میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرو ں
14اگست کو مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آیا۔15اگست 1947بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ریاست جموں و کشمیر جواس وقت ایک نیم خود مختار ریاست تھی کا فیصلہ نہ ہوسکا۔2/3حصے پر بالجبر بھارت قابض ہوا اور 1/3حصہ مملکت پاکستان کے زیر انتظام آگیا۔ معاملہ اقوام متحدہ میں چلا گیا۔جہاں دونوں ممالک نے تسلیم کیا کہ ریاست کے عوام کو استصواب رائے کے ذریعے اپنا فیصلہ خود کرنے کا موقع دیا جائیگا۔معاملہ چلتا رہا لیکن ابھی تک استصواب رائے کا حق دینا تو دور کی بات جو حقوق ملے تھے انہیںبھی5 اگست 2019 سے بڑے پیمانے پر چھیننے کا عمل جاری ہے ۔14اور15اگست کی کہانیاں سنی سنائی تھیں۔کتابوں میں درج تھیں لیکن 5 اگست 2019 سے شروع ہوئی جو کہانی ہے اس کے ہم خود چشم دید گواہ ہیں۔جی ہاں 5اگست کی کہانی کا آغاز کچھ یوں ہوا ۔5 اگست 2019سے صرف دو روز قبل پوری ریاست میں دہشت گردانہ حملوں کے الرٹ جاری کردئیے گئے اور تمام غیر ملکی اوربھارتی سیاحوں کو جموں و کشمیر چھوڑنے کی ہدایت کی گئی،ریاستی عوام کو مشورہ دیا گیا کہ گھروں میں اناج کا کافی عرصے تک کیلئے انتظام کیا جائے۔بھارتی حکومت کے اس اعلان سے ہر طرف ایک خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوا ۔ اکثر لوگوں کو گماں گزرا کہ شاید پاکستانی زیر انتظام کشمیر(آزاد کشمیر) پر حملہ کرنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ پلوامہ طرز پر شاید کوئی اور کاروائی کا کہیں سے انہیں عندیہ ملا ہو ۔تاہم کسی کے وہم و گماں میں بھی یہ نہ تھا کہ بھارتی حکومت اپنے ہی آئین کی دھجیاں اڑانے کی تیاری کررہی ہے اور ان حریت پسندرہنماوں اور کارکنوں کے موقف کو صحیح اور سچ ثابت کرنے پر تلی ہو ئی ہے جو ہمیشہ سے کہہ رہے تھے کہ بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے Sky Is The Limit کی حد تک دی جانے والی آزادی کی بھی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ کسی بھی وقت بیک جنبش قلم کسی بھی آئینی ترمیم سے وہ سب کچھ چھینا جاسکتا ہے ۔ بہر حال اسی خوف و دہشت کے ماحول میں 10ہزار اضافی افواج بھی وادی کشمیر میں وارد ہوئی اور ذرائع ابلاغ پر یہ اعلانات بار بار سننے کو ملے کہ 25ہزار مزید بھارتی فوجیوں کو بھی طلب کیا گیا ہے ۔ دو دنوں کے اندر اندر پوری وادی کشمیر سیاحوں اور علمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے باہر کے طلباء سے خالی ہوگئی ۔جموں کے مسلم علاقوں اوروادی کشمیر میں5اگست سے پہلے ہی جوگرفتاریاں شروع کر دی گئی تھیں، وہ 5 اگست کے اعلان کے ساتھ عروج پر پہنچا دی گئیں اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ گھر گھر نو جوانوں اور کم سن لڑکوں کو گرفتار کر دیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد13 ہزار سے20 ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان ہمہ گیر گرفتاریوں کا ا یک بڑا مقصد یہ تھا کہ بستیوں میں عام خوف و ہراس پھیلا دیا جائے تا کہ دفعہ370کی منسوخی کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکا جاسکے پھر 5 اگست 2019 کو پوری ریاست میں غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کیا گیا،موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ۔ کشمیر کو مکمل تعذیب یا جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان سخت گیر اقدامات کے لیے باہر سے اضافی فوجی، نیم فوجی اور پولیس دستوں کی تازہ دم کمک حاصل ہو گئی۔ مقبوضہ ریاست کے اردگرد ایک آہنی فوجی اور پولیس کی دیوار قائم کی گئی لیکن سب سے زیادہ آہنی نظام وادی کشمیر اور جموں اور پونچھ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں قائم کیا گیا۔ اس سخت گیر پولیس نظام کی نمایاںخصوصیات یہ تھیں:کرفیو، لاک ڈاون، کریک ڈاون، خانہ تلاشیاں،موبائل اور انٹرنیٹ کی بندش، پریس، پبلکییشنزاوراخبارات پرسخت پابندیاں ۔ لینڈ لائن اور موبائل سروس کو بند کرکے اندرونی اور بیرونی رابطے ختم کر دئے گئے، پبلک ٹرانسپورٹ اور سرینگر سے باہر ہوائی آمدورفت مقامی باشندوں کے لیے ناممکن بنا دی گئی امتحانات امتناعی احکامات کی وجہ سے منسوخ کر دیے گئے۔ تمام چھوٹے اور بڑے تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکزبند ہوگئے۔ اس طرح لوگ گھروں میں محصور ہوگئے۔ جو لاکھوں کشمیری کاروبار کی وجہ سے یا طالب علم، تعلیم وتربیت کے حصول کیلئے جموں و کشمیر سے باہر بھارت کی مختلف ریاستوں میں رہائش پذیر تھے، انکا قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اس طرح بھارت میں کشمیری مسلمان عدم تخفظ کا شکار ہو کر واپس گھروں کو آنے پر مجبور کر دئیے گئے۔بھارت کی مختلف جیلوں میں پہلے ہی جو کشمیری نظر بند تھے۔ ان کے خلاف جیلوں کے اندرانتقام گیری تیز کردی گئی اور ان کے ساتھ پیشہ ور مجرموں کا سلوک کیا جانے لگا ۔بھارتی پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا گیا ۔بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کیلئے آرڈیننس پر دستخط کئے تاہم اس کا باقاعدہ نفاذ اکتوبر2019ء میں کیا گیا،ریاست کو براہ راست مرکز کے کنٹرول میں لیا گیا جس کے تحت بھارتی حکومت کومقبوضہ وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ کرنے کا بھی مکمل اختیار مل گیا ۔ ویسے یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات کے دوران ہی نریندر مودی اور بی جے پی نے اپنے منشور میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ وہ کامیابی حاصل کرکے آرٹیکل 370 اور 35 A– کو ختم کریں گے۔2019سے اب تک کے واقعات صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ گھر واپسی کے ایجنڈے کے تحت مسلم شناخت مٹانے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں ۔مساجد کے بجائے مندروں کا رخ کرنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملت اسلامیہ خاموش ہے۔مکمل سیز فائر ہے ۔سرحد ی علاقوں میں سیاحتی مراکز بنانے اور وہاں بسنے والے شہریوں کو پلمبر اور ٹیکنیشن بنانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں ۔امن ہوگا تو ترقی ہوگی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے