صائم فاروقی
1999ء کی بات ہے ایک خوب رو نوجوان سٹیج پر کھڑا ہوا اور پہلے عربی متن میں نبیﷺ کافرمان جوجہادکے حوالے سے ہی تھاسنایا اورپھر اس کا مفہوم کشمیری زبان میں مدلل انداز میں مجاہدین کے سامنے رکھا،انہوں نے جو زبان سے کہا اس پر من و عن عمل بھی کیااور اپنے خون سے سر زمین کشمیر کو رنگین کرکے اس کی گواہی بھی دی۔اس عظیم مرد مجاہد کا نام منصورالحق المعروف محمد اشرف خان تھا جنہوں نے چوالیس سال قبل ضلع اسلام آباد کے علاقے ٹنگپاوا ککر ناگ کے ایک دینی گھرنے میں جنم لیا۔ان کے والد کا نام غلام محمد خان ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کی پرورش ایک دینی ماحول میں کی۔ سن شعور کو پہنے تو ارد گر دکشمیر میں شہداء کے لہو کی مہک ہر سو پھیل چکی تھی،تبھی تو منصورالحق نے کم سنی میں ہی جہاد کی راہ میں نکلنے کا فیصلہ کردیا اور وہ 1999 میں حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد ایک مقصد کے لئے بیس کیمپ میں تشریف لائے۔ وہ مقصد تھا قابض فوج کے خلاف اپنی عسکری صلاحیت کو پروان چڑھانا۔بیس کیمپ میں وہ مولوی منصور کے نام سے مشہور تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن سیکھنے اور دوسروں کو سیکھانے کا وصف دیا تھا،قرآن کے علوم،احادیث کا علم اور نیز فقہی علوم سے بھی خوب واوقف تھے۔,کیمپ کے اندر زیادہ سے زیادہ وقت قرآن کی تلاوت,اس کا ترجمہ اور تفسیر کو سیکھنے اور سیکھانے میں گزارا۔منصورالحق کی زندگی جہاد سے عبارت تھی۔وہ ہر وقت جہاد کے مسائل وفضائل اور جہاد کی تیاری چاہے وہ علمی وفکری ہو یاجسمانی طور ہو ہرطرح سے وہ میدان کارزار میں جو ایک مجاہ کے لئے ضروری ہے اس کی تلاش میں رہتے تھے اور اسی تیاری میں مگن رہتے تھے۔انتہائی ملنسار اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔جسمانی طور پر سخت جاں اورچست قسم کے نوجوان تھے۔چھ سال کے دوران اپنی تربیت مکمل کی۔جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور جہاد میں آنے والی تکلیفوں اور مشکلات غرض تمام آزمائشوں کو دنیا کی لذتوں پر ترجیح دے چکے تھے ان کے ہمالیہ جیسے عزم کے سامنے سرحد عبور کرنے کے دوران راستے آنے والے بلندوبلا برف سے ڈھکے پہاڑ اور پُر خطر راستے ان کے قدموں کے سامنے رائی کے دانے کی طرح نظر لگنے لگے۔
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحراودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

راستے کی تمام تر مشکلات کے باوجود وہ خونی لکیر روندتے ہوئے وادی پرخار جو جنت تھی جسے نولاکھ بھارتی فوج کے ظلم و بر بریت نے جہنم زار بنادیا ہے میں پہنچ گئے۔ مختلف مراحل سے گزرنے بعد منصور الحق اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ میدانِ کارزار میں بھارتی فوج کے خلاف اپنا ہنر آزمانے کیلئے کود پڑے،اور بھارتی فو ج کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ان کی عسکری صلاحیتوں کو دیکھ کر تنظیم نے انہیں ضلع اسلام آباد کا کمانڈر مقرر کیا۔انہوں نے تمام مشکلات کے باوجود ضلع کمانڈر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو بخوب نبھایا۔بھارتی فوج کو منصورالحق اور ان کے ساتھیوں کے آنے کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی تو فوج نے انہیں گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارنے شروع کردئے۔منصورالحق فوج کوکئی دفعہ چکمہ دینے میں کامیاب ہوئے لیکن مخبروں کی مدد سے ان کو پکڑنے کیلے چھاپہ مار کارروائی کی مہم تیز کی گئی۔2006 میں باالآخر انہیں گرفتار کیا گیا۔چھ سال تک بھارتی فوج نے انہیں انٹروگیشن کے مختلف مراحل سے گذارا ,کافی اذیتیں دی گئیں لیکن بھارتی فوج حزب امجاہدین کے اس سپوت سے کوئی راز نہیں اگلوا سکے۔ نا کامی کے بعد فوج نے انہیں 2013 ء میں رہا کردیا,حزب کے اس جیالے نے تمام تکالیف کے باوجود گھر کی راہ نہ لی بلکہ سیدھا میدان جہاد ک طرف دوبارہ لوٹنے کا فیصلہ کیا اور حزب کے قافلہ سخت جان کا حصہ بنے۔اس عرصے کے دوران شہید برہان مظفر وانی مجاہدین کی کمانڈ کررہے تھے۔شوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر انہوں نے بھارتی فوج کی نیندیں حرام کی تھیں،اس دوران منصورالحق کی بھی چند ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں انہیں مجاہدین کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیتے دیکھا جاسکتا ہے۔اس وجہ وہ ایکپوز بھی ہوئے اور دشمن کو پتہ چل گیا کہ منصورالحق دوبارہ سرگرم ہیں اس لئے انہیں پکڑنے اور شہید کرنے کے لئے علاقے میں چھاپوں کو محاصروں کو بھارتی فوج نے بڑھادیا۔2013 ء سے لے کر 2022 ء تک انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو لوہا منوایا اوربھارتی فوج کے خلاف گوریلا کارروائیوں میں بھر پور حصہ لیا ان کارروائیوں کے دوران بھارتی فوج کو کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا۔بہت سی کارروائیوں کی خود کمانڈ کی۔شہیدکمانڈربرہان مظفروانی، شہیدکمانڈرڈاکٹر سیف اللہ،شہیدکمانڈر ریاض احمد نائیکو،شہید کمانڈریاسین یتوکے ساتھ مل کر کئی کارروائیوں میں حصہ لیا۔منصورالحق علاقے میں سب سے زیادہ میدان کارزار میں دشمن کے خلاف برسرپیکار رہنے والے مجاہد تھے۔بالآخر 6 مئی 2022 ء کا وہ دن تھا جبجموں و کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ، بھارتی فوج کی 3 آر آر اور سی آر پی ایف نے حزب المجاہدین سے وابستہ مجاہدین کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد پہلگام کے سرچن جنگلاتی علاقے کا وسیع پیمانے پر تلاش آپریشن شروع کیا۔ دورانِ آپریشن وہاں پر موجود مجاہدین نے قابض فورسز پر فائرنگ شروع کی، جواب میں قابض فورسز کی فائرنگ کے بعدحق و باطل کا معرکہ پیش آیا جو چھ گھنٹے تک جاری رہا،دونوں طرف سے گولیوں کی گن گرج جاری رہی اس دوران معتدد بھارتی فوجی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ سرچن جنگل میں جنگ کا سماں تھا۔منصورالحق گروپ کمانڈر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کئی سال سے نبھارہے تھے۔چھ گھنٹے تک قابض فورسز کا بے جگری سے مقابلہ کرنے کے بعد حزب المجاہدین کے دیرانہ گروپ کمانڈرمنصورالحق جونو دس سال سے کافی سرگرم تھا اپنے دو ساتھیوں محمد روشن ضمیر تانترے عرف زید بھائی ساکنہ اسورہ بجبہاڑہ اسلام آباد اور محمد رفیق درنگے عرف ابوضرار ساکنہ ہایر بجبہاڑہ اسلام آباد سمیت دادشجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ان کی شہادت یقناََ حزب المجاہدین کے لئے ایک دھچکا ہے لیکن منصورالحق نے جہاد کے شمولیت اختیار کرتے وقت اسلام و آزادی پر اپنی جان قربان کرنے کا جو اپنے رب سے عہد کیاتھا وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنا خون دے کر اس عہد کو نبھایا۔حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین اور حزب فیلڈ آپریشنل چیف ابوعبیدہ نے پریس کے نام جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں کمانڈر اشرف خان المعروف منصور الحق اسلام آباد، محمد روشن ضمیر تانترے عرف زید بھائی ساکنہ اسورہ بجبہاڑہ اسلام آباد اور محمد رفیق درنگے عرف ابوضرار ساکنہ ہایر بجبہاڑہ اسلام آباد کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے رمضان المبارک 6 مئی کو رب العالمین سے کیا ہوا عہد نبھا لیا۔جد و جہد آزادی ہر قیمت پر جاری رہے گی اور اس جد وجہد کے نتیجے میں قابض دشمن ان شااللہ ضرور ناکام ہوگا۔شاعر و صحافی مسرور احمد ڈار نے شہید کو یوں خراج عقیدت پیش کیا”محمداشرف عرف منصور الحق کو نئی زندگی ملی۔یہ میں نہیں اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتے ہیں۔اور وہ یہ بھی کہتے کہ ہم نادانوں کے پاس اتنا شعور ہی نہیں ہے کہ ہم اس حقیقت کا ادراک کر سکیں۔بہت ہی سیدھا سادہ اور معصوم انسان۔۔۔کم پڑھا لکھا لیکن با عمل۔۔۔بالکل اس مرید کی طرح جسکو مرشد نے کہا یہ وظیفہ پڑھا کرو تو دریا پار کرنے کے لئے تمہیں ناؤ کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔منصور نے عشق کا دریا بغیر ناؤ کے پار کرلیا“۔راہ حق کے یہ مسافر وفا کی راہ پر چلے اور اپنے خون جگر سے اپنے گلشن کے برگ گلاب نکھار کر اللہ کی جنتوں کے مہمان بن گئے۔للہ تعالی سے دعا ہے ان تمام شہداء کے درجات بلند کرے اور ان لاکھوں نفوس کی قربانیوں کے طفیل وطن عزیز کو غلامی کے چنگل نے نکال کر آزادی کی نعمت سے نوازے۔

٭٭٭