
شیخ محمد امین
بھارت کی پانچ اگست2019 کی یکطرفہ کارروائی نے اُنکے اُس مبینہ نام نہاد الحاق ہندکے معاہدے کو خود بہ خود کالعدم کر دیا ہے
عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے تناظر میں اگر ہمیں ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ خطے میں اُن کے مزموم عزائم کو جواب دینا ہے تو عسکریت کو فعال کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں
آزادی دی نہیں جاتی، چھین کر لی جاتی ہے
جناب نجیب افسرتحریک آزادی کشمیر کے سفارتی محاذ پر کافی عرصے سے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس وقت جموں و کشمیر لبریشن کونسل کے چیف کواڑینیٹر کی حیثیت سے آزادی پسند تنظیموں کو متحد کرنے اور انہیںبھارت کے کشمیر پر غیر قانونی قبضے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرانے اور کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی رائے کے عین مطابنق حل کرانے میں عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دینے میں اپنا کردار بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔نجیب افسر کا تعلق نگیال چکسواری ڈسٹرک میرپور آزاد جموں و کشمیر سے ہے ۔ستر کی دہائی میں ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہوا ۔انہوں نے وہیں اپنی تعلیم بھی مکمل کی ۔ 1990ء میں جب کشمیری قوم بھارتی غیر قانونی اور ناجائز قبضے کے خلاف نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری سطح پر بھی بر سر پیکار ہوئی تو انہوں نے ایک کشمیری کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کے نقطہ نگاہ سے دنیا کی سامنے اجاگر کر نے کا فریضہ ادا کرنے کی ٹھان لی۔ الحمد للہ نجیب افسر صاحب اس فریضے کو انجام دینے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔پچھلے ماہ پاکستان آئے تھے ۔کافی مصروفیت کے باوجود کشمیر الیوم کے دفتر تشریف لائے ۔ مختصر دورانیہ کے ملاقات کے دوران ان کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے مختصر لیکن بہت ہی اہم اور غور طلب گفتگو ہوئی۔من و عن قارئین کی نذر ہے (شیخ محمد امین)
س :اگر چہ ہندوستان کے بے تحاشا طاقت کے استعمال اور بھاری فوجی جماؤ نے کشمیر کی عسکری جدوجہددکو کمزور کر دیا ۔ لیکن سیاسی اور سفارتی محاذ بھی کمزور کیوں ہوا؟
ہمارے سیاسی اور سفارتی محاذ کو ایک منظم طریقے سے کمزور کیا گیا جس میں آزاد خطے کی لیڈرشپ کو ایک خاص رنگ میں ڈال کر اُنکی سیاسی حیثیت کو ختم کرنا نمایاں ہے۔ بعد ازاں یہ لیڈرشپ کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔ ان سیاسی لیڈروں کو بیرون ممالک بھیج کر اُن سے مختلف کام کروائے گئے جو کہ ہماری تحریک کے حق میں بالکل نہیں تھے۔ ان سے بیرون ممالک موجود کشمیری تارکین وطن میں پھوٹ پڑی اور وہ اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر ،انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے۔

س: کشمیر کے حوالے سے جو جذبہ کشمیری کمیونٹی میں 5 اگست 2019 کے بعد موجود تھا، وہ اب کچھ سرد پڑ گیا ہے۔ کیا کوئی خاص وجہ ہے؟
۵ اگست کے بعد ہمارا ڈائسپورا ایک منظم طریقے سے کام کرنے لگا جسکے اثرات بھی واضح ہونے لگے تھے۔ پھر اچانک آزاد کشمیر کی حکمران اور اپوزیشن قیادت کے دورے شروع ہوگئے۔ انہوں نے ان سرگرمیوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جو با لآخرتارکین وطن کی تقسیم کا سبب بنی ۔یہاں کشمیر کے جھنڈے تلے ہم سارے جمع ہوگئے تھے ۔ان کے آنے کے بعد کشمیری کم اور پارٹی رنگ زیادہ نمایاں ہوگیا۔ یہ سب ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا اور یہ سازش کامیاب بھی ہوئی ۔
س: 5پانچ اگست کے بعد مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک ہندو اکثریتی علاقہ بنانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ اس خوفناک صورت حال سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے؟
عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے تناظر میں اگر ہمیں ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ خطے میں اُنکے مذموم عزائم کو جواب دینا ہے تو عسکریت کو فعال کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اسکے علاوہ حکومت آزاد جموں و کشمیر کو مقبوضہ وادی پر اپنی حکومت کا اعلان کرنا ہے کیونکہ بھارت کی پانچ اگست2019 کی یکطرفہ کارروائی نے اُنکے اُس مبینہ نام نہاد الحاق ہندکے معاہدے کو خود بہ خود کالعدم کر دیا ہے۔ پانچ اگست کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے واشنگٹن میں اپنے ایک خطاب میں یہ اعلان کیا بھی تھا پر واپسی کے بعد انہوں نے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا نہ ہی اسمبلی میں کوئی قرارداد پاس کی۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ خود ڈر گئے یہ یا اُنہیں خاموش کرایا گیا۔

س: پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے، کیا وہ اس تنازعہ میں اپنا کردار اس انداز میں نبھا رہا ہے،جیسا اس کو نبھانا چائیے تھا؟
مسئلہ کشمیر میں پاکستان ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔پاکستان پچھلے پچھتر برسوں میں بُہت کچھ کرنے کا اہل تھا پر بدقسمتی سے یہ ملک پیچھے رہ گیا۔ پاکستان آج بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو جوڑ کے ایک خودمختار حکومت کو مضبوط کر کے ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایسی آزاد حکومت دنیا کے ایوانوں میں خود کو تسلیم کروا سکتی ہے اور مسئلہ کشمیر کو ایک بہتر طریقے سے دنیا کے سامنے رکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دفاعی معاہدوں کے نتیجے اور سائے میں آزاد خخطے کی ایک فوج کو تشکیل دیا جا سکتا ہے جو کہ ہندوستان کو ایک نہایت ہی مشکل صورتِ حال میں ڈال سکتا ہے
س: کشمیری کمیونٹی میں سیاسی تقسیم کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟
ہمیں یہاں کی اپنی سیاسی جماعتوں پر فوکس کرنا ہوگا اور باہر کی سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ ختم کرنا ہوگا تبھی جا کے ہم کچھ ٹھوس کام کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں
س: تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے آپ آزاد کشمیر کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا اسے زیادہ موثر نہیں بنایا جا سکتا؟
اگر ہم پچھلے ریکارڈز چیک کریں گے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ برُے طریقے سے ناکام ہوئے ہیں۔ ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے جب تک نہ کہ غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کا کنٹرول ختم ہوگا جن کا یہاں پالیسی میکنگ میں خاصا کردار ہوتا ہے۔ اس سب کو ختم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے
س: بیرونی دنیا میں کام کرنے والی تنظیموں کے کام کو کیسے مربوط اوربہتر بنایا جا سکتا ہے؟
ہماری سرزمین پر آزادی کی جنگ لڑنے والے فریڈم فائٹروں،جماعتوں بشمول حریت پسندوں کا اتحاد ۔۔۔۔ تارکین وطن کو ان سب کے خلاف دوبارہ متحد ہونے، سفارتی جدوجہد کی بہتر قیادت کرنے اور متحرک ٹیم بنانے کی ترغیب دے گا۔

س: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی کا رویہ کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
اقوام متحدہ اپنے منتظمین کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے ۔دراصل اقوام متحدہ لیگ آف نیشن کی طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کو امن کو درپیش تمام تر خطرات کے خلاف واضح موقف اپنا کر رد عمل دینا ہو گا بصورت دیگر اسکی خاموشی ہی بہتر ہے۔
س: کشمیر الیوم کے قارئین کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی جدوجہد کو ترک نہیں کرنا چاہیے جب تک مادر وطن میں ظالم ریاست کے جبراَمظالم اور فوجی مداخلت کے خلاف ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھا نہیں ہو جاتے، فوجی انخلا کو یقینی نہیں بنا لیتے تب تک ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ ہمیں صرف ریاست جموںو کشمیر کی سیاسی و حریت پسند جماعتوں کی حمایت کرنی چاہیے اور اپنی آواز کو پر اثر بنانے کے لیے ان میں شامل ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ کشمیری تارکین وطن اپنے مادر وطن کو بیرونی تسلط سے آزاد کروانے، متحد ہونے اور فوجی انخلا کو یقینی بنا لینے میں اپنی سیاسی و سفارتی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔ایک اصول کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چائیے کہ ۔۔۔آزادی دی نہیں جاتی، چھین کر لی جاتی ہے
٭٭٭