وہ جانثار چلا گیا

اویس بلال

مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ عسکری جدوجہد ہے، یہ الفاظ ،جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار حزب المجاھدین کے مرد مجاہد کمانڈرامتیاز عالم شہید ؒ ،کے تھے ،جہاد مجاہد کے لئے سمندر ہوتا ہے جس میں وہ مچھلی کی طرح تیرتا پھرتا ہے جنگ ہی اس کی روح ہوتی ہے اور جنگ ہی اس کی خوشبو ۔حزب المجاھدین کے معروف کمانڈر جنہوں نے اس تحریک آزادی کے لیے سب کچھ نچھاور کر دیا ،اپنی جان والد صاحب اور بھائی بھی شہید ہوