میر جعفر اور میر صادق کے گھیرے میں مسلمانان غزہ

چیف ایڈیٹر کے قلم سے

18 مارچ سے صہیونی ا فواج نے غزہ پٹی پر پھر ایکبار جارحیت شروع کی ہے۔ اس جارحیت میں 23مارچ2025تک 634 فلسطینی شہید اور 1,172 زخمی ہو چکے ہیں،شہدا میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے لیکر اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 49,747 شہید اور 113,213 زخمی ہو چکے ہیں۔امریکی قیادت کھلے عام ان حملوں کو جائز قرار دے رہی ہے اور عملاََ ان حملوں کیلئے صہیونی اسرائیل کو سازو سامان بھی فراہم کررہی ہے ۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکا کو آگاہ کیا تھا کہ ہم غزہ پر دوبارہ حملہ کرنے جارہے ہیں۔ جس پر ہمیں وہاں سے نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ آپ کو ہماری پوری مدد حاصل ہے۔ وائٹ ہائوس کی ترجمان کیرولین لیویٹ کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل نے ان حملوں سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ اور وائٹ ہائوس سے مشاورت کی تھی۔ صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ حماس، حوثی اور وہ تمام عناصر جو اسرائیل اور امریکا کو دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ایک طرف یہ خونی کھیل جاری ہے دوسری طرف رمضان کے مقدس مہینے میں بھی غزہ کیلئے راہدریوں کی مکمل بندش اور سامان خورد نوش اور 21,000 ٹرکوں کو جو غزہ پہنچنے والے تھے، کو بالجبر روکا گیاہے ۔ایسے حالات میں اندر محصورین کس طرح کی صورتحال کا سامنا کررہے ہونگے ،اسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیاہے کہ 2 مارچ کے بعد سے تا دم تحریر غزہ میں کوئی خوراک داخل نہیں ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی یہ نسل کشی، قتل عام اور وحشیانہ جارحیت مسلم ممالک، خاص طور پر فلسطین کے اردگرد موجود مسلم ممالک مصر، اردن، سعودی عرب، ترکیہ اور ایران کی مسلم افواج کے سامنے ہورہی ہے۔سب سے پہلے اپنی جان کے نظرئیے نے مسلم حکمرانوں کو بے حمیتی کی انتہا تک پہنچادیا ہے۔مسلم حکمران بالعموم اور عرب حکمران بالخصوص Martin-Niemöller کی اس نظم کی تشریح اپنے عمل سے کررہے ہیں جس میںوہ کہتے ہیں کہ وہ (اغواکار،قاتل) کمیونسٹوں کو اغوا کرنے کیلئے آئے ،انہیں لےگئے ،میں خاموش رہا کیوں کہ میں کمیو نسٹ نہیں تھا ۔وہ پھر آتے رہے ،کبھی سوشلسٹ ،کبھی ٹریڈ یو نینسٹ اور کبھی یہودی کو اغوا کرتے رہے ،لیکن میں نہیں بولا ،خاموش رہا کیونکہ میں نہ سوشلسٹ تھا ،نہ کمیونسٹ ،نہ ٹریڈ یونینسٹ اور نہ یہودی ۔لیکن پھریوں ہوا کہ وہ پھر آئے اور مجھے اٹھالیا ،اغوا کیا ، لیکن کسی طرف سے آواز نہ آئی ،احتجاج نہ ہوا کیونکہ وہاں کوئی ایسا بچا ہی نہ تھا جو میرے لیے آواز اٹھاتا۔اگر سقوط غزہ ہوا تو جان لیں،سکوت ریاض ،سقوط دوبئی ،سقوط اردن ،سقوط مصر اور سقوط ترکیہ بھی ہوگا ۔گریٹر اسرائیل کے تصور کے خاکے میں رنگ بھرنا پھر ان کیلئے مشکل نہیں ہوگا۔اللہ رحم فرمائے ۔

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چار اپریل 1979میں پاکستان میں سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو پاک عدالت کے ایک متنازعہ فیصلے کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی۔مرحوم بھٹو کے بارے میں کشمیری عوام میں یہ تاثر تھا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے حوالے سے کسی بھی حد تک جانے کیلئے ہر وقت تیار ہیں ۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں ان کے جذباتی خطابات اور بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم کشمیر میں ان کی مقبولیت کو انتہا تک پہنچانے کا باعث تھے۔لیکن جب انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا تو کشمیری قوم اس حادثے کو برداشت نہ کرسکی۔پوری قوم سڑکوں پر نکلی ۔امریکہ اور بھارت کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔معاملہ اسی حدتک محدود رہتا تو حرج نہیں تھا۔ لیکن بعض علاقوں میں جہاں قادیانیوں اور کمیونسٹوں کا کچھ اثر و رسوخ تھا وہاں اس احتجاج کا رخ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں کشمیر کی طرف موڑ دیا گیا یہ تاویل دے کر کہ پاکستان جماعت اسلامی اس قتل میں شامل ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت سے وابستہ بہت سارے کارکنوں کے مکانات جلائے گئے ،فصلیں تباہ کی گئیںاور باغات کاٹے گئے ۔جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیرکے زیراہتمام چلنے والے درس گاہوں کو جلایا گیا۔قرآن مقدس کی حفاظت کرتے کرتے تجر شریف کا نو جوان محمد اکبر لون اپنے ہی مسلمان کشمیری بھائیوں کے ہاتھوں مرتبہ شہادت پر فائز ہوا!!!
چار اپریل ہمیشہ یہ بات یاد دلارہا ہے کہ کشمیری عوام کاپاکستان کی اس قیادت کیساتھ جذباتی لگاو رہا ہے اور رہے گا جن کے بارے میں انہیں یہ محسوس ہوگاکہ وہ کشمیری عوام کی آزادی کیلئے مخلص ہیں ۔جہاں جہاں انہیں محسوس ہوجائے کہ کوئی پاکستانی قائد یا حکمران انہیں بکاو مال سمجھ رہا ہے ،اسے وہ میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دیتے ہیںاور دیتے رہیں گے ۔اللہ رحم فرمائے