں کی مائیں بھی تیار ہیں۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔مجھے یاد ہے میرے چھوٹے بھائی جب انٹراگیشن سینٹر میں تھے تو اس وقت کے انچارج SPنے میرے ساتھ بدتمیزی اور aggressive طریقے سے بات کی۔ ملاقات میں میں نے ماں کا خانہ پر کیا تھا۔ اسے کیا معلوم کہ یہ بچے اپنے بچوں سے بڑھ کر تھے۔ منہاس صاحب انچارج انٹراگیشن بڑا بدنام زمانہ نام تھا۔پھٹے کپڑوں میں زخمی جسم اور انتہائی ناگفتہ بہہ حالت میں بھائی کو میرے سامنے کھڑا کیا گیا تھا۔ وہ مجھے اعصابی طور پر کمزور دیکھنا چاہتے تھے۔ سارا سامان ضبط کیا گیا۔ ملاقات کیلئے اپنے سامنے بیٹھنے کو کہہ کر میرا اور بھائی کا ری ایکشن دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ بچہ ٹوٹے گا نہیں مگر اسے نہیں معلوم کہ گھر پر کیا ہورہا تھا۔ شہید میر صاحب سب کچھ لپیٹ کر اللہ کے راستے پر چل پڑے تھے۔ دوسرا تیسرا اور سب میرے لیے حالات بہت مشکل تھے۔ میرا گھر میرے بچے اور آپ شال صاحب سب میرے لے غیر اہم ہوتے جارہے تھے۔

بھائی میرے آنے پر بہت ناخوش کہ میں کوئی بات نہ کروں اور میں ان کو باہر کے طوفان سے بے خبر سمجھ رہی تھی۔ کو ئی حادثہ نہ ہوجائے مجھے اس کا ڈر تھا۔میں نے اسے صبر حوصلے اور ڈٹے رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ سب آپ کیساتھ ہیں۔ باہر یہ سیلاب طوفان کی شکل اختیار کررہاہے۔ میں ادھر centre Interrogation سے نکلی۔ باہر آپ میرا انتظار کر رہے تھے۔ طے یہی ہوا تھا کہ صرف میں ملاقات کیلئے جایا کروں گی۔آپ نے بہت آرام سے مجھے اور میر صاحب کو قائل کیا کہ ہمیں یہاں بار بار نہیں آنا چاہیے اور اسطرح وہ انت ناگ اسلام آباد میں اس پولیس آفسر کیساتھ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔اس کے بعد BSF ،Army،CRPF نے سارا محاذ سنبھالا۔ یہ آفسر تشدد اور سخت رویے کی وجہ سے بھی بہت بدنام تھے۔ اس کے بارے میں اور بھی کہانیاں مشہور تھیں۔یہ وہ حالات جو 1989میں ابتدا ہی میں سب کشمیریوں کو درپیش تھے۔ پکڑ دھکڑ گرفتاریاں، چھاپوں کے دوران توڑ پھوڑ اور لوٹ کھسوٹ سب کچھ عروج پر تھا مگر عوامی ردعمل اسے بڑھ کر تھا۔ اس طوفان میں جتنا کشمیری عوام نے یکجہتی بھائی چارے اور یکسوئی کا مظاہرہ کیا آج ممکن نہیں۔ چند اکا دکا واقعات کے بغیر آزادی کیلئے پرامن جلسے جلوس کی کال پر لاکھوں مرد وزن سڑکوں پر اترے تھے۔ یہاں رہنمائی کی اشد ضرورت تھی، ہفتوں کے کرفیو میں کوئی بغیر کھانے پینے کی اشیاء سے محروم نہیں۔ ضلع سطح پر ترسیل کا کام ترتیب دیا جاتا۔ voluntarily لوگ سامنے آتے اور یہ بھارت کیلئے پہلا بڑا چیلنج تھا اور آج بھی ساری دنیا کیلئے کہ کشمیر ی لوگوں کا ڈٹ جانا حیران کن ہے۔ جب جب بھارت نے سپلائی لائن بند کی، دوائیوں کی shortageہو جاتی ہے مگر ہماری زمین جو سونا اگلتی ہے اس سے ضروریات زندگی پوری ہوتی رہی اب وہی زمین چھیننے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

