
شیخ محمد امین
گیلانی صاحب کی عظمت و قربانیاں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ۔وہ قربانیوں اور عظمتوں کا مجسمہ تھے
جب آنکھ کھولی گھر میں جماعت تھی اور جماعت اسلامی کا لٹریچر تھا
یقین ہے ہم حق پر ہیں اور حق کا راستہ کتنا کٹھن ہی کیوں نہ ہو۔۔ حق ہی تو ہے
ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے
مودی کا منصوبہ اکھنڈ بھارت ہے ۔ اکھنڈبھارت کا خواب چکنا چور کر نا ہمارا مشن ہے
جناب نعمت اللہ خان کا تعلق بونجی گلگت بلتستان سے ہے ۔اس وقت جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے نائب امیر ہیں ۔جو ن کے مہینے میں جناب عارف جان اور جناب شجر خان کے ساتھ گلگت جانے کا موقع ملا۔گلگت پہنچ کر اپنے ماہنامہ کشمیر الیوم گلگت بلتستان کے نمائندے جناب عبد الہادی کی توسط سے نعمت اللہ صاحب سے ملنے کا شوق پورا ہوا۔انہوں نے اپنے گھر بلایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری کافی مہمان نواز ہیں ،نعمت اللہ خان صاحب نے بالکل کشمیری انداز اپناکر ہی مہمان نوازی کا نہ صرف حق ادا کردیابلکہ یہ ثابت کردیا کہ گلگت بلتستان بھی کشمیر ہی ہے۔۔الحمد للہ۔ جناب نعمت اللہ خان صاحب نے1982 میں ریڈیو پاکستان جوائن کیا بطور سپر وائزر اپنی ذمہ داری انجا م دی پھر اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے ۔وہاں دو سال رہے ۔آپ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں پہلے جماعت اسلامی ضلع استور گلگت کے امیر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آج کل آپ نائب امیر جماعت اسلامی گلگت بلتستان کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں ۔2018ء میں آپ انتخابات کے دوران نگران وزیر بھی رہے ۔حالات حاضرہ باالخصوص جماعت اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر پر ان کے ساتھ کھلی ڈھلی گفتگو ہوئی ۔

س:امیر محترم ۔۔ آپ جماعت اسلامی میں کب آئے ؟
ج: جب آنکھ کھولی گھر میں جماعت تھی اور جماعت اسلامی کا لٹریچر تھا میرے سُسر اور چچا نے جموں و کشمیر میں ہی مولانا مودودیؒ کے ساتھ ملاقات کی تھی تب سے اس تحریک کے ساتھ وابستگی رہی ۔آپ سمجھیں جونہی میں کچھ سمجھنے اور پڑھنے کے قابل ہوگیا تو سید مودودیؒ کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھنے لگا۔جہاں جہاں سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو والد یا چاچا جی جو بعد میں میرے سسر بھی بن گئے سے مدد لیتا۔اس طرح میں اصلی و نسلی جماعتی ہوں ۔یقین ہے ہم حق پر ہیں اور حق کا راستہ کتنا کٹھن ہی کیوں نہ ہو۔۔ حق ہی تو ہے ۔سید مودودی ؒنے اس حق کو ان الفاظ میں سمجھایا ہے ۔”’’حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خود ’حق‘ ہے، وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے؛ کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے، دنیا کا ماننا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے؛ بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ رہنما بنایا۔ آگے مولانا نے فرمایاـ”اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ باالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ باالعموم رد کردیں لیکن لوگوں کا رد و قبول ہر گز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں‘‘۔

س::آپ کی کبھی سید مودودی ؒ سے ملاقات ہوئی ہے ۔۔
ج:کئی بار جناب ،کئی بار۔۔۔1960 ء میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے میرے بڑے بھائی جو بحیثت DIG ریٹائر ڈ ہوئے وہ راولپنڈی میں ہوتے تھے ۔ ان کا قلبی و علمی رجحان جماعت کی طرف تھا اور سید مودودی ؒکے وہ عاشق تھے ۔ اکثر و بیشتر مولانا کے ساتھ ملاقات کر تے تھے ،ملتے تھے۔ اُن کی وساطت سے میں بھی مولانا مودودی ؒکے ساتھ ملاقات کرتا رہتا تھا۔ اللہ کا کرنا جب مولانا مودودیؒ اس جہان فانی سے گذر گئے تو میں نے اس وقت ان کے جنازے میں بھی شرکت کی اور ان کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ میں پورے وثوق کے ساتھ عرض کروں گا کہ آج تک اتنا بڑا جنازہ یا اجتماع کم سے کم میں نے نہیں دیکھا ۔اور دوسری بات سید مودودی ؒ کے چہرے پر جب میری نظر اس وقت پڑی تو میں حیران ہوا کہ جب وہ زندہ تھے تو اتنے خوبصورت نظر نہیں آرہے تھے جتنے اس وقت نظر آرہے تھے ۔ ان کا چہرہ ایک بلب کی طرح چمکتا تھا ۔سبحان اللہ

سید ایک عبقری شخصیت تھے۔انہوں نے تفہیم القرآن لکھا۔ مخلتف مو ضاعات پر سینکڑوں کتابیں لکھیں ۔ سیاست بھی کی اور امامت بھی کی۔ بہت ہی با کمال شخص تھا ۔ اُس دور میںرکن جماعت بننے کے لئے کافی محنت کرناپڑتی تھی ۔ لٹریچر پڑھنا کتابوں کا مطالعہ کرنا ہر رکن اور امیدوار رکن کو پڑھنا پڑتا تھا۔ با قاعدہ نصاب ہوتا تھا ۔ایک شخص کے گفتار و کردار کی جب زمانہ گواہی دیتا تھا ،وہ لوگ بھی اس کی امانت و دیانت پر اعتماد کا اظہار کرتے تھے جو اس کے مخالف سمجھے جاتے تھے ،پھر اسے رکن بننے کیلئے فارم دیا جاتا تھا۔لیکن آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ وہ شخص خود ہی رکن بننے کیلئے تیار بھی نہیں ہوتا تھا وجہ یہی بیان کرتا تھاکہ میں اس مقدس تحریک کیلئے ابھی اس مقام پر پہنچنے کی تیاری پوری نہیں کرچکا ہوں ۔اللہ اللہ ۔۔کیا معیار تھا ۔۔۔آج کے دور کا معاملہ بہت مختلف ہے ۔ارکان سازی اور تنظیم سازی کیلئے سید مودودی ؒ کے نقوش پر چلنے کی ضرورت ہے ۔

س: جماعت اسلامی رفاہ عامہ کا کام بھی جنگی بنیادوں پر کرتی ہے لیکن لوگ پھر بھی جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتے؟
ج:جماعت اسلامی فلاحی اور رفاہی کا م حد سے زیادہ کرتی ہے پھر بھی ووٹ جماعت کو نہیں ملتا میں نے خود کئی لوگوں سے پوچھااس کی وجہ کیا ہے؟ تو جواب ملا کہ آپ اچھا اوربہتر کام کرتے ہیں لیکن کورٹ،کچہریوںاور تھانوں میں آپ لوگ ہماری صرف جائز مدد کرتے ہیں اس کے برعکس دوسری سیکولر جماعتیں جائز و ناجائز مدد کی پرواہ کئے بغیر ہماری مدد کرتے ہیں۔اور دوسری بات یہ کہ سیاسی پارٹیاں ووٹ خریدتی بھی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ پا نچ ہزار روپے کا نوٹ ہمارے اخلاق پر حاوی ہو جاتا ہے۔بہر حال اس سب کے باوجود ہمیں کوشش کرنی چائیے ۔ایک وقت ضرور آئیگا جب یہ قوم سمجھ جائیگی کہ اس کے اصل محسن کون ہیں ۔ ہمارے صرف دو بندوں مولاناعبدالاکبر چترالی اور سنیٹر مشتاق احمد خان نے پارلیمنٹ اور سینٹ میں ایسا کردار ادا کیا جس سے ہمار ا وقار بلند ہو ا اور لوگوں کی سمجھ میں بھی آچکا ہوگا کہ جماعت کے دو بندے کس طرح تمام جماعتوں پر حاوی رہے ۔۔ کئی اچھے فیصلے انھوں نے کروائے۔ اب اگر دو کے بجائے دس ہوتے تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے اور اچھے فیصلے ہوتے
س:تحریک آزادی کشمیر ۔۔۔کچھ فرمانا پسند فرمائیں گے۔
ج:ہم سارے کشمیری ہیں ،کشمیر صرف وادی کا نام نہیں ۔جموں ،کشمیر ،لداخ ،آزاد کشمیر گلگت بلتستان کا مشترکہ نام ۔۔۔کشمیر ہے ۔ہاں اس کا ایک علاقہ جسے ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کہتے ہیں ،بھارت کے جبری قبضے میں ہے ۔جہاں تک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ ہے ،یہ مقبوضہ نہیں کیونکہ پاکستانی حکومت حق خود ارادیت کی بنیاد پر ریاست کا فیصلہ کرانے کے حق میں ہے اور اس وعدے پر نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کیلئے سیاسی و سفارتی سطح پر جدوجہد بھی کررہی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام 1947سے اپنا یہی حق مانگ رہے ہیں اور اس کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔اس جدوجہد میں اب تک ان کے پانچ لاکھ لوگ شہید ہوچکے ہیں یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے ۔بد قسمتی کا مقام یہ ہے کہ عالمی برادری جس نے کشمیریوں کی حق خود اردیت کے حق کو تسلیم کیا ہے خاموش تماشائی ہے ۔

