وصیت یا مسلم دنیا کے خلاف ایف آئی آر؟

سیدعارف بہار

غزہ آزاد فلسطین اور آزادی فلسطین کا ایسا آخری چراغ تھا جو دشمن کی سفاکی اور اپنوں کے شوق ِ تماش بینی کے باعث ٹمٹما رہا ہے۔آزاد فلسطین کی یادیں اور لہریں صرف غزہ کی آزاد فضاوں اور اہل غزہ کی آزاد اداؤں میں دکھائی دیتی تھیں۔اسرائیل کی بے رحم ہوائیں اس آخری چراغ کو بجھانے کے در پہ ہیں۔غزہ اگر فلسطین کی آزادی کا استعارہ اور آواز تھا تو الجزیزہ کے صحافی انس الشریف میڈیا کی دنیا میں غزہ کی آخری ڈوبتی اور ڈولتی آواز تھی جو اسرائیل نے خاموش کر دی۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

فیض کا یہ شعر آج صرف فلسطینی صحافیوں پر صادق آتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے اپنے لوگوں کی آواز اور حالت زار بے حس دنیا تک پہنچانے کی کوششوں میں جانیں قربان کر رہے ہیں۔انس الشریف غزہ کے الشفاء ہسپتال کے باہر ایک خیمے میں میڈیا کیمپ لگا ئے بیٹھے تھے۔ہسپتال ایک ایسا مقام ہوتا ہے جہاں جنگ اور ظلم کے زخمی آتے ہیں اور ہر زخمی کے خون آلود لباس کے ساتھ کئی کہانیاں بھی ہوتی ہیں اور اس طرح ایک فرض شناس اور دیانت دار رپورٹر کے لئے ہسپتال سے بہتر خبر حاصل کرنے کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔انس الشریف بھی اسی لئے ہسپتال کے باہر واقعات اور درناک کہانیوں کے انتظار اور استقبال کے لئے موجودتھی۔ایک رپورٹر کی آزاد روی اور آزاد منشی اسرائیل کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہی تھی۔سو گزشتہ اتوار انہوں نے الشفا ہسپتال کے باہر میڈیا کیمپ کو نشانہ بنا کر انس الشریف اور ان کے پانچ ساتھیوں کو شہید کر دیا۔خوبصورت اور ہنس مکھ انس اسرائیل کی نسل کشی کی سفاکانہ پالیسیوں سے دنیا کو آگاہ کرتا تھا۔ویسے دنیا نے اسرائیل کا کیا بگاڑ لینا تھا مگر ظالم کی طاقت کے اندر پنہاں ایک کمزور ی بدنامی کا خوف ہوتا ہے۔اسے ظلم کرنے سے خوف نہیں آتا اس ظلم کی تشہیر اور نشر واشاعت سے خوف آتا ہے۔ظالم ظلم کرنا بھی چاہتا ہے مگر اپنا چہرہ اور ہاتھ خون آلود بھی نہیں کرنا چاہتا۔الجزیزہ عربی کے اٹھائیس سالہ صحافی انس الشریف نے شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا کہ”اسرائیل نے غزہ شہر کے مشرقی اور جنوبی حصوں جنہیں فائر بیلٹس کہا جاتا ہے پر بمباری شروع کر دی ہے۔انس الشریف کی شیئر کی گئی وڈیو میں اسرائیلی میزائلوں کی گونج واضح طور پر سنائی دے رہی ہے جبکہ تاریک آسمان نارنجی روشنی سے منور ہو رہا ہے“۔انس کی شہادت کے بعد رواں برس اپریل میں ان کا شیئر کیا گیا پیغام دوبارہ شیئر کیا گیا۔ یہ ایک جرات مند اور فرض شناس اپنے کام اور وطن سے محبت کرنے والے ایک پروفیشنل صحافی کی وصیت نہیں بلکہ مصلحت کوش کمپرومائزڈ اوربزدل مسلم دنیا کے خلاف ایف آئی آر ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں درج ہو گئی ہے۔صحافی اور قلم کار اس پر عرب کی روایتی فصیح البیانی نے انس الشریف کی اس تحریر کو الفاظ وجذبات کا سیل رواں بنا دیا ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ یہ میرا آخری پیغام اور وصیت ہے۔اگر یہ پیغام تم تک پہنچے تو سمجھو اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اپنی پوری کوشش اور تمام قوت صرف کی تاکہ اپنے لوگوں کی آواز اور ان کا سہارا بن سکوں۔جب سے میں نے جبالیا پناہ گزین کیمپ میں آنکھ کھولی میری امید تھی کہ اللہ میری زندگی کو اتنا طویل کرے کہ میں اپنے عزیزوں اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے اصل قصبے مقبوضہ عسقلان لوٹ سکوں لیکن اللہ کی مرضی مقدم اور اس کا فیصلہ اٹل ہے۔میں نے درد کو اس کی تمام جزئیات کے ساتھ سہا مگرکبھی سچائی کو کسی بگاڑ یا توڑ مروڑ کے بیان کرنے میں ہچکہچاہٹ محسوس نہیں کی تاکہ اللہ ان لوگوں پر گواہ ہو جو خاموش رہے جو ہماری ہلاکت پر راضی رہے جنہوں نے ہماری سانسیں گھونٹ دیں۔جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے لاشے دیکھ کر بھی نہ پگھلے۔جنہوں نے اس قتل عام کو نہ روکاجو ہمارے عوام ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے سہہ رہے ہیں۔انہوں نے مزیدلکھا کہ میں فلسطین کو تمھارے سپرد کرتا ہوں جو مسلم دنیا کا تاج ہے۔دنیا کے ہر آزاد انسان کی دھڑکن ہے۔میں اس کے عوام اور بے گناہ بچوں کوتمھارے سپرد کرتا ہوں جنہیں نہ خواب دیکھنے کا وقت ملانہ ہی امن وسلامتی میں جینے کا۔ان کے معصوم جسم اسرائیل کی بموں اور میزائلوں کے ہزاروں ٹن وزن تلے کچلے گئے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دیواروں پر بکھر گئے۔انس الشریف نے لکھا کہ زنجیریں تمہیں خاموش نہ کر سکیں نہ ہی سرحدیں تمھیں روک سکیں۔زمین اور اس کی آزادی تک تم پل بنویہاں تک کہ عزت اور آزادی کا سورج ہماری چھنے ہوئے وطن پر طلوع ہو۔ انہوں نے لکھا میں تمھارے سپرد کرتا ہوں اپنے پیارے بیٹے صلاح کوجس کا سہارا بننے اور زندگی کے سفر میں ساتھ دینے کی میں نے خواہش کی تھی۔یہاں تک کہ وہ اتنا مضبوط ہوجاتا کہ میرا بوجھ اُٹھاسکے اور میرا مشن آگے بڑھا سکے۔میں تمھارے سپرد کرتا ہوں اپنی پیاری ماں کو جن کی دعاؤں نے مجھے اس مقام تک پہنچایا۔جن کی مناجات میرے لئے قلعہ ثابت ہوئیں۔جن کے نور نے میرے رستے کو روشن کیا۔میں دعا کرتا ہوں اللہ انہیں قوت عطا کرے اور میری طرف سے اچھا بدلہ دے۔

انس الشریف نے اپنی اہلیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی پیاری شریک حیات کو تمھارے سپرد کرتا ہوں جسے جنگ نے طویل مہینوں سے مجھ سے دور کردیا ہے۔پھر بھی وہ ہماری وفادار ہیں زیتون کے درخت کے تنے کی طرح مضبوط جو کبھی جھکتا نہیں۔انس نے لکھا کہ اگر میں مرجاؤں تو اپنے اصول پر ثابت قدم رہتے ہوئے مروں گا۔انہوں نے نصیحت کی کہ غزہ کو مت بھولنا اور مجھے بھی اپنی مخلص دعاؤں میں معافی اور قبولیت کے لئے یاد رکھنا۔رواں برس اپریل میں لکھی ہوئی انس کی یہ وصیت چند ماہ بعد ہی اس وقت منظر عام پر آئی جب انس الشریف اسرائیل کی بمباری میں شہید ہوگئے۔ اسرائیلی میڈیا نے بے رحمی اور شقاوت قلبی کا روایتی مظاہرہ کرتے ہوئے انس کی موت پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے حماس کا رکن بتایا اور تسلیم کیا کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔انس کی شہادت پر قطر اور ترکی کے راہنماؤں نے مذمتی بیان جاری کئے۔قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں صحافیوں کو نشانہ بنانااس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جرائم انسانی تصورسے بڑھ کرہیں۔الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک نے بھی انس الشریف کی شہادت پر اپنا بیان جا ری کیا اورکہا انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا حکم غزہ پر قyبضے او رتسلط کے منصوبے کو بے نقاب کرنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی مایوس کن کوشش ہے۔جب انس الشریف کا میڈیا ٹینٹ چیتھڑو میں ڈھل گیا تھا اور چہار سو دھواں پھیل رہا تھا تو ایک وڈیو پیغام میں انس الشریف کی معصوم بیٹی کی آنسوؤں سے تر آنکھوں کے ساتھ لرزتی آواز گونج رہی تھی ”میں اپنے ابو کے لئے خوف زدہ ہوں براہ کرم ہماری مدد کریں“۔انس الشریف جیسے فرزندان زمین پر زمین اور اس کے باسی ناز کرتے اور تاریخ ان کا تذکرہ اپنے صفحوں میں آبگینوں کی صورت سے بچا اور سجا کر محفوظ کرلیتی ہے۔صحافت کی بیانیہ ساز انسانی مشینوں اور واٹس ایپ کے ریموٹ سے کنٹرول ہونے والے صحافیوں کے جنگل میں انس الشریف کردار وعمل کا ایک مینار اور ایک رول ماڈل ہیں۔