
سیف اللہ خالد
جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے
جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ لیلتہ القدر میں قیام کیا اس کے گناہ بھی معاف کر دئیے جائیں گے
صیام کے دنوں میں جہاں انسان اپنے آپ کو حلال سے بھی روکے رکھتا ہے دراصل باقی مہینوں میں حرام سے دور رہنے کی مشق ہے
ٰاے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے ۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی ۔رمضان المبارک کے روزے ہمارے اوپر فرض کئے گئے اسی طرح جس طرح پہلی امتوں پر فرض تھے اگر چہ نوعیت مختلف تھی۔تمام مہینے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں لیکن رمضان المبارک کے مہینے کی فضیلت کچھ الگ ہے۔ یہ با برکت مہینہ جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ وہ کتاب جو انسانیت کے لیے مکمل ہدایت کی کتاب ہے۔وہ قرآن جس کے متعلق اللہ کے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو عروج بخشا اور بہتوں کو تباہ کیا۔ ماہ رمضان المبارک وہ مہینہ جس میں نیکیوں کا صلہ اللہ تعالیٰ جتنا چا ہتا ہے اتناگُنابڑھا تاہے۔ جسکی وجہ سے اسکو نیکیوں کا موسم بہار بھی کہتے ہیں۔

روزہ اور قرآن کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن اللہ تعالیٰ کے دربار میں مسلمان کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا کہ میری وجہ سے یہ بندہ کھانے پینے سے رُکے رہا۔لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کی جائے۔اسی طرح قرآن بھی عرض کرے گا کہ میری وجہ سے یہ بندہ نیند سے رُکے رہا۔لہٰذااس کے حق میں میری سفارش قبول کی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ صیام میں قیام الیل کیا اس کے گناہ بھی معاف کر دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ لیلتہ القدر میں قیام کیا اس کے گناہ بھی معاف کر دئیے جائیں گے۔
دنیا میں مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کے دین پر عمل کرنا اور اس سے دنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی
انسان کبھی اس حد تک مبالغہ سے کام لیتا ہے کہ وہ کھانے پینے اور خواہشات کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اصل مقصد سے غافل ہو جاتا ہے اس کے لئے وہ ہر جائز و ناجائز حلال و حرام کی تمیز ختم کر دیتا ہے۔ شکم پروری کے علاوہ اس سے کسی بات کا احساس ہی نہیں رہتا ہے جو شخص اس طرح شکم پروری کو اپنی عادت بنا لیتا ہے۔اس کی روحانیت اس کی خواہشات میں دب کر رہ جاتی ہے اور وہ مکمل طور پر اپنے نفس اور شکم کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے ۔
مصارف زندگی میں جو بھی مجاہدہ کرتا ہے وہی اپنے اصولوں پر قائم رہ کر اپنی آزادی کوبرقرار رکھتا ہے اور کسی ایسے طریقے سے اپنی شکم پروری اور خواہشات کا سامان نہیں کرتا جس سے اس کی عزت و آبرو پر کوئی حرف آئے۔
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!

روزہ خواہش نفس اور شکم پروری کے بت کو مسمار کر کے تقویٰ اور برداشت کو پروان چڑھاتا ہے۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے گھروں سے دور دراز ملکوں کو نکلے کئی کئی دن فاقوں سے گزارتے لیکن کبھی بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے تھے۔کیوں کہ ماہ رمضان کے روزوں سے تربیت پا کروہ کندن بن چکے تھے۔ فرض روزوں کے علاوہ کثرت سے نفلی روزوں کا اہتمام بھی کرتے تھے اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور فاقوں کی نوبت آجاتی تو بڑی خوشی سے برداشت کر لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ جو کہ انسان کے لئے 70 گُناماں سے زیادہ پیار رکھتا ہے، مسلمان کے اس فاقہ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔دراصل انسان جس کودوسری مخلوق کی طرح کھانے پینے کی ضرورت ہے اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی ضروریات تقویٰ کو بنیادبناکر حاصل کرے۔
تقویٰ اللہ کی نا فرمانی سے بچنے کو کہتے ہیں۔یا یوں کہیں کہ ضبط نفس کو تقویٰ کہتے ہیں۔تقویٰ ہی وہ صفت ہے جس کی بنیاد پر انسان حلال وحرام جائز و ناجائز صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتا ہے۔اسی صفت سے متصف کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے امت پر فرض کئے۔صیام کے دنوں میں جہاں انسان اپنے آپ کو حلال سے بھی روکے رکھتا ہے دراصل باقی مہینوں میں حرام سے دور رہنے کی مشق ہے۔یہاں پر ایک خاص بات ذہن میں بٹھائیں کہ اللہ کو اصل میں وہ کردار مطلوب ہے جس کی ذکر قرآن میں اشرف المخلوقات کے طور پر ہوئی ہے۔اس اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ انسان کو عبادات کے مختلف مراحل سے گزار کر سونے کی طرح کندن بنانا چاہتے ہیں۔یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ مختلف عبادات اصل میں انسان کو ایک بڑے مقصد کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اور وہ مقصد دین اسلام کی سربلندی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں 3 مقامات پر ذکر فرماتے ہیں۔
ہُوَ لَّذِیٓ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِلْہُدَیٰ وَدِینِ لْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی لدِّینِ کُلِّہِ
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے۔
جس طرح ایک انسان بہترین تربیت پا کر ایک دلیر اور نڈر فوجی بن سکتا ہے تب جا کر وہ اپنے ملک اور وطن کی حفاظت کر سکتا ہے۔اسی طرح جب ایک مسلمان کی تربیت قرآن و سنت کی روشنی میں ہو۔اور عبادات کی اصل روح اس کے اندر موجزن ہو تو پھر کہیں جا کر یہ اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری کو سنبھال سکتا ہے۔ میرے ساتھیو رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات والا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ امت کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ کاش کہ امت اس کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو کر اپنے آپ کو تقوی ٰکی صفت سے متصف اور پرہیزگاری و خوف خدا سے مزئین کرتی تو آج امت کی ایسی ابتر حالت نہیں ہوتی۔ ہماری عظمت رفتہ کب کی بحال ہوچکی ہوتی اور ہم دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہوئے ہوتے۔ پوری دنیا ہماری پیروی میں ہمارے پیچھے پیچھے چل رہی ہوتی۔
لیکن کیا کہیں۔
بقول ڈاکٹر علامہ اقبال
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

آئیں رمضان المبارک کے فیوض و برکات کو سمیٹنے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ اپنے مجبور اور مقہور، بے بس اور بے کس مظلوم قوم اور ملت کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی کوشش کریں گے۔جہاں ہم اپنی ذاتی نجات اور کامیابی کے لیے دعا کریں گے۔ وہاں فلسطین، شام، مصر،عراق کشمیر، برما، غرض دنیا کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو بھی اپنے دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ماہ صیام کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھنے کی توفیق نصیب فر مائے۔آمین۔
٭٭٭
رمضان المبارک۔۔۔نیکیوں کا موسم بہار