نظریاتی انقلابات

شہزاد منیراحمد

جب سے زمین پر انسانوں کی منظم معاشرت وجود میں آئی ہے انسان کو دو اقسام ہی میں منقسم دیکھا گیا ہے۔ توانااور کمزور، سرمایہ دار اور بے مایہ زمین دار اور بے زمین۔ اردو زبان میں اس تفریق کو اشرافیہ اور عوام کہتے ہیں۔ جب کہ انگریزی میں اسےHave and Have Not پکارتے ہیں۔خود کو برتر سمجھنا شائد معیوب نہ ھو لیکن اوروں کو کم تر سمجھنا یقیناً غلط اور مکمل حماقت ہے۔ احساس برتری البتہ شخصی کردار کیلئے تعمیری طرز فکر ہے بشرطیکہ ادمی میں کوئی برتر قابل فخر وصف تو ہو۔۔ مثلاً امریکی شہری محمد علی کا خود کو دوسروں سے برتر باکسر سمجھنا، یا جہانگیر خان کا یہ فخر کہ۔میں دنیا کا بہترین اسکوئش کا کھلاڑی رہا ہوں کسی طرح بھی قابل اعتراض تصور نہیں کیا جاتا۔

تخلیقی اور فطری جذبات کے اعتبار سے تو سب انسان برابر ہیں۔ اس کے باوجود ہر دور میں انسان اوپر بیان کردہ اقسام ہی میں بٹا ہوا دیکھا گیا۔ یہ گروہ ایک دوسرے کے حریف اور آپس میں متصادم ہی رہے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انسان کو علم و الہام و ادراک ہے کہ دنیا میں انسانی کوششوں سے ان کی مالی معاشی اور معاشرتی حیثیت بدل سکتی ہے۔ توحید رسالت پر ایمان لانے والوں کو فرمان الٰہیہ یاد ہے کہ ” یہ دن ہم باری باری بدلتے رہتے ہیں لوگوں میں(” العمران آیت 140)۔یہ بات ثابت ہے کہ قوموں اور قبیلوں میں طاقت کی ادلیٰ بدلی ایک خاص عرصے کے بعد قدرت عمل میں لاتی رہتی ہے۔

اس سچائی پر علامہ اقبال نے لکھا ہے:-
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
سکوت اک میسر ہے تغیر کو زمانے میں

اکثر مورخوں کے قریب انسان کی منظم معاشرتی زندگی پر لکھنے والوں میں چھٹی صدی قبل مسیح کے فلاسفرز پیش پیش رہے ہیں۔ ان کے علمی اور تحقیقی کام نے بنی نوع انسان کے لیئے زندگی کو بہت آسان بنا دیا ھے۔ مثلاً ہیروڈوٹس، پرمانڈیس اور ہرکولیس وغیرہ۔ مگر انہیں وہ شہرت نصیب نہ ہوئی جو یونانی فلاسفرز کے حصے میں ائی۔یونانیوں کایہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے علم سیاسیات اور فلسفہ کو ایک مربوط مضمون کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جب بھی کہیں ریاست اور ریاستی نظام حکومت کا ذکر آئے، یونانی فلاسفرز کے نظریہ سیاست اور فلاسفی کا ذکر لازم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کہیں حق وباطل کا تصادم ہو ۔۔ظلم و ستم اور تشدد غیر معمولی شکل اختیار کر جائے تو لوگ سقراط کے زہر کے پیالے کی مثال دیتے ہیں۔۔جدید دور میں البتہ نظریاتی علوم میں سب سے پہلے آئیڈیالوجی کی اصطلاح استعمال کرنے والے فرانسیسی اشرافیہ کیرکن فلاسفر لوئس کلاڈو تھے۔ جنہوں نے یہ بحث چھیڑی کہ کوئی علم یا علمی تحقیق کب اور کیسے نظریہ کی شکل میں ڈھل کر عوام میں مقبولیت حاصل کر لیتا ھے۔

لوئس کلاڈو کہتا تھا جب مروجہ حالات یا اعمال سے لوگ ناخوش اور مایوس ہو کر متبادل علم و راہ تلاش کرلیں۔ پھر پرانے طرز سے جان چھڑانے کی تگ دو کو جائز سمجھ کر جو لائحہ عمل طے کریں وہ نظریہ کہلاتا ہے لوئس کلاڈو کی اس تعریف کو بعد میں نپولین اور مارکس اور اینجل نے بھی پسند کیا اور نظریہ Idealogy کی تعریف یہ طے پائی۔

” Idealogy,is form of social or political philosophy in which practical elements are as prominent as theoretical one..It is a system of ideas that aspires both to explain the world and to change it.”

یعنی نظریہ مختلف افکار و سیاسی خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے جو نظری اور عملی اعتبار سے یکساں تاثیر رکھتا ہے۔ فکرو خیال کا یہ آمیزہ لوگوں میں قبولیت پا کر دنیا میں انقلاب برپا کرنے کے اثرات رکھتا ہے۔

حاصل بحث یہ ہے کہ انفرادی تجربہ کوئی بھی ہو وہ علم کہلاتا ہے جب یہ علم دوسرے ضمنی تفصیلات سے مل کر عام استفادہ کا باعث بنے تو نظریہ تب بنتا ہے۔ اس وقت دنیا میں مغربی فلاسفرز کے مطابق جو تسلیم شدہ ائیڈیا لوجیز Idealogies مستعمل ہیں وہ سوشلزم، کمیونزم، ، فاشزم، نیشنلزم، لبریشنزم اور کنزرویٹزم ہیں۔ حیران کن طور پر کامل اور موثر ترین ازم (اسلام) مغربی فلاسفرز کے قریب کوئی فلسفہ حیات ہی نہیں۔ اس امر سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغربی ممالک اور غیر اسلامی عوام اسلامی نظریہ حیات سے کس قدر بغض اور تعصب رکھتے ہیں۔ مزید تفصیلات بعد میں کسی وقت عرض کرونگا۔ اس موقع پر ہمیں پہلے ازم کی تعرف جاننا ضروری ہے۔

یہ وہ حقیقت حال ہے جس نے مجھے معتبر لوگوں، صاحب دانش و بینش کے اس پلیٹ فارم پر اپنی بات اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے متحرک کیا، اور میں نے یہ کہا کہ” نظریات کیسے طلوع اور غروب ہوتے ہیں” میں مغربی فلاسفرز کے اسلام کو نظریہ ہی نہ تسلیم کرنے پر مذکورہ بالا طرز فکر اور نظریے پر بدگمان ہونے کی بجائے خوش گمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہوں گا کہ ممکن ہے انہوں نے دلی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کر رکھا ہو کہ نظریہ اسلام تو ایک ایسے مستقل، دائمی اور لازوال نظام حیات انسانی کا امین اور داعی ہے کہ جس میں تو نہ کسی پیوندکاری کی گنجائش ہے اور نہ کوئی غیر ضروری لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ واقعتا دین فطرت اورسچا دین ہے۔ دین اسلام خالق کائنات کا بنایا ہوا ضابط حیات ہے۔ جیسے اللہ تعالٰی نے فرما رکھا ہے کہ تمہیںاللہ نے مٹی سے بنایا، تمہاری زمینی زندگی کی مدت مقرر کر رکھی ہے اور اس زندگی کی مدت مقرر ہے جو تمہیں موت کے بعد ملنے والی ہے۔ (سورت الانعام آیت نمبر 1 اور 2)۔ نظریات نہیں بدلتے، انسان بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مغربی فلاسفرز آپس میں بھی سیاسی اور معاشی نظریاتی اختلافات کا شکار رہے ہیں۔جو بھی سیاسی نظریہ اہل مغرب نے متعارف کروایا اس کے ناقدین بھی مغرب ہی سے اٹھے۔ مثلاً میکاولی نے جب اپنے سیاسی نظریات پر مشتمل The Princeلکھی تو اس پر مغربی فلاسفرز ہی نے تنقید کی اور اسے مکار اور جھوٹا شخص قرار دے کر” برائیوں کا استاد” کہا۔ میکاولی کی The Prince کو تقریباً تقریباً سارے فلاسررز اور دانشوروں نے مسترد کیا اور اس کے طرز فکر کی مذمت کی کہ وہ حکمران کو برائیاں سکھاتا ہے۔ میکاولی کے بڑے ناقدین میں جرمن فلاسفر نطشے اور امریکی دانشور لیوئس سڑاس پیش پیش رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب (قرآن مجید) ہی نازل نہیں کیا بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگوں کو انسانی زندگی کی تفصیلات اور جزئیات مکمل طور کر سمجھا دے تا کہ لوگ اسی طرح زندگی گزاریں جیسے پیغمبر ادا کرتا ہے۔ اس طرز عمل و حیات کو اسلام میں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کہا جاتا ہے۔ جب کہ فرمودات رسول اللہ کو حدیث نبوی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ قران پاک کو اسی لیئے مکمل ضابطہ حیات تسلیم کیاگیا ہے۔ یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ۔جس کسی بھی مغربی یعنی بے دین فلاسفر نے قرآن کریم کا مطالعہ بلا تعصب دل و دماغ سے کیا وہ آخر کار مسلمان ہو گیا۔ جیسے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے بین الاقوامی تعلقات پر چیف ایڈوائزر SIR ROBERT CRANE سر رابرٹ کرینے نے 1981 میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام بھی، اسلام کے دوسرے بے مثال خلیفہ راشد،حضرت عمر بن خطاب کی نسبت سے (فاروق) رکھ لیا۔ راقم نے اپنے فکر ونظر میں ایک مسلم کے لیے یہ شعر لکھا ہے:-

تو مسلم تیرے کس کام کے، مغرب کی تحقیق و مقالے
تیرا اثاثہ ہے ام الکتاب، اور حسبنا اللہ و نعم الوکیل

قرآن جزئیات کی کتاب نہیں بلکہ اصول اور کلیات کی کتاب ہے۔ جونظام اسلامی کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو پوری وضاحت کے ساتھ نہ صرف پیش کرتا ہے بلکہ عقلی استدلال اور جذباتی اپیل دونوں کے ذریعے سے خوب مستحکم کر دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں پیغمبرِ اسلام نے لوگوں کی تربیت اصول دین اسلام کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود رکھی۔جب مدینہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدن، معاشرت معیشت،قانون، اور سیاست سے متعلق بھی اصولی ھدایات دینا شروع کر دیں۔ اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے۔

سوشلزم

یہ نظریہ 19 ویں صدی کے آغاز میں برطانوی اور فرانسیسی فلاسفرز کے اشتراک سے ابھرا جن میں تھامس سپینس چارلس فورر سینٹ سائمن اور رابرٹ اوون شامل تھے۔ یہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور پولیٹیکل سائنس اور علوم سماجیات کے طالب ہونے کے ناطے دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے دانشور تھے۔ پھر ان میں جرمن فلاسفر کارل مارکس اور اینگلز بھی شامل ہوئے تو رت ہی بدل گئی والی کیفت ہو گئی۔ کارل مارکس نے اور اینگلزنے انقلاب فرانس کا پس منظر حشر نشر اور عوام کی حالت زار جان رکھی تھی۔ انہوں نے نظام حکومت اور ریاستی اداروں کی انسان کش سرمایہ دارانہ اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں پر بڑی تنقید کی۔ اور سرمایہ دارانہ نظام پر کئی مضامین لکھے۔ وہ انہوں نے اپنی تحریروں میں کیپیٹل ازم میں پائی جانے والی خامیوں اور حکومتی بے حسی پر بڑے جارحانہ اور حقیقت پسندانہ انداز میں قلمی حملے کئے۔

1848 میں کارل مارکس نے علم سیاسیات پر کتابچہ لکھ کر اپنا نظری پیغام لوگوں تک پہنچایا جسے خوب سراہا گیا اور اسے عوامی سطح پر نمایاں طور پر پذیرائی ملی۔ کارل مارکس کا یہ قول عالمی سطح پر بہت پسند کیا گیا۔ “وقت ہمہ گیر اثاثہ ہے۔ بے عمل انسان زندہ لاش کی مانند ہے۔۔۔ انسانی ضرورت تب تک بے وقعت رہتی ہے جب تک انسان کا دل بیدار اور ذہن و نگاہ روشن نہ ہوں”۔

کارل مارکس اور اینگلز کی مشترکہ کوششوں سے 1867 میں کتاب Capital Das The بھی لوگوں کو مطالعہ کے لیے دستیاب ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کارل مارکس کی یہ کتاب اس کے مسلسل چالیس سال تک لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ اور غور و فکر کرنیکے بعد مکمل ہو کر منظر عام پر آئی تھی۔ ولللہ اعلم باالصواب۔ راقم کے مطابق اگر کارل مارکس زار روس کی ظالم و جابر حکمرانی کی انسان کش پالیسیوں کے نتیجے میں عام رعایا کی محکومانہ طرز زندگی،حق تلفیوں، قابل رحم زبوں حالی اور معاشرتی خوشیوں سے محروم و افسردہ چہروں کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا اور انقلاب فرانس کا پس منظر اور دوران انقلاب تباہ کاریوں کا نہ جانا ہوتا تو شاید وہ سوشلزم کی حمایت کبھی نہ کرتا۔

انقلاب فرانس میں بادشاہ کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے بھوکوں پیٹ رہنے والے عوام، کسان اور فوج نے 14 جولائی 1789 کو پیرس میں Bastille Fortressپر یلغار کر کے انقلاب کا اغاز کر دیا۔ معتوب مزدورں کے ہاتھوں متمول آقاؤں کی ذلت، کارخانوں میں افلاس زدہ ہنر مندوں کے ہاتھوں کارخانوں کے مالکوں کا حلیہ بگاڑنے والی پٹائی اور چلتی مشینوں میں اوزار پپھینک کر انہیں ناکارہ کرنا۔ بھوک افلاس کی ماری بپھری عوام کے ہاتھوں اشرافیہ کے محلوں اور حویلیوں کی تباہیاں اور کھیت کھلیانوں میں دہقانوں کے ہاتھوں فصلوں کا جلانا اور جاگیرداروں کی سر پھٹول جیسے واقعات کی تفصیلات نے دنیا بھر میں حکمرانوں کی آنکھیں کھول دیں، لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگ گئے۔ تباہ کاریوں، خونریزیوں کے اس ابتلاء و آزمائش کے دور کی عکس بندی علامہ اقبال نے بھی اپنی ایک مشہور نظم میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
گرما دو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا اتا ھے زمانہ
جو نقش کہن نظر ائے اس کو مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

کارل مارکس کے دل ودماغ میں بادشاہت اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں شدید نفرت پیدا ہو گئی اور انمٹ نقوش بیٹھ گئے۔۔ کارل مارکس کے دل ودماغ میں روسی نظام حکومت اور فرانسیسی اشرافیہ کے رویوں کے بارے میں اس قدر بیزاری اور نفرت شدت اختیار نہ کرتی تو ممکن ہے اس کا معاشرتی زندگی کے بارے میں فلسفہ سوشلزم کی بجائے کسی اور شکل میں سامنے اتا۔ چونکہ فرانس میں بادشاہت کا حشر نشر وہ جان چکا تھا اس لیے اس نے متبادل نظام کے بارے میں سوچناشروع کر دیا۔ اس کی سوچ مگر مزدوروں کی فلاح و بہبود سے اگے نہ جا سکی۔ کہیں بہتر ہوتا اگر وہ اسلام کا بھی مطالعہ کرتا تو۔

علم و دانش کے اعتبار سے یونان کو پہلی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔اسی لیے یونانیوں کو نظریات کے بانی کہہ کر پکارا۔جاتاہے۔ سقراط ارسطو اور افلاطون نمایاں فلاسفرز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سقراط ایک مجسمہ ساز تھا۔اس نے اپنی ریاست کی لڑی جانے والی لڑائیوں میں حصہ لیا اور داد شجاعت بھی پائی۔ وہ ایک اچھا شہری اور سچا استاد تھا۔ وہ اپنے بزرگوں اور احباب کی نظر میں ایک اخلاقی اور روحانی بزرگ کی شہرت رکھتا تھا۔ جب یونانیوں کو سقراط کے نظریات اور خیالات سے سے اگاہی ہوئی تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یوں بھی لوگوں کی فطرت میں پرانے رسم و رواج سے بیزار ہونا اور نئے نئے خیالات کو پسندیدگی اور پذیرائی بخشنا عام ہوتا ھے۔ پھر نیا پن دھندلاتے دھندلاتے مٹنے لگتا ھے۔۔ سقراط نے نئی نسل کو سچ بولنے اور سچائی اپنانے کا سبق دیا کہ حکمران اپنی طاقت اور اقتدار کو طوالت دینے کی خاطر اکثر جھوٹ کا سہارا لے کر عدم انصاف کا نظام قائم کر دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور با اختیار حلقوں کو سقراط کی براہ راست سچی تعلیمات سے خطرات محسوس ہونے لگے۔ سقراط پر ریاست اور ریاست کے نظریات کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج ہوا اور عدالت سے اسے سزائے موت سنا کر زہر کا پیالہ پلا دیا گیا۔۔ سقراط نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی تھی جس سے اس کے نظریات کی وسعتوں اور افادیت کا اندازہ لگایا جاتا۔ البتہ اس کے شاگرد ارسطو اور افلاطون نے کتابیں لکھیں۔

دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام (ISM )رائج ہیں ان سب میں بہترین نظام اسلامی قوائد و ضوابط کے تابع قائم ہونے والا نظام ہے۔ کوئی بھی حکومت قائم کرنے کا بنیادی فرض اور غرض و غایت معاشرے میں عدل و انصاف سے معاملات کو چلانا نبھانا ہے۔ اور اللہ کریم کے سوا اور کوئی عادل ہے نہ کوئی قادر مطلق۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام کس نفاست سے کس قدر نظم و ضبط سے چل رہا ہے۔اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ھے۔ اس اعتبار سے اللہ سے بڑھ کر انسانوں کی فلاح و بہبود اور کوئی نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں رائج حکومتی نظاموں میں بد ترین بندو بست سرمایہ داری CAPITALISM ہے۔ سرمایہ داری کا آغاز کرنے والے عوامل و عناصرِ اور ان کے کریہہ کردار کے بارے میںپڑھ کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے اور پھر پریشان ہو کر سر پکڑ لیتا ہے کہ زمین پر اللہ کا یہ نمائندہ اس قدر بے حس اور درندگی پر بھی اتر سکتا ہے۔

عیسائیت اور اسلام دونوں کے مطابق آدم و حوا کو اللہ رب العالمین کا جنت سے زمین پر بھیجنے کا ابتدائی مقصد تو یہ تھا کہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق محنت کر کے روزی کمائے۔اور اگر اس کی کمائی اس کی ضرورت سے بڑھ جائے تو وہ وافر آمدنی ان کو دے دے جو کم استعداد رکھتے ہیں۔اس عمل کے یقیناً بہتر نتائج نکلتے اور انسان اخوت اور ایثار کی ڈوری میں پریا رہتا۔ لیکن ہوا اللہ الرحمٰن کی اس منشاء کے برعکس۔جو لوگ جسمانی، دماغی اور حربی مہارت وغیرہ سے زیادہ طاقتور تھے انہوں نے کمزورں کو غلام بنا لیا اور خود محنت کرنے کی بجائے غلاموں سے محنت کروانی اور ان کی کمائی کھانی شروع کر دی۔ یہ تھا وہ پہلا قدم جو بعد میں بڑھتا، پھیلتا پنپتا پنپتا بتدریج سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھل گیا۔ اللہ کے بندوبست میں طاقتور کو کمزور کی مدد کرنا تھی انسانوں سے الٹا کمزور کو دینے کی بجائے اس کا مال لینا شروع کردیا۔

