7مارچ 2024ء بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے مقبوضہ وادی کشمیر کا دس لاکھ فوجیوں کے حصار میں دورہ کیا۔وہاں ایک ایسے جلسے سے خطاب کیا جسے بظاہر عوامی جلسے کا نام دیا گیا لیکن حقیقتاََ وہ زبردستی لائے گئے سرکاری ملازمین اور وردی کے بجائے سول لباس میں ملبوس نیم فوجی دستوں کا ایک نام نہاد جلسہ تھا ۔ بہر حال اپنے خطاب میں اور باتوں کے علاوہ مودی نے کشمیری قوم کے نام ایک پیغام دیا جس میں اس نے کہا کہ وہ کشمیری عوام کا دل جیتنے آیا ہے ۔کشمیری امور کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے مودی کے اس پیغام کو دیوانے کا خواب ہی قرار دیا ہے کیونکہ زمینی حقائق اس پیغام کے بالکل برعکس ہیں۔ ویسے مودی کے دورے کے خلاف کشمیری عوام کی فقید المثال ہڑتال نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ کشمیری عوام نے بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو نہ پہلے قبول کیا اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارتی حکمران معصوم کشمیر ی عوام کے قاتل ہیں،لہٰذا ایسے حکمرانوں کی جانب سے کشمیری عوام کے دل جیتنے کا بیان زخموں پر نمک پاشی کا ہی پیغام ہوسکتا ہے۔ کیا کشمیری کبھی یہ بھول سکتے ہیں کہ یہ وہی مودی جی ہی ہیں جس نے 05اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی صدیوں پرانی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے کشمیری عوام پر تاریخ کا بدترین فوجی کریک ڈائون مسلط کرکے خود کو ہٹلرکی صف میں شامل کرایا ہے۔مودی حکومت مقبوضہ علاقے میںغیر کشمیری ہندوئوں کو آباد کرکے مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کے بعد وہاں ہندو تہذیب وثقافت رائج کرنا چاہتی ہے۔ اپنے شہریوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو کشمیرمیں آباد کر رہی ہے اور ا ن کیلئے علیحدہ کالونیاں آباد کی جارہی ہیں۔ قابض بھارتی افواج کشمیری خواتین کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ہزاروں خواتین بیوہ ہوچکی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں خواتین نصف بیوائوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں نے دوران حراست کے دوران لاپتہ یا جعلی مقابلوں میں قتل کر کے ان کی لاشوں کو نامعلوم مقام پر دفن کر دیا ہے۔ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین، انشا سمیت تین درجن سے زائد کشمیری خواتین رہنماء بھارتی جیلوں میں غیر قانونی طور پر قید ہیں۔ جہاں انہیں تمام بنیادی اور طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے تاکہ انہیں تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانے پر مجبور کرایا جائے۔انتخابی حلقوں کی از سر نو حلقہ بندیاں کی جاچکی ہیں جس سے بی جے پی کوحکومت بنانے میں آسانی اور ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ رہے۔کشمیری مسلم سرکاری ملازمین کی برطرفی،جائیدادو املاک کی ضبطی اور رہائشی مکانوں کی تباہی مودی کے دعوئوں کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ کشمیری عوام غزہ سے بھی بدتر صورتحال سے گزررہے ہیں۔ان حالات میں دل جیتنے کی باتیں کرنا کسی مذاق سے کم نہیں۔ کشمیری عوام کو یاد ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانیؒ بارہ برسوں تک اپنے ہی گھر میں خانہ نظر بند رکھے گئے،اور پھر یکم ستمبر 2021 میں اسی حالت میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ محمد اشرف صحرائیؒ بھارتی عقوبت خانے میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرگئے۔الطاف احمد شاہ ؒاور غلام محمد بٹؒ بھی بھارتی جیلوں تہاڑ اور نینی تال میں اپنی جانیں قربان کرگئے۔جبکہ دس سے پندرہ ہزار کشمیری نوجوان بھی بھارتی جیلوں میں بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔پوری ریاست کو مکمل جیل خانے میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ بخشی سٹیڈیم سرینگر میں لاکھوں بندوقوں کے سائے میں مودی کی تقریر خود ان ہی کے بیانات کی نفی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں معمول کے حالات بحال ہوچکے ہیں بلکہ یہ مودی اور اس کی قابض انتطامیہ کے دعوئوں کی از خود نفی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے موجودہ حالات بھارتی حکمرانوںکیلئے نوشتہ دیوار ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر اور کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا یہ خطہ عدم استحکام سے دوچار اور اس پر ایٹمی جنگ کے بادل مسلسل منڈلاتے رہیں گے۔کشمیری عوام اقتصادی پیکجز نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کے آبرومندانہ حل کے حصول کیلئے کوشان ہیں جس کیلئے 1947 سے لیکر آج تک سوا پانچ لاکھ لوگوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں ا ور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔مودی اگر کشمیری عوام کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر کو بلاکسی مزید تاخیر حل کرکے اہل کشمیر کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کریں،جس کا وعدہ بھارتی حکمران اقوام عالم کو گواہ ٹھہراکر کشمیری عوام کیساتھ کرچکے ہیں۔۔
٭٭٭