
عروج آزاد
سنا ہے اب سے بھی اس کا ارزاں خون ہے یارو
وہ اک بستی ہے دنیا میں جسے کشمیر کہتے ہیں
مسئلہ کشمیر پوری دنیا کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے،لیکن برصغیر پاک و ہند کے لیے یہ مسئلہ ایک اہم وجہ نزاع اور کشمیری مسلمانوں کے لیے مصائب وآلام کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ ایک طرف بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، تو دوسری طرف پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے۔اس مسئلہ کا ایک فریق بھارت ہے اور دوسرے پاکستان اور کشمیری۔لیکن کشمیریوں کے لیے 75 سالوں کے بعد بھی کچھ نہ کیا گیا اور جیسے شروع کے دنوں میں مظالم ڈھائے جاتے تھے کشمیر پر موجودہ حالات میں اس سے دس گنا بڑھا ہے۔ لوگ دینی و دنیاوی دونوں طرح کے حقوق سے محروم ہیں۔ماوں کے جوان بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے شہید کیے جارہے ہیں۔جوان عورتوں کو بیوہ کیا جا رہا ہے۔معصوم بچوں کو یتیم کیا جارہا ہے۔ معصوم بچے ڈر کے مارے راتوں کو سوتے نہیں ہیں اور اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں کہ کب یہ ظلم ختم ہو گا اور بابا واپس آئیں گے، کیا ان درندوں نے ہمارے بابا کو مار دیا ہے؟یہ وہ سوال ہیں جو چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ماؤں سے کرتے ہیں اور مائیں جواب دینے کی بجائے کہتیں ہیں کہ بیٹا حوصلہ رکھو۔ویسے یہ تاریخ نے پہلے ہی یہ ثابت کیا ہے اور اب بھی ثابت ہوگا کہ جس وحشیانہ اور خوفناک ماحول میں ان بچوں کی پرورش ہوتی ہے وہ ایک دن سینہ تان کر بندوق کے آگے ڈٹے جانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
سوچاہے کفیل اب کچھ بھی ہو ہر حال میں اپنا حق لیں گے
عزت سے جیے تو جی لیں گے یا جام شہادت پی لیں گے
ظلم کی ایسی انتہا ہے کہ کسی کو شہید بھی کیا جاتا ہے تو اس کو تشدد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آ ے دن کوئی نہ کوئی لاپتہ ہو تا ہے اور کچھ وقت گزرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ شہید کردیے گئے۔حتی کہ ان کی لاشیں تک نہیں ملتی۔مائیں اپنے بچوں کا انتظار کرتے کرتے سپرد خاک ہو جاتی ہیں۔یوں مشکل سے پال پوس کر اپنے لالوں کی لاشیں کچھ ماؤں کو ملتی ہیں تو وہ ان کو اپنی چادر میں چھپا لیتی ہیں اور امید رکھتی ہیں کہ شاید آنے والا سورج خوشی کی نوید دے۔
مسجدیں ویران ہو رہی ہیں،گھر سنساں ہورہے ہیں۔ روزانہ جنازے اٹھتے ہیں،ماوں،بہنوں اور بیٹیوں کی آنکھیں خشک نہیں ہورہی۔غیرت کو للکارکر کشمیریوں کے نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے۔بے روزگاری ہے،مزدور تو مزدور کشمیر کا پڑھا لکھا نوجوان بھی حالات کی چکی میں پسا جا رہا ہے اس کا اعتماد چکنا چور کیا جا رہا ہے۔اسکی صلاحتیوں کو زنگ لگایا جا رہا ہے اور اس کی تمام تعمیری قوتوں کو گھن لگ جاتی ہے۔

سکولز،کالجز میں طالبعلموں پر تشدد کیا جاتا ہے،نوجواں نسل کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔والدین بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے لخت جگر کو پڑھاتے ہیں اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں،اپنی اولاد کے لیے سہانے سپنے دیکھتے ہیں لیکن ان کے یہ سارے سپنے بیروزگاری کے اژدھے کی خوراک بنے جارہے ہیں۔کشمیر میں ظلم وجبر کے خلاف احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں،جو آواز اٹھاتا ہے اس کی آواز کو دبا دیا جاتاہے اور اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں برسنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک تو انتہائی بے دردی سے بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور پھر ویڈیو بنا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح ہم کشمیریوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔جہاں یہ ویڈیوز دیکھنے پر پوری دنیا کی آنکھیں نم ہورہی ہیں وہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ بے حس، بے ضمیر اقوام متحدہ اور مسلم دنیا نے بھی کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سرعام کی جاتی رہی ہے اور کی جا رہی ہے لیکن مودی فاشسٹ کے دور حکومت میں دنیا اس کے مظالم کو لائیو دیکھ رہی ہے اور شاید لطف اندوز ہورہی ہے۔کشمیری مدد کی نگاہ سے برستی آنکھوں کے ساتھ پاکستان اور اقوام متحدہ کی طرف متوجہ ہیں۔ گزشتہ تین سالوں سے کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی چھینی جارہی ہے۔ غیر ریاستیوں کو کشمیر میں لا کر آباد کیا جارہا ہے اور بندوق کی نوک پر مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔اس لاک ڈاؤن کا مقصد کشمیریوں کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ آزادی کے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن جن لوگوں نے پوری زندگی ظلم کے زیرِ اثر گزاری اور اپنے ہزاروں پیاروں کو آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا ہے وہ اتنی آسانی سے ان کے ناپاک ارادوں میں آجائیں گے ممکن نہیں۔انکھیں برس رہی ہیں،دل لرز رہے ہیں مگر آزادی کی پکار لب سے جاتی نہیں ہے۔میڈیا کو سچ لکھنے اور دکھانے کی اجازت نہیں۔
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے
حال ہی میں جو کچھ قائد سید علی گیلانی کے ساتھ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔کشمیر میں اللہ سے لو لگا کر سارے دعا گو رہتے ہیں کہ ہم نہ دیکھ سکے آزادی کی فضا تو ہمارے بچے ضرور دیکھیں۔کیا کوئی ہے جو ان کی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور کہے اب نہیں۔۔ بس یہ آزمائشیں ختم اور مزید آنسو آپ کو بہانے کی اجازت نہیں ہے۔ اب آپ لوگ آزادی سے رہیں گے،ایک ایسے خطے میں جہاں آپ کے ہر حقوق وفرائض کا خیال رکھا جائے گا۔جہاں آپ اپنے بچوں کو کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے باہر بھیج سکیں۔جہاں کوئی خوف نہ ہوگا۔جہاں کسی ماں کے بیٹے کو ناحق قتل نہیں کیا جاے گا۔جہاں والدین اپنی اولاد سے محروم نہیں ہوں گے۔جہاں حق بات تسلیم کی جائے گی۔جہاں حکومت آپ کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے گی۔ جہاں کسی کی عزت وآبرو نیلام نہیں ہو گی۔جہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔
آج 75 سال گزر گئے۔کشمیر ہمارا منتظر رہا۔کبھی ہم نے نعرے مار دیے تو کبھی ترانے سنا دئیے۔نظموں،ترانوں،نغموں اور نعروں کے سوا ہم نے کشمیر کو دیا ہی کیا ہے؟
آسمان پر بھی لہو زمین پر بھی لہو
آہ! کشمیر کی رخسارِ حسیں پر بھی لہو
آج عورتوں،بچوں، بزرگوں سب کے پاس ایک اللہ کا سہارا اوران کے جوان شہیدوں کی تصویریں ہیں،جن کو دیکھ دیکھ کر وہ ہر روز لہوکے آنسو روتے ہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مظلوم ومحکوم کشمیریوں کی صدائیں اور بہتے آنسوں کا ثمر آزادی کی صورت میں دے۔۔ آمین یارب العالمین
٭٭٭