کشمیر کے بارے میں معلومات کا فقدان بھی رہا جس کا میں بار بار اعتراف بھی کرتی رہی اگرچہ اس پار کشمیری سیاسی طور پر بہت میچور تھے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔ برصغیر کی تاریخ سے واقف تھے بھارت کے پروپیگنڈے کو سمجھتے بھی تھے اس کے توڑ کے لئے پرنٹ میڈیا اور سیاسی رفاہی تنظیمین بھی کام کرر ہی تھی۔ تقسیم ہند اور ریاستوں کے جبری الحاق کو اپنے من پسند پیرا ئے میں سلیبس کا حصہ بھی بنایا تھا ۔گھروں میں بڑوں سے سنتے کہ بھارت نے دھوکے سے قبضہ کیا۔ آگرچہ انفارمیشن بھی صحیح نہیں ملتی مگر 1947کو کس طرح ریاستی آزادی پر ڈھاکہ ڈالا گیا اسے ہر مرد وزن واقف تھے۔ سیاسی بیداری اور سرد جنگ کے اثرات دنیا مین حیران کن حد تک بڑھ رہے تھے یہ سیاسی تبدیلیاں بھی کسی حد تک کشمیری نوجوانوں کو بہت متاثر کررہی تھی، پھر بھی ہمیں بہت کچھ معلوم نہ تھازمینی حقایق اور جذباتی وابستگی میںبہت فرق ہے۔یہ سیاسی کشمکش ہی نہیںتھی۔ یہ دو ممالک کے درمیان نفرت کی بنیاد بھی نہیں تھی بلکہ ریاست کی تقسیم اس کے عوام کی خواہش کے برعکس۔ اس وقت کی سپر پاور کی ایک مجرمانہ سازش بھی تھی مملکت خداداد اور آزاد خطے کی تعمیر وتر قی کو روکنے کی بھی چال تھی ۔اس کا تدارک اس پار سب کو تھا وہاںکے عوام اس ملک کی آزادی خوشحالی اور استحکام کو اپنی آزادی کی ضمانت بھی سمجھتے تھے جو سچ بھی ہے۔

ایک بار جنیوا میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کشمیر کی بات ہورہی تھی بھارت نواز سمینار بھی کرا رہے تھے، بڑے بڑے سکالرز، پروفسر بلائے گئے تھے۔ میںنے آپ سے رابطہ کیا 5بجے شام اس سمینار میں اکیلی کشمیری مخالف گروپ کے سامنے ڈٹ گئی ۔انہوں نے باہر سے اپنے لوگ سمینار میں بٹھائے تھے۔ اس لئے کہ کوئی سوال نہ کردے میرے لئے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ آپ کے پہنچنے پرمیںنے سمینار کی ڈٹیل آپ کو بھیج دی آپ نے کشمیر کی زبانوں پر اپنا ریسرچ پیپر بھیج دیا۔ ڈاکٹر ڈابلہ صاحب کے آرٹیکلز بھیج دیے اور نکتہ اٹھانے کیلئے کہا ۔اس وقت شام کے 5بجے تھے۔۔۔سمینا ر ختم ہوتے ہوتے 7 بج گئے اور میں رات ساڑھے 9 بجے ہوٹل پہنچی۔ کھانا بنا کر میں نے آپ سے بات کی اور سوال و جواب کے دوران جو کچھ ہوا وہ گوش گزار کیا، میرے نکات ان لوگوں کے لئے حیران کن تھے۔ جو پہاڑی زبان کو پہلی اور بڑی زبان سمجھانے کا پروپیگنڈہ کررہے تھے ، آپ کے سارے نکتے میںنے سپیکرز کے سامنے رکھے ،ہر ریجن کی آبادی اور بولی جانے والی زبان کے بارے میں اعدادوشمار بھی پیش کئے۔ اصل میں بھارت ہر زاوئیے سے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر کمزور کرنا چاہتا تھا۔ کشمیری زبان جو تینوں ریجنوں میں بولی جاتی ہے اسے محدود کرنے کی سازش رچائی جارہی تھی۔ کشمیر کے عوام کو زبان اور مذہب کے نام پر لڑانے کی سازش بھی تھی اگرچہ نوجوانوں نے میدان عمل میں خون دے کرمسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کرد نیا کی توجہ کا مرکز بنایا تھا تو سیاسی اور انسانی حقوق کے سطح پر بھی دنیا آنکھیں بند نہیں کرسکی، دنیا کا پریس میڈیا اور سیاست دان اور انسانی حقوق کے نمائندے کشمیر کے اندر موجود تھے ۔ بیرونی مملک کے سفارت کار دلی سے اس ابھرتی صورت حال کو دیکھ رہے تھے۔ ان حالات میں بہت ہی جامعہ اور واضح مستقل کشمیر پالیسی کی ضرورت تھی۔ یہ سب نظریاتی اور آزادی پسند قیادت عوام اورپاکستان کے تمام حکمرانوں کی ذمہ داری تھی مگر ہر دور میں اس کا فقدان رہا۔ لسانی بنیاد پر تقسیم کشمیر پر بھارتی پروپیگنڈ ہ اگرچہ رک گیا مگر لسانی جماعت یہاں وہاں بنانے میں بھی کسی نے دیر نہیں کی۔ ہم نے اپنا اپنا کام ابھی شروع بھی نہیں کیا تھا کہ مشکلات کے انبار سامنے آکھڑے ہوئے۔میں نے فوری طور پر یہاں خواتین کی تنظیموں سے رابطے کا پروگرام بنایا ۔۔۔اپنے سینئر سیاسی قیادت سے بات کی مگر مایوسی ہوئی وہ ٹالتے رہے۔

میں ذہنی طورپر یہاں رہنے کے لئے تیار بھی نہیں تھی میرے دل و جگر کے ٹکڑے میدان کارزار میں عملی طور ر وابسطہ تھے، والد صاحب بچوں کی ڈھال بنے ہر ایک کے حصے کا تشدد اور ظلم برداشت کر رہے تھے۔ کبھی جیل میں کبھی شناختی پریڈ میں کبھی انٹراگیشن سنٹرز میں ان کی آنکھ اور کان تشدد سے متاثر ہوئے تھے۔ ایک طرف آزادی کی جدوجہد میںبغیر کسی مدد کے کشمیری دنیا کی بڑی طاقت سے نبر آزما تھے دوسری طرف بڑی فوجی طاقت جدید اسلحہ سے لیس کے سامنے نہتے نوجوان عزم اور یقین کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس جنگ کا کوئی موازنہ نہیں۔۔۔ چند سو یا ہزار گنتی کے کھلونے ہاتھ میں لیکر جس طرح سے لڑ رہے تھے بھارت کے خلاف یہ reaction بہت بڑا سرپرائز تھا اور یہ نفرت اس وعدہ خلافی کا نتیجہ تھی جو سیاسی چالبازی، دھوکے جبر سے ۔۔۔آزادی کے حق کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ بنیادی حق خودارادیت کو پس پشت ڈال کر مختلف ہتھکنڈوں کے کے ذریعے اس مسئلے کو طول دے رہے تھے یہ رد عمل تھا جو آج بھی جاری ہے۔

ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھیے ہمارے ساتھ زمانہ چل پڑا مگر وہ رک گئے جو بیدار کرنے آے تھے ،وہ ترانے، وہ ماحول جس میںخوف نہیں ولولہ اور آزادی کی تڑپ تھی۔ آج برف کی چادر تلے خوف میں کیوں مبتلا ہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی گئی مگر بے یقینی اور شک وشبہات نے ذ ہن آلودہ کردئیے۔
کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر ابھر آئی ہے
(جاری ہے)

٭٭٭