س:سید علی گیلانی ؒ سے کبھی ملاقات ہوئی
ج:ملاقات نہیں ہوئی لیکن میری روح کی گہرائیوں میں وہ موجود ہیں ۔وہ بہت بڑے قائد تھے ۔کشمیر کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کے لئے انہوں نے پوری زندگی وقف کی۔وہ سید مودودی ؒ کے سچے اور پکے پیروکار تھے۔گلگت بلتستان والے سید کو ہمیشہ اپنا لیڈر سمجھتے رہے ہیں ۔گیلانی صاحب کی عظمت و قربانیاں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ۔وہ قربانیوں اور عظمتوں کا مجسمہ تھے ۔وہ زیر حراست شہادت سے سرفراز ہوئے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔
س:گلگت بلتستان میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے آپ اور آپ کی جماعت کیا کردار ادا کررہی ہے ۔
ج:جماعت اسلامی سیاسی سطح پر اپنا کردار ادا کررہی ہے ۔جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج میں ہم پیش پیش ہوتے ہیں ۔ یہاں دیگر مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے ساتھ مل کر ہم اس مسئلے کو عوامی اور حکومتی سطح پر اٹھا رہے ہیں ۔جب قوم و ملک کو ضرورت پڑ تی ہے تو جماعت اسلامی کو پہلی صف میں کھڑا پا تی ہے۔ میں خود تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں جیل بھی رہا ہوں ۔ مرحوم امان اللہ خانؒ میرے سگے ماموں ہیں ۔میں ان کے ساتھ حق خود ارادیت مانگنے کے جرم میں گرفتار رہا ہوں ۔ہم نے بعض معاملات میں اختلاف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کاساتھ دیا۔مرحوم امان اللہ خان ؒ ایک عظیم، صاف و شفاف اور خود دار قائد تھے ،جسکا کشمیر کی آزادی کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔الحاق اور خود مختاری کی بحث کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ کھلی حقیقت ہے کہ وہ کوئی عام شخص نہیں تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔
س:پاکستان سفارتی اور سیاسی محاذ پر کشمیر کی آزادی کیلئے کردار ادا کررہا ہے ۔کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے ۔
ج:سیاسی اور سفارتی محاذ ہی کیوں ۔بھارتی طاقت و قوت پاکستان کے سامنے ہیچ ہے۔بھارت عسکری محاذ پر ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔پوری ایمانی قوت اور جذبہ جہاد سے سرشار میری مملکت کے فوجی کسی بھی طاقت کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں ۔ مودی کا منصوبہ اکھنڈ بھارت ہے ۔ اکھنڈبھارت کا خواب چکنا چور کر نا ہمارا مشن ہے۔اگر ہم ڈر گئے یا اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئے تو اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو گا اور اگر ہم نے بہادرری اور ایمانی قوت سے مقابلہ کیا تو اکھنڈ بھارت دریائے گنگا میںڈوب جائے گا۔ پاکستان کو ایک فریق کی حیثیت سے نہ صرف سیاسی اور سفارتی بلکہ فوجی محاذ پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اسے احساس دلانا ہوگا ۔ورنہ اگر مودی کے حوصلے بلند ہوتے رہے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو پھر صرف کشمیر نہیں بلکہ یہ پورا خطہ خطرات کی زد میں آئے گا۔اللہ رحم فرمائے ۔
س:کیا آپ سمجھتے ہیںکشمیر کبھی آزاد ہوگا۔
ج:مایوسی کفر ہے اور میں الحمد للہ مسلمان ہوں ۔کشمیر آزاد ہوگا اور ضرور آزاد ہوگا۔خون شہداء کبھی ضائع نہیں ہوگا۔اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ نہ صرف کشمیر بلکہ پورا بھارت ۔۔۔برہمنی سامراج سے آزاد ہوگا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کفر کے نظام کوبرداشت کرسکتا ہے لیکن ظلم و جبر پر مبنی نظام اسے قبول نہیں ۔ظلم ظلم ہے ،بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔۔۔
کشمیر الیوم کے نام آپ کاپیغام۔۔۔۔۔
بہت خوشی ہوئی آپ یہاں تشریف لائے ۔آپ کی جدوجہد کو سلام ۔آپ جو جدوجہد۔۔۔ قلمی جہاد کررہے ہیں یہ عظیم کام ہے اللہ پاک قبول فرمائے۔۔ اللہ اس جدو جہد کوکامیاب کرے اور جموں و کشمیر جلد از جلد بھارتی قبضے سے آزاد ہو جائے۔آمین یا رب العالمین ۔قارئین سے بھی میری گذارش ہے کہ وہ اس رسالے کی سرکولیشن بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔میری خواہش ہے کہ یہ رسالہ گلگت بلتستان کے ہر گھر میں پہنچ جائے۔