اللہ کے نظام میں کمائی سے کھانا اور وافر حصہ کمزوروں کو دینا تھا۔ انسانوں نے کمائی جمع کرنا(ارتکاب دولت) شروع کر دی۔۔ ظاہر ہے یہ قدرت کے نظام اور مقصد سے متصادم نظریہ حیات کھڑا کر دیاگیا ھے۔ سرمایہ داری کو بدترین نظام اسی لیے کہا جاتا ھے کہ اسلام کے علاوہ جتنے نظام (ازم ISM) دنیا میں رائج ہیں، کمیونزم، سوشلزم ، چانکیہ سیاسی فلسفہ، میکاولی نظریہ ہٹلر ازم لادینی نظریات وغیرہ وغیرہ سب میں ریاست اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتی اور اسے کچھ سہولیات فراہم کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں سرمایہ کار ہر کام اور سرمایہ کاری اپنے منافع کی خاطر کرتا ہے اسے عوامی فلاح وبہبود سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جیسے پاکستان میں بجلی بنانے والے IPPs پراجیکٹ نے حکومت پاکستان سے معاہدات کر رکھے ہیں کہ وہ ایک خاص مقدار میں بجلی پیدا کریں گے۔ حکومت پاکستان وہ پوری بجلی استعمال کرے نہ کرے ان کمپنیوں کو طے شدہ رقم پاکستان کو ضرور ادا کرنا ہوتی ہے۔

طاقتوروں اور سرمایہ داروں کا کمزور طبقوں کو اپنا ملازم رکھنا غلامی کی سب سے نچلی اور معصوم نظر آنے والی بھدی شکل ہے۔ ملازم وہ کرتا اور کہتا ہے جو اسے اس کا آقا کرنے کہنے کی اجازتِ دیتا ھے۔ جہاں انسان کی اپنی فکر وقعت نہ رکھے اسے اپنے عمل میں آزادی نہ ہو وہ اس کی عزت نفس اور آزادی کا قتل ہوتا ہے۔ آقا کی ذاتی ملازمت ہو، محکومی ہو یا غلامی ہو وہ اشرف المخلوقات کی توہین اور انسانیت کا قتل ھے۔ زمانہ قدیم کی غلامی کا ذکر ہو یا دور جدید میں انسانیت کی تذلیل دونوں کی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔

1 غلامی کی بنیاد تب بھی طاقت کے عدم توازن پر تھی وہی وجہ آج بھی رائج ہے۔
2 ۔۔مالک اور غلام کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف جبر سے کام لیا جاتا تھا وہی رواج آج سرمایہ دارانہ نظام میں پایا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں ملازم کا پاسپورٹ کفیل اپنے پاس رکھ کر اس کا استحصال کرتا ہے۔ 3۔۔جنگی قیدی غلام بنا لئے جاتے۔ 1971 میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان سے پاکستانی افواج اور سویلین قیدی بنائے رکھے۔۔ 4۔۔بردہ فروشوں سے بردے خرید کر غلام بنائے جاتے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام غلام بنائے گئے آج بھی اغواء برائے تاوان کر کے تین تین سال تک لوگ قید رکھے جاتے ہیں۔ 5 ۔۔مقروض کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ اج بھی اینٹوں کے بھٹوں پر یہی طریقہ چل رہا ھے۔ پیشگی دی جاتی ہے اور پورا خاندان غلاموں کی طرح کا کرتا ہے۔ 6۔۔غلامی ہو یا سرمایہ دارانہ نظام حقوق صرف مالک کے ہوتے ہیں۔غلاموں کے صرف فرائض ہوتے ہیں۔ 7 ۔۔غلاموں کو رذیل اور زلیل سمجھا جاتا تھا۔جدید دور میں بھی اسکندر مرزا کی بیوی ناہید اختر کہتی ہے ایران کے شہنشاہ کھانا کھاتے ہیں تو جنرل کی کرسی کی پشت پر کھڑے رہتے ہیں۔ ہمارے میجر (ADC) ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ مزدور ہمیشہ ظلم و ستم اور استحصال کا شکار رہا ہے۔ اج بھی ایسا ہی ہے اور کم از کم مستقبل قریب میں بھی ایسا ہی رہے گا۔ صحیح خطوط پر جد و جہد کرنا لازم ہے اور اس کا بار آور ہونا بھی لازم ہے۔لیکن فی الحال کوئی انقلابی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔

کشمیری قائدین سے گزارش

نظام سرمایہ داری کے جن اوصاف کا تذکرہ اوپر کیا گیا ان کا جائزہ لیں تو تسلیم کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ نظام سرمایہ داری (مروجہ جمہوریت) انسانیت کش نظام ہے جس میں جائز یا جائز ،صحیح یا غلط، سود مند یا نقصان دہ ہونا دیکھے بغیر اکثریتی ممبران کی تجویز کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔اس نظام سے ریاست کشمیر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ریاست پر ہندوستان کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ 1947 سے قائم ہے۔ کشمیری اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضہ و جارحیت کے خلاف آزادی کی جنگ تب سے اج تک لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان ہی اس جنگ کے خلاف مقدمہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے۔مگر اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں اقوام متحدہ اج تک ناکام ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف دنیا بھر میں افسانوی نظام جمہوریت (مک مکا) رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں اکثریتی ممالک ریاست جموں و کشمیر سے ان کے نظریہ اسلام سے بغض رکھنے کی بنیاد پر بہانے بہانے سے فیصلے پر عمل درآمد ملتوی کروا دیتے ہیں۔

راقم بحثیت کشمیری باشندہ ہمیشہ سے عرض پرداز رہا ہے کہ آزادی کشمیر کی جنگی کوششوں میں ہم ہر اس فرد اور ریاست کے شکر گزار ہیں جو ہماری اخلاقی، سیاسی اور سفارتی کوششوں میں مدد کرتے ہیں اور ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان ساری قوتوں کی موثر اہمیت اپنی جگہ مقدم اور قائم ہے مگر انہیں موثر اور فیصلہ کن بنانے کے لیے ہم کشمیریوں کو بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات اور بنتے ٹوٹتے بین الاقوامی اتحادوں کے پیش نظر ہمیں اپنی جنگ آزادی کے منصوبوں پر نظر ثانی کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

اج ہندوستان میں یہ بحث چھڑ گئی ہے

1947 میں قبائلی غیر منظم اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں اگے بڑھ رہے تھے۔ اگر قبائلی منظم ہو تے اور غیر ضروری سرگرمیوں میں مصروف نہ ہو جاتے تو 26 اکتوبر1947میں سری نگر پر ان کا قبضہ ہو جاتا۔بھارت میں اب نہرو پر کشمیر میں جنگ بندی اور معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر غم و غصّے کے ساتھ شدید تنقید ہونا شروع ہو گئی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کہتے ہیں کہ اگر نہرو اقوام متحدہ میں نہ جاتے تو پورا کشمیر ہندوستان کے پاس ہوتا۔ نیشنل کانگریس کے فاروق عبداللہ نے امیت شاہ کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر نہرو اقوام متحدہ میں نہ جاتے تو پاکستان پونچھ اور راجوڑی پر قبضہ کر لیتا۔

حرف اخر یہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کی آزادی کیلئے لڑی جانے والی جنگ کے حریتی قائدین کو درپیش اپنے مسائل کے حل کے لیے نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصی ایجنڈے پر غور وفکر کرنا بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

شکم مادر سے نظریات ملتے ہیں اور نہ محکومی
جرم ضعیفی سے اٹھایا جاتا ہے غلامی کا خمیر
٭٭٭

شہزاد منیراحمد

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں