نجم الدین خان

نعیم اختر لولابی

میرے استاد نجم الدین صاحبؒ کی یہ پہلی برسی ہے۔ایک برس قبل کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اگلے سال نجم صاحب ہم میں نہیں ہونگے۔لیکن بقا تو صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے کسی کو موت سے مفر نہیں،سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔یہا ں تک کہ یہ پوری کائینا ت بھی کہ جس کی رنگینی میں انسا ن کھوکر اپنا اصل مقام بھول جا تا ہے۔قریبا 34 بر س قبل،جب میں چشم تصور میں دیکھتا ہوں تو نجم صاحب عالم شباب میں تھے اور ان کا ٹیکی پورہ لولاب سے، صبح نو بجے کے قریب بس اڈے سے ایک چھوٹا ایٹیچی کیس ہا تھ میں لئے،خراماخراماں دیو ر لولاب کی طرف بڑھنا مجھے آج بھی اسی طرح یا د ہے جیسے یہ کل کی بات ہے۔نجم صاحب نفاست پسند تھے۔ہمیشہ قمیض شلوار میں ملبوس رہتے۔اکثر سفید یا سکائی بیلو رنگ کے کپڑے سلواتے۔ میں نے اکثر انہیں اسی رنگ کے کپڑے پہنے دیکھا ہے۔بالوں کے درمیا ن مانگ نکالتے بعض اوقات کا نوں کی لو اور پیچھے گردن تک بھی بالوں کو نہ چھیڑتے۔ ان پر لگا تیل، صبح سورج کی چمک میں، دور سے دکھا ئی دیتا۔اس دور میں ٹیکی پورہ سے دیور علاقے کے فلا ح عام ٹرسٹ سکول تک، کوئی ٹرانسپورٹ کا سلسلہ نہ تھا۔لوگ کھیتوں کے بیچوں بیچ ہی بیس فٹ چوڑائی والے اس را ستے، دیور پہنچتے،یہ کوئی چھ کلو میٹر کافاصلہ ہو تا۔یہ صاف کچا راستہ، وت ہیڈ کے نام سے مشہور تھا۔مون سون کی بارشوں میں وتہ ہیڈ دلدل کی صور ت اختیا ر کر جا تا، پیدل چلنا بھی محال ہوتا۔نجم صا حب یہی راستہ لینے صبح گھر سے نکلتے۔اپنے گھر سے دیور سکول تک ایک ہی رفتار سے چلتے۔ہم ٹیکی پورہ سے جانے والے طلبا کو اگر نجم صاحب کہیں راستے میں نظر آتے ہم دھم سادے ا ن کے پیچھے پیچھے چلتے۔کئی مرتبہ جب ہمیں سکول پہنچنے کی خواہش نہ ہو تی، توہم کئی لڑکے وتہ ہیڈ کے دونوں طرف،پھیلے چاولوں کے کھیتوں میں ہی چھپ جا تے۔

نجم صاحب کا یہ دو ربڑا شاندار تھا۔ٹیکی پور ہ،درد پورہ،دیور اور لعل پورہ کے علاوہ دیگر چھوٹے دیہا توں میں بھی،نجم صاحب کا بڑا احترام تھا۔ پھر اپنی وضح قطع سے وہ دور سے ہی پہچانے جا تے تھے۔نجم صاحب ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔اگرچہ وہ جسمانی طور پر معزور تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کو اپنے ذہن پر سوار نہیں ہونے نہیں دیا۔سال کے آخر میں،جب نومبر میں بچے امتحان دے کر فارغ ہوتے تو پھر اس دوران کی چھٹیوں میں،نجم صاحب یوم والدین کی تقریب کا انعقا د کی تیا ریوں میں لگ جا تے۔نجم صاحب،ایسے بچوں کا انتخاب خود کر تے جو ان کے معیا ر پر پورا اترجاتے۔اس پروگرام کے کردار خاص ہوتے۔مجھے آج بھی یا د ہے کہ دیگر گاوں سے بھی لوگ اس تقریب میں شرکت کے لئے آجا تے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شامل ہوجاتے،جن کے بچے اس سکول میں زیر تعلیم نہیں بھی ہوتے۔یہ سب خاکے کشمیری زبان میں ہوتے۔البتہ انگریزی اور اردو زبان میں کوئی تقریر بھی بچوں سے کروائی جا تی۔جب کوئی مزاحیہ شاعری، لیڈی شاہ کے انداز میں کوئی بچہ سنانا شروع کر دیتا،تو حاضرین مجلس، ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوجا تے۔اسی طرح جب کوئی بچہ پرندوں کی آوازیں نکالتا، تو نجم صاحب کی خود بھی ہنسی چھوٹ جا تی۔

میں ساری زندگی نجم صاحب کے اس دور کو کبھی بھول نہیں سکتا۔نجم صاحب اس کا م کے لئے دن رات ایک کر دیتے۔نجم صاحب جماعت کے ان سکولوں میں، کام نہ بھی کر تے، تب بھی ان کی معاشی حالت پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ان کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا۔لیکن ان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔اس دور میں مجھے یہ اچھی طرح یا دہے کہ لوگ عصر کے بعد اپنے کھیتوں سے،جب کا م کر کے لوٹتے،تو بس اڈہ،کھلے میدانوں اور دکانوں کے پاس ٹولیوں کی شکل میں محفل جماتے۔نجم صاحب بھی ایسی کسی محفل کا حصہ ضرور بنتے۔۔یہ وہ دور تھا،جب کشمیر کسی انقلاب کے لئے کروٹ لے رہا تھا اور کسی کے کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ماحول پر ایک غیر یقینی سی فضا طاری تھی لیکن امن وامان کی صورت حال بھی برقرار تھی۔

نجم صاحب بہت حاضر جواب تھے۔کسی کے اندازکلام سے ہی،صورت حال بھانپ لیتے اور گفتگو کا باقی حصہ، خود مکمل کر تے اور اکژکہتے لمبی تفصیل کی ضرورت نہیں، میں با ت سمجھ گیا ہوں۔کسی کی بات اگرنا گوار گزرتی، تواس کا ادھا ر نہیں رکھتے بلکہ موقع پر ٹکا سا جواب دیتے اور نتائج کی وہ کبھی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔اپنا نقطہ نظرصاف بتا دیتے اس معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔نیک نیت رہتے ان کی کوئی خانگی زندگی نہ تھی۔ان کی تگ ودو،ٹرسٹ کے لئے ہی رہتی،تاکہ ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ جب بھی نجم صاحب کا ذکر ہوگا،توان کی آزاد کشمیر میں مہاجرت والی زندگی کی یادوں کا بھی تذکرہ ضرور ہوگا۔یہاں بھی نجم صاحب نے اپنی پرکشش شخصیت کے باعث، کئی ساتھیوں کو اپنا گروید ہ بنا لیا تھا۔نجم صاحب تنہا پسند نہ تھے اپنے دوستوں کے ساتھ بھرپور وقت گذارتے۔ٹرسٹ میں کئی ساتھی، ان کے ساتھ کام کر تے تھے۔ انہوں نے ایک کامیاب فلاحی ادارہ قائم کرکے، اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا پھر اس کو رجسٹر بھی کر دکھا یا جبکہ میں نے ان کو کہا تھا کہ ادارہ کی رجسٹریشن بہت مشکل کام ہے، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہا ری۔کچھ عرصہ سے اگرچہ وہ بیمار رہنے لگے تھے لیکن اپنے دوستوں کو بھولتے نہیں تھے۔ان سے ملنے آتے اور ان کے گھروں میں ضرور جا تے۔ابھی توجیسے کل کی با ت ہے میرے گھر تشریف لائے۔شام کے سائے ڈھل چھکے تھے۔کچھ دیرسستانے کے بعد، انہوں نے نماز مغرب ادا کی، ٹی وی لانچ میں داخل ہوئے،بچوں سے ٹی وی ریمورٹ لیکر، گویا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اپنے ہا تھ میں لئے، بچوں سے پوچھا، ادھر ارتغل والا ڈرامہ چلتا ہے، میں نے جواب دیا بچے اسی شوق میں تو یہاں چوکڑی ما ر کے بیٹھے ہیں۔کہنے لگے، ارتغل دیکھ کر پتہ چلتا ہے جدوجہد کس طرح کی جا تی ہے، اور ہم جیسے لوگ اس قابل نہیں، ہما را کردار کیا ہے، ہم تو عیاشی کر رہے ہیں، کیسے ہم آزاد ہونگے۔۔۔۔غداروں نے ہمیشہ ملت اسلامیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔

نجم صاحب ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، جن کا اوڑھنا بچھونا دین اسلام تھا۔وہ اسلامی ذہن کے مالک تھے اور غلبہ دین کی آرزو رکھتے تھے۔وہ اسلامی انقلاب کے ساتھ، اپنی قومی آزادی کا خواب دیکھتے تھے۔ارتغل ڈرامہ میں بھی ان کی دلچسپی کی واحد وجہ یہی تھی۔نجم صاحب کی آواز میں گونج تھی۔ان کی موجودگی کی احساس دور سے ہوتا تھا۔یقین نہیں آتا یہ آواز اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوچکی ہے۔گذشتہ برس جب استاد محترم،اچانک فوت ہوئے، تو انہی صفحات پر ان سے وابستہ کچھ یادوں کا تذکرہ کیا تھا۔اب ایک برس بعد پھر یادوں کے چند دریچے کھلے ہیں۔اللہ سے دعاہے، یا رب کریم! نجم صاحب مہاجرت کی زندگی میں آسودہ خاک ہوئے ِ، تو کبھی انہیں اس اجر سے محروم نہ رکھنا۔ آمین

٭٭٭