
شیخ محمد امین
حزب کمانڈر بر ہان مظفر وانی19 ستمبر1994ء کو ڈاڈہ سرہ ترال مقبوضہ کشمیرمیں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمد مظفر وانی ایک ماہر تعلیم ہیں اور سرکاری ہائر سیکنڈری میں پرنسپل کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ان کی والدہ پوسٹ گریجویٹ ہیں اور اور ان کے دادا جی ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ کے عہدے پر فائض رہے ہیں۔پورے علا قے میں اس خاندان کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔لیکن کیا کریں،یہ ضرب المثل کہ غلا موں کی کوئی عزت نہیں ہوتی کے مصداق،بھارتی فورسز کی نظروں میں جو سلوک عام لوگوں کے ساتھ روا رکھا جاتا رہا ،اس علمی اور با اثر خاندان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا رہا۔نعیم اور عادل نامی ان کے دو قریبی رشتہ دار 90کی دہائی میں ہی بھارتی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید کئے گئے۔خا نہ تلا شیوں کی آڑ میں، اس گھر اور اس خاندان کے باسیوں کا عزت نفس اسی طرح مجروح ہوتا رہا جس طرح ڈاڈہ سرہ کی بستی کے اور لوگوں کا ہوتا رہا۔ صبر اور عزیمت کا پہا ڑ بن کے یہ خاندان سب کچھ سہتا رہا۔ انہی سنگین اور پر آشوب حالات میں برہان نے جنم لیا،وہ بڑھتا رہا، سکول جاتا رہا لیکن ساتھ ساتھ اپنی قوم اور اپنے خاندان کے ساتھ، بھارتی فورسز اور ریاستی پولیس ٹاسک فورس کا ظالمانہ اور جا برانہ سلوک دیکھتا رہا۔ برہان وانی شاید مزید کچھ وقت کیلئے یہ برداشت کرجاتا،لیکن 2010میں اس نے اپنے سامنے اپنے بھائی کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں پٹتا اور اسے خون میں لت پت بیہوش پڑا دیکھا۔اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بھارت کی غلامی کے خلاف نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا اور اس نے اسی وقت مجاہدین آزادی کی صفوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

شیر کی ایک دن کی زندگی کے تصور نے اسے آزادی کے مد ھر اور سریلے گیتوں سے آشنا کیا۔اس کی عمر اس وقت صرف 15سال کی تھی۔اس کے قریبی دوستوں اور اسا تذہ کا کہنا ہے کہ وہ حزب الجاہدین جموں کشمیر کے نا ئب امیر سیف اللہ خالد سے بہت متا ثر تھے اور دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا راستہ،سیف اللہ کا راستہ۔ واضح رہے کہ حزب نائب امیر سیف اللہ خالد کے اپنے دو بیٹے اور ایک بھائی اس تحریک کی نذر ہوچکے ہیں لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی معمولی لرزش بھی نہ آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ 9/11کی آڑ میں پرویز مشرف نے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے یو ٹرن لیا اور اس کے نتیجے میں بھارتی حوصلوں کو ایک جلا ملی اور مجاہدین کشمیرعملاً کمزور ہوئے۔بھارتی عسکری ماہرین نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ ریاست میں عسکریت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور کشمیری قوم نے بھارت کے ساتھ جینے پر اب سمجھوتہ کیا ہے۔لیکن برہان مظفر وانی کے ریاست کی مقامی تنظیم حزب المجاہدین میں داخلے کے بعد یہ تصور آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔اس شیر دل بچے میں قائدانہ صلاحتیں بد رجہ اتم موجود تھیں۔اس نے پہلے ہی مرحلے پر اپنے لئے کوئی فرضی نام یا کوڑ نام رکھنا،منا سب نہ سمجھا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس ٹاسک فورس کے اہلکاروں سے ہتھیار چھین کر، اسی ہتھیار کو بھارتی فورسز کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر سیکھا۔سوشل میڈیا کیلئے ایک منظم ٹیم تشکیل دی اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے نتیجے میں، بالائی نظم کے حکم پر، قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ سوشل میڈیا پر اس نے پوری کشمیری قوم کو اپنی تنظیم کی طرف متوجہ کیا اور یہ احساس دلایا کہ کسی کے سہارے جینے کے بجائے، اللہ پر توکل کرکے،اس تحریک کو آگے بڑھایا جانا ممکن ہے۔

سینکڑوں جوان حزب کی صفوں میں داخل ہوئے۔کل تک جو عسکریت کے صفایا ہونے کی بات کررہے تھے،ان کو برہان نے جھوٹا ثا بت کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ برہان نہ صرف مجاہدین کشمیر کا لاڈلا قائد بنا، بلکہ کشمیری عوام میں بھی کا فی مقبول ہوا،اتنی مقبولیت شاید 1947ء سے آج کی تاریخ تک کسی کے حصے میں نہیں آئی۔برہان نے حزب المجاہدین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا.حزب ذرائعکے بقول شہادت سے صرف 20دن پہلے اس نے اپنے قائد سید صلاح الدین تک یہ پیغام پہنچا یا تھاکہ کشمیری قوم نہ جھکے گی اور نہ بکے گی۔ ان شاء اللہ یہ ضرور آزاد ہوگی، تاہم اپنے حوالے سے اس نے یہ با ت بھی کہی تھی کہ جتنی صلاحیتیں اللہ نے اسے دی ہیں،نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 9جولائی 2016جمعہ کو انہیں شہادت کا مقام ملا۔ پوری کشمیری قوم اپنے اس جواں سال ہیرو کیلئے گھروں سے باہر نکل آئی۔ لاکھوں لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور ریاست کے چپے چپے پر ہزاروں غائبانہ نماز جنازہ ادا کئے گئے۔ لاکھوں لوگ جن میں بچے، خواتین،بزرگ اور جوان بھارتی فورسز اور بھارتی قبضے کے خلاف مظا ہرے کئے۔ سو سے زائد لوگ شہید ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں بچے بزرگ،جوان زخمی ہوئے۔ایک برہان کی شہادت ہزاروں برہانوں کو جنم دے چکی ہے اور بھارتی پالیسی سازوں کو اب شا ید نو شتہ دیوار پڑھنی چا ئیے تھی لیکن کیا صحیح اور سو فیصد درست بات کہی تھی معروف بھارتی انسانی حقوق کے کارکن گوتم نو لکھا نے کہ” بھارتی حکومت خون کی پیاسی ہے۔انہیں کشمیری نہیں،کشمیری زمین چا ہئیے۔اگراسی فلا سفی پر عمل ہوتا رہا تو یقینا آنے والے دن مذید خوفناک ہونگے “۔۔۔گوتم نو لکھا کی بات حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔۔ظلم بڑھتا گیا اور آئے روز اس میں شدت آرہی ہے لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ظلم ظلم ہے،بڑھ جاتا ہے تو مٹ جا تا ہے۔برہان کی شہادت اس ظلم کے خاتمے کی پہلی کڑی تھی۔۔۔۔
٭٭٭