شہزاد منیر احمد
علامہ محمد اقبال کا تاریخ اسلام کے کرداروں میں موجود حرارت ایمان کا مشاہدے سے ماخوذ شعر ہے
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا
لاہور میں شاہ عالم مارکیٹ کے قریب چوک میں ایک چھوٹی سی مسجد پر مسلمانوں اور ہندوؤں میںجھگڑاتھا۔ 1917 میں مسلمانوں نے راتوں رات وہاں مسجد بنا دی تھی۔ (مسجد گوہد پور اسکول) علامہ محمد اقبال کا مذکورہ بالا شعر میں اسی مسجد کی تعمیر کا اشارہ ہے۔ حرارت ایمان کی ہو، نمود کردار کی ہو یا حصول محبوب کی، بندے کو بڑی متحرک اور بے قرار کر دیتی ہے۔ یہ بے قراری وہ طوفان ہے جو صاحب کردار لوگوں کے دل دریاؤں میں اضطراب پیدا کر کے زندگی سے آگاہ کر کے رکھتا ہے۔ ریاست پاکستان کا وجود بھی ایسی ہی حرارت ایمان کے طوفانوں کا فیض ہے۔ ہندوستان صدیوں کی غلامی بشکل محکومی کا شکار رہا۔ ہندوستان کے مسلمان بھی بد بختی کی شکار غیر اسلامی قوموں کے ساتھ تقدیر کے جبر و ستم برداشت کرتے رہے۔ اقوام غیر تو اس لیے بھی مطمئن اور خاموشی تھیں کہ وہ اپنے عقیدت و مذہب کی رسوم و رواج میں آزاد تھیں۔مسلمان البتہ مطمئن ہونا تو درکنار مسلسل بیزار اور بے قرار تھے کہ انہیں فلسفہ لا الہ الااللہ سے دور رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
ہندوستان چونکہ ایک خوشحال خطہ سرزمین تھا، جو انگریزوں کے غاصبانہ قبضے سے پہلے دنیا بھر کی 27 فیصد پیداوار میں 17 فیصد پیداوار اس بر صغیر میں ہوتی تھی۔ہندوستان کی اس معاشی ترقی کے زمانے میں ولندیزیوں، ہالینڈ، فراس اور برطانیہ نے تجارت کی غرض سے ہندوستان میں اپنی رسائی کے لیے بڑے جتن کئے مگر ناکام رہے۔ اخر کار برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکار کلرک کلائیو کی قیادت میں ہندوستان میں تجارتی رعایتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ کلرک کلائیو بعد میں ہندوستان سے بے پناہ دولت سمیٹ کر لارڈ کلائیو بنا۔ بدقسمت کلائیو جب واپس برطانیہ بلوایا گیا تو اس پر بد عنوانیوں کے مقدمات بنے۔ دوران قید اپنا گلا کاٹ کر خودکشی کر کے مرگیا۔

انگریزی راج میں، طرح طرح کی بے ضرورت اور نامناسب اصلاحات کر کے مقامی باشندوں کی آزادی مفلوج اور زندگی ناگفتہ بہ کر دی گئی تھی۔ اس جبر و ستم میں آزادی کی خواہش جوان ہو کر سامنے آ گئی۔ ہندوستان کی ساری اقوام وطن کی آزادی کی خاطر یکجا یک زبان ہو کر جد وجہد آزادی تیز کرتے چلتی گئی۔ جن میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں اپنے الگ الگ بینرز کے نیچے جنگ آزادی میں ہم قدم تھے۔ جد وجہد آزادی نے قوت پکڑی تو 1857 میں انگریزوں کے خلاف مشترکہ بغاوت ہو گئی۔ برطانیہ میں تھرتھلی اور برٹش انڈیا ہل کر رہ گیا۔ دونوں اطراف، انگریزوں اور مقامی ہندوستانی شہریوں کے بے شمار لوگ مارے گئے لیکن برطانوی حکومت نے اس ” جنگ آزادی”، جسے انگریز MUTINY کہتے تھے پر قابو پا لیا۔ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کا تذکرہ ہوگا تو پھر اس کے ہندوستان سے واپس لوٹنے کی عبرت انگیز رسوائی ضرور زیر بحث آئے گی۔ انگریز کو انہی محکوم لوگوں کی شرائط پر ہندوستان کو تقسیم کرنا پڑا جنہیں وہ رعونت سے مسترد کرتے رہے تھے۔ یا درہے کہ علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد، دسمبر 1930 کی میڈیا رپورٹ پڑھ کر برطانوی کنزرویٹو سیاست دان اور وائسرائے ہند جو لارڈ ارون کے نام سے مشہور تھا نے رد عمل میں کہا تھا۔
‘ ”NEXT TO IMPOSSIBLE PROPOSAL’۔ آزادی کی 1857 والی بغاوتی کوشش تھی تو ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ جد وجہد کا نتیجہ۔مگر ہندوئوں نے بڑی چالاکی سے انگریزوں کو قائل کیا کہ یہ سب کیا دھرا مسلمانوں کی انتقامی کارروائی تھی۔ کیونکہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکمرانی اور تخت دہلی۔مسلمانوں سے چھینا تھا۔ مسلمان اسے واپس لینا چاہتے ہیں۔ محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں مغربی اداروں سے تعلیم یافتہ شخصیت تھیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وہ مغربی تہذیب و تمدن سے اچھی طرح واقف تھے۔ ہندوستان واپسی پر انگریزوں کے راج کے خلاف وہ بھی آل انڈیا کانگریس کی طرح آزادی کی مشترکہ کوششوں میں پیش پیش تھے۔دونوں ہندوستان کو اپنا پیارا وطن کہتے تھے۔۔ محمد علی جناح نے آل انڈیا کانگریس کے ساتھ مل کر ان کے پلیٹ فارم سے ہندوستان میں اپنی عملی سیاسی زندگی کا اغاز کیا۔ جب کہ علامہ محمد اقبال نے وطن کی محبت پہ نظمیں لکھیں۔
علّامہ اقبال کی مندرجہ ذیل نظم کے یہ اشعار ان کی ہندوستان سے بحیثیت شہری حب الوطنی کی زندہ مثال ہیں۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستان ہمارا
اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تجھکو
اترا تیرے کنارے، جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
میں اس موضوع پر مزید تفصیلات کا تذکرہ یہیں روکتا ہوں اور اپنی آج کی بات کی طرف پلٹتا ہوں۔
پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا، انسانی کوششوں کے اعتبار سے کوئی عام کارنامہ نہیں ہے اور نہ اسے آسان بات کہی جا سکتی۔ اس کے لیے بے پناہ، غور و خوض، تدبر، ملکی غیر ملکی سفر اہل علم و دانش سے مشاورت، سیاسی سماجی اور دینی مذاکرات، جلسے جلوس قید و بند کی صعوبتیں، سیاسی جھگڑے، جان و مال کی قربانیاں اور میل۔ملاپ کئے گئے دکھ جھیلے گئے۔ لیکن میرے مطابق اس میں اللہ تعالیٰ خالق و مالک کائنات کے نظام کے تابع عمل میں آیا۔ مثلاً۔ اللہ الرحمٰن کا فرمان ہے کہ یہ دن ہم امتوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ سورت آل عمران آیت نمبر 140.
دوسرا، اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں وہی ملے گا جس کی کوشش کرو گے۔سورت النجم آیت نمبر 39.
مذکورہ بالا احکامات الہیہ کی روشنی میں نزولِ اسلام کے بعد مسلمان رسول اللہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت کے تابع، پھر خلفاء راشدین کی قیادت بعد میں تابعین و تبع تابعین کی راہنمائی میں اللہ کی رضا و خوشنودی اور اللہ کے دین کے فروغ کے لیے جیتے اور جہاد کرتے رہے۔ اللہ ان سے خوش ہوا۔ بے شک مسلمان کشور کشائی کے لیے جہاد نہیں کرتا مگر اللہ نے مسلمانوں کو دنیا کے اکثریتی علاقوں پر حکمرانی عطا فرمائی کہ۔وہ نظام عدل وانصاف قائم کریں۔ پھر اللہ نے زمانے کے دن بدلے اور حکمرانی ان لوگوں میں چلی گئی جو اللہ کو وحدہ لاشریک مانتے تھے نہ دین اللہ کو ہی دین حق مانتے تھے اور مخلوق خدا پر ظالم اور نہ انصافی کے پہاڑ توڑتے۔ اس سے بڑھ کر سفاکیت کیا ہو گی کہ مسلمان اپنے کئی دیہات میں اذان دے کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ ان حالات کی نشان دہی علامہ نے یہ کہہ کر کی تھی۔
ملا کو جو ہند میں ہے سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتاہے کہ اسلام ہے آزاد
زوال کے اس زمانے میں ہندوستان کے مظلوم و محکوم مسلمانوں کی حالت زار پر اللہ کریم کو رحم آ یا۔اور ان کی مدد کے لئے انہی میں سے اپنے بندوں، علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کو منتخب کر لیا کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ اللہ جزائے خیر دے گا۔ ان دونوں برگزیدہ بندوں نے بسم اللہ پڑھ کر اللہ کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا عہد کیا۔ تحریک آزادی پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ اور پھر لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ پھر ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک تک اللہ والوں کے اور ان کی تحریک آزادی پاکستان کے نعرے ہونے لگے۔
پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الااللہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ
میری دانست میں ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود میں آنا اللہ کی رضا ہے۔
1۔۔ اللہ کو بر صغیر کے مسلمانوں کی محکومی، غلامی پسماندگی، بے توقیری اور حالتِ زار پر رحم آگیا تو ان کے دن بدل دئیے۔
2۔۔. ہندوستان کے مسلمانوں کو نور ھدایت سے حریت کا راستہ دکھایا۔
3۔۔. ہندوستان کے مسلمانوں کو ہدایت، ہمت اور توفیق بخشی کہ وہ اللہ پر بھروسہ کریں اور جہادی راستے اختیار کریں۔
4۔۔اللہ ہرچیز پر قادر ہے،اس نے مخلص بندوں علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کو ان کی راہنمائی سونپی۔
5۔۔اللہ، مالک ارض و سماء نے اپنی دنیا کا بہترین خطہ جس میں چاروں موسم کا نظارہ اور فوائد ہیں، ہر طرح کی زمین پہاڑ میدان صحرا سمندر، مواصلاتی اور معدنیاتی وسائل موجود ہیں اس پر مسلم ریاست قائم کی۔۔یہاں رک کر ذرا یہ سوال ضرور پوچھیں”، پھر کیا ہوا،”
اس کا جواب حکیم الامت، حضرت، علامہ محمد اقبال کے الہام میں موجود ہے۔ جب انہوں نے لکھا”
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
اللہ کل شئی قدیر نے تو اپنے بندوں کو آزادی کی نعمت آزاد پاکستان عطاء کر کے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن اللہ کے بندوں کو اللہ کا شکر کرنے کا سلیقہ بھول گیا تو وہ اپنے مرکز سے بھی دور ہو گئے۔ وہ زمینی زندگی کی رغبتوں میں کھو کر اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر پر قائم نہ رہے۔ اپنا اتحاد و اتفاق کھو کر بے توقیری کی ڈھلوان سے ایسے پھسلے کہ انہیں ڈدوبتے کو تنکے کا سہارا بھی میسر نہ اآیا۔
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی سیاسی اور نظریاتی کوششوں سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی بھرپور معاونت سے 1947 میں معرضِ وجود میں تو آگیا تھا۔ تحریک پاکستان کے مجاہدوں کو تو پتہ تھا کہ وہ ہندوستان میں انگریزوں کی محکومی سے آزادی کا مطالبہ کیوں کر رہے تھے۔مگر پاکستان بن جانے کے بعد بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کی فوتگی اور بعد میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد آزادی کے روشن ستاروں کو بجھا دیا گیا۔ ہدایت، خلوص اور جرأت کی وہ شمعیں بجھاکر خاک کی طرح ہوا میں اڑا دی گئیں۔ غیور روحوں کو غائب کر دیا گیا۔اور وہ سسکیوں،آہوں میں ڈوب کر افسردہ تنہائی سے صرف یہ کہتے رہے۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جو محبان پاکستان بچ گئے ان کی زبانیں قائدین تحریک آزادی کے آستینوں کے سانپوں(بقول قائد اعظم کھوٹے سکوں) نے بند کر دیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریہ پاکستان جد و جہد کی طشتری میں سجا سجایا ہی رہ گیا۔ ۔ جو حکمران بنے وہ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے ایجنڈے پر چل پڑے۔ کسی کو اقتدار، کسی کو بڑے عہدوں کی تمنا، کسی کو زرعی اراضی کی الاٹمنٹ اور کسی کو سرکاری ٹھیکوں کی فکر نے ملک، ملک کا مفاد، ملک کا روشن مستقبل سب ذمہ داریوں سے بے نیاز کر دیا۔ میاں افتخار الدین کو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود وزیر بحالیات مقرر کیا جنہیں ان لوگوں نے صرف چالیس دن بعد سبکدوش کر دیا۔ کیونکہ وہ تھوڑے ہی دنوں میں اس وقت کے مقتدر حلقوں کی چھینا جھپٹی سے آگاہ ہو گئے تھے۔۔وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ دوسرا وہ متروکہ املاک اور سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کے قوانین و ضوابط طے کرنا چاہتے تھے تاکہ اس قومی ملکیت و اثاثوں کو حکمرانوں کی بندر بانٹ سے محفوظ کر لیا جائے۔ یہ نظریاتی اقدامات ظالم جاگیرداروں اور بیوریوکریسی کو قبول نہ تھے۔ ظاہرہے جب غلامی دل و دماغ میں بیٹھ جائے تو انسان عزت نفس سے محروم ہو کر، اپنی اہمیت اور طاقت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔
لہٰذا نوجوانوں اور نئی نسل تک نظریہ پاکستان اپنے اصلی معنی و مفہوم و مقاصد میں نہ پہنچ پایا۔ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الااللہ کی چوسنی دے کر نئی نسل کو مطمئن کر دیا گیا کہ ہم ایک آزاد مسلم ریاست ہیں۔ ثبوت ان کے سامنے صرف یہ پیش کیا گیا کہ ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا گیا۔ یہ پابندی بھی قرارداد مقاصد پاکستان میں لگا لی گئی کہ پاکستان میں کوئی قانون بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکے گا۔ مگر زمینی حقائق اس کے بالکل الٹ رہے۔ نہ تو قانون سازی کے عمل کو قرآنی معیار پر رکھا گیا اور نہ ہی عمل داری میں کہیں اسلامی جمہوریہ دکھائی دیا۔نظام عدل وانصاف بھی شفاف نہ رہا۔ حقیقت میں جو اسلامی اقدار، اسلامی ثقافت، اسلامی۔معاشرت کی بھد پاکستان میں اڑائی گئی، وہ دیکھ کر دکھ ہی ہوا۔ یہ واقعاتی زمینی حقائق ہیں جنکو اگر مگر
چونکہ چنانچہ کہہ کر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں

شہزاد منیر احمد