شہزاد منیر احمد
آدم اور بنی آدم کو زمین پر بسا کر کائنات میں اللہ تعالیٰ نے پہلا عالمی معاشرہ قائم کیا تو اس میں رہنے والوں کے لیے قواعد و ضوابط(قرآن کریم)بھی نازل کئے۔( فبای الاء ربکما تکذبان)فطری معاشرے کے انسان نے جب اپنی عقل و شعور سے معاشرے کی تقسیم کی تو اس کے ارتقائی فروغ کے قوانین اور اصول بھی اپنے بنائے جو کم و بیش فطری قواعدِ و ضوابط ہی کی نقل تھے۔ سائنسی علوم کی بنیاد پر نئی نئی دریافتوں کے سامنے آنے پر معاشرے بدلتے چلے گئے۔انسانوں کی عادات و مزاج میں تبدیلی آتی چلی گئی۔اللہ نے جن انسانی کمزوریوں کی نشان دہی، قرآن کریم میں کی ہے (انسان کمزور ہے جلد باز ہے، جھگڑالو ہے، ناشکرا ہے، ظالم و نادان ہے۔) وہ بتدریج کھل کر سامنے اتی چلی گئیں۔ آج ہم انسان کو اپنے ان مکروہ اوصاف کی بنیاد پر خود سر اور بے لگام ہوا دیکھ رہے ہیں۔
جب ہم انسانی نفسیات اور اس کے فطری رویوں کا جائزہ سائینسی تحقیق کے طے کردہ نتا ئج اور دریافتوں کی سچائی کو سامنے رکھ کر ۔۔ کرلیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنی فطری نادانی،کمزوری اور جلد بازی کی گرفت سے نہ نجات چاہتا ہے، نہ فطرت بدلتا ہے اور نہ ایسا کرنے پر قائل ہوتاہے۔
آدمی بار بار یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ اس کا علم محدود ہے، اس کے باوجود اپنی رائے ہی کو حتمی رائے سمجھتا ہے۔جب اس سے تکرارِ کیا جائے کہ مسئلے کا حل وہ نہیں جو اپ تجویز کرتے ہیں بلکہ بہتر فیصلہ جو اہل دانش و فکر بتاتے ہیں۔وہ فوراً جواب ملتا ہے Over my dead body. یہ جملہ اپنے اندر وسیع معنے رکھتا ہے، جو بولنے والے کی شخصیت، اس کی نفسیات، اس کے حلقہ اربابِ، گرد و پیش کا معاشرتی ماحول اور مذہبی رجحانات کا عکاس ہوتا ہے۔
طاقتور شخصیات، معتبر، صاحب اقتدار اداروں کی ضد اور انا پرستی کی وجہ سے ماحولیاتی انقلاب ممکن نہیں ہوتا۔ بہر حال انقلابی تبدیلی کے پیش نظر کی جانے والی کوششیں، کامیاب ہوں یا ناکام ہوں ان کا نتیجہ،جیسا کیسا بھی ہو سامنے تو آتا ہے۔ لیکن وہ مطلوبہ صورت و شکل میں ظاہر نہیں ہوتا۔ نتیجتاً تسلیم کرنے اور مخالفت کرنے والوں میں ٹھن جاتی ہے، (یہ رویہ نظریہ ریاست سے انحراف ہوتا ہے)۔ایسے میں ایک تیسرے آپشن پر غور شروع ہو جاتا ہے۔یوں معاشرہ vicious circle میں سفر کرنے لگتا ہے۔ سیاسی خباثتیں معاشرے کا رخ بدلنے کے نام پر انتشار پیدا کرنے لگتی ہیں۔
یہ ناقابلِ تردید زمینی حقیقت نظر انداز نہ کریں کہ۔جب ایک معاشرہ (ریاست) تشکیل پا جاتا ہے تو پھر اس کے پر امن رہنے، ترقی کرنے،عوامی فلاح و بہبود کے فروغ اور صحت مندانہ ماحول بحال رکھنے کا ایک ہی راستہ (اصول) ہے کہ ہر شہری سے قانون اور ثقافتی اقدار کی کما حقہ پابندی کرائی جائے۔ یہ عمل اس غیر تحریری عہد کی پاسداری ہوتا ہے جو قوم اپنی منفرد اور نظریاتی اکائی قائم کرنے کی جدو جہد میں کرتی ہے۔
ریاست قوم اورآئیندہ نسلوں کی یاد دہانی کے لیے قومی منشور منظور کرتی ہے۔ قومی ترانہ ریاست کے مستقل کا تصوراتی خاکہ ہوتا ہے جس میں ان کے سیاسی، معاشی، ائینی، فلاحی، تجارتی اہداف کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی تعلقات، کشمکش حیات میں جہد مسلسل کا اعادہ کرتی تصویریں ہوتی ہیں۔ اس میں ریاست کے قیام و ثبات کا تذکرہ معروف طرز نگارش سے نہیں بلکہ مخصوص الفاذ کو منتخب کر کے ایک دلنشین دھن میں سمویا جاتا ہے۔قومی ترانہ گویا ایک قوم کا امیدوں بھرا نظریاتی نغمہ ہوتا ہے۔ اس قومی منشور یا ترانے کی قومی زندگی میں اہمیت کو علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
علامہ اقبال ریاست کی مرکزی حثیت کو ایک فرد کی خود آگاہی سے تشبیہہ دے کر بتا رہے ہیں کہ جس طرح انسان خود آگاہی کے بغیر ترقی و فلاح نہیں پا سکتا، ویسے ہی ریاست بھی اپنے نظریہ ریاست (منشور) سے روگردانی کر کے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب شاہراہ سفر پر سنگ میل نصب ہو تو۔
علامہ اقبال نے علمی تحقیق اور روحانی بصیرت سے پر مبنی الہام کی بنیاد پر یہ انکشاف بھی کر رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وصف عطاء کر رکھا ہے کہ وہ اپنے گردو پیش چیزوں اور ماحول کو دیکھ کر ان کی سمت اور شکل بدل ڈالے۔ ان کی پیش گوئی دنیا کے فلاسفرز نے اپنے علم و عمل سے سچ ثابت کر دکھائی۔ سینکڑوں سالوں سے بادشاہت میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ہاتھوں پسے مزدورں کی زبوں حالی کو دیکھ کر اسٹالن اور لینن نے روس کی بادشاہت Monarchy ختم کر کے بالشویکوں کی حکومت قائم کر دکھائی۔
1878 سے پہلے یہودی دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ دنیا میں دوسری اقوام و امم کو اپنی اپنی ریاستوں میں حکومت کرتے دیکھ کر انہوں نےZionist Jews Movement شروع کی اور جیسے تیسے ہوا 1948 میں ازاد ریاست قائم کر لی۔ ہندوستان میں مسلمان صدیوں کی غلامی اور محکومی کی اذیتوں میں جیتے رہے۔ آزادی کے خواب دیکھتے رہے مگر بات نہ بنی۔ آخرکار 1857 کی بغاوت کے بعد مسلمانوں نے آزادی کی تحریک شروع کی۔ بے شمار صعوبتیں جھیلنے اور قربانیوں کے بعد محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کی راہنمائی اور کوششوں سے اتنے بڑے ہندوستان اور برطانیہ کی مخالفت کے باوجود ریاست پاکستان وجود میں آ گئی۔ یہ امر یقینی ہے کہ قومی زندگی میں، بے اثر، غیر ضروری اور اضافی قوانین و ضوابط کو تبدیل تو کیا جا سکتا ہے لیکن مسترد یا توڑا نہیں جا سکتا۔ ریاستی قوانین اور ضوابط کا ماخذ کچھ بھی ہو،ان کی پابندی ہی ریاستی معاشرے کی شناخت قائم کرتے ہیں۔ ایک۔نظریاتی ریاست کے ذرائع ابلاغ نہ صرف اپنی ریاست اور حکومت کے کان اور انکھیں ہوتے ہیں بلکہ وہ ایک انتہائی چوکس نگران کی حثیت بھی رکھتے ہیں۔
نظریاتی ریاست کا وجود اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اس کے معتبر ادارے،(مقننہ، انتظامیہ،عدلیہ ذرائع ابلاغ) اپنے نظریہ ریاست کی حفاظت کی خاطر کسی طرح کی کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ ذرائع ابلاغ دو نہیں چار چار آنکھوں سے نگرانی کریں کہ کہیں کوئی بدخواہ نقب زن ریاستی وجود کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اگر کسی غدار وطن کی بھنک میڈیا کو پڑے تو گہری اور مثبت تحقیق اور ثبوتوں کے ساتھ اس غدار وطن، اس کے مخبر اور اعانت کرنے والوں کو قانون کے کٹھہرے میں لا کر قرار واقعی عبرت ناک سزا دلوائی جائے۔
راقم، آپ کے سامنے تین ریاستوں کی مختصرا مثالیں پیش کرتا ہے۔ جنہوں نے اپنے نظریہ ریاست کی بنیاد پر شہرت پائی۔ایک تو اج بھی کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ ایک مکمل ناکام ہوئی اور دوسری ناکامیوں کی طرف چل پڑی ہے، دیکھتے ہیں اس کا کیسا انجام ہوتا ہے۔

یو ایس ایس ار، 1914؛سے لے کر جب تک اپنے نظریہ ریاست پر قائم رہا، قوموں کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو کر بہت اگے نکل گیا۔ عالمی سطح پر سپر طاقت بن کر ابھرا۔ امریکہ کے برابر کی حثیت میں رہا۔ عالمی سیاست کو بھی اپنے کردار سے متوازن رکھنے میں پیش پیش اور کامیاب رہا۔ لیکن جونہی گورباچوف نے اپنے نظریہ ریاست سے باہر نکل کر گلاسناسٹ GLASNOST پالیسی اپنائی تو وہ علامہ اقبال کے بیان کردہ انجام، قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی ” کو پہنچا یعنی ریاست USSR ٹوٹ پھوٹ کر کئی ریاستوں میں بٹ گیا۔
دوسرا ملک اسرائیل ہے جو 1948 میں آزاد ریاست کی حثیت سے قائم ہوا۔ وہ اج تک اپنے نظریہ پر قائم ہے۔ باوجود ایک چھوٹا ملک ہونے کے وہ معاشی اعتبار سے مکمل خود کفیل ہے، اپنے نظریے کی دھاک اس طرح دنیا پر قائم رکھی ہے کہ ان کے سامنے ان کے 56 حریف مسلم ممالک ان کی کسی پالیسی پر تبصرہ تک کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ 1967 میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پیرس میں ایک اجلاس میں کہا تھا،عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کی طرف سے خطرات سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔۔اب پاکستان اس کا پہلا ھدف ہونا چاہیے۔کیوں کہ یہ نطریاتی ریاست ہمارے وجود کے لئیے خطرہ ھے۔ تمام پاکستانی تمام یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عربوں سے محبت کرتے ہیں۔یہ عربوں سے محبت کرنے والے ہمارے لیے عربوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے عالمی صیہونیوں پر یہ۔لازم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے۔
چونکہ بھارت میں ہندو آباد ہیں جن کے دل مسلمانوں کے خلاف بھرے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے خلاف کاروائیوں کے لیے بھارت بہترین اڈا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس اڈے کو استعمال کریں اور اپنی خفیہ منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان پر کاری ضرب لگائیں اور اسے کچل دیں۔ ” یہ مضمون لندن کے جیوش کرانیکل میں اگست 1967 میں شائع ہوا تھا۔ریاست اسرائیل کا قومی ترانہ پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ آج کے ترقی یافتہ دور کے کسی مہذب ملک کا ترانہ ہے یا کسی دہشت گرد گروہ کا حلف نامہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے۔ چونکہ پاکستان اپنے نظریہ ریاست سے لڑکھڑا گیا ہوا ہے، اس لیے ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دیوالیہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہے۔ معاشرتی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ مہلک ترین معاشرتی جرم قانون شکنی ہے۔ قانون سازوں کو ہم پسند کریں یا نفرت، وہ الگ بات ہے، عظیم فلسفی محقق، مؤرخ، مفکر، اور سائنسدان، برٹرینڈ رسل لکھتا ہے کہ ہمیں قانون کی اطاعت کرنا سیکھنا ہو گا۔یہاں تک کے ان لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کی بھی پاسداری کرنا ہو گی جن کے بارے ہمارا یہ یقین ہے کہ وہ سچائی یا انصاف کے تقاضوں کے بارے میں بالکل اندھے ہیں۔



جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ سائنسی دریافتوں نے دنیا بھر میں انسانی زندگی میں بڑا انقلاب برپا کر دیا ہے۔آج انسان کو جسمانی راحتوں کا سامان، نئی نئی تفریحی کھیل، سفری سہولیات تیزترین مواصلاتی رابطے وغیرہ وغیرہ ناقابلِ یقین حالتوں میں میسر ہیں۔ معاشرتی زندگی آسان ترین ہوگئی ہے۔
مسرور انسان یہ حقیقت مگر نظر انداز کر رہا ہے کہ انہیں قابل فخر سائینسی دریافتوں اور ایجادات میں اجتماعی موت مارنے والا ہتھیار بھی شامل ہے۔ جن ملکوں کے پاس ہتھیار، ایٹم بم موجود ہے وہ خوشی اور رعونت کے خمار میں، اس خبیث ایجاد کے تلف کرنے کی تجویز یا مشورے کے بارے بات کرنے تک کے روادار نہیں۔ جواب دیتے ہیں۔ Over our dead body.
بہر کیف ہمارے دلوں میں پنپنے والے حسد بغض، تعصب اور انتقامی جذبات، وہ انفرادی ہوں یا ملکی سطح پر انہیں ہمیں بدل کر محبت اور اخوت میں تبدیل کرنے کی اشد ضرور ت ہے۔ اگر نسل انسانی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنے اپ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے سوچنے اور محسوس کرنے اور رویوں کے طرز عمل میں شدید تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ۔ہم ایسی باتیں کبھی کبھی نہ کہا کریں۔”، ھرگز نہیں، بے عزتی سے موت بہتر ہے، وغیرہ وغیرہ” نسل انسانی کو زندہ رہنا ہے تو اپنے بندوبست پر جینا ہوگا وگرنہ اپنے ہاتھوں سے بنائے آلے کے ہاتھوں ہی سے فنا ہونا ھوگا۔
یہ سارا معلوماتی تذکرہ مغربی فلسفیوں کی تحقیق پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لیے بنائے ہوئے نظام کے تحفظ اس کے میعار اور بندوبست کو کوئی نہیں جانتا۔
واللہ اعلم باالصواب
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں

شہزاد منیر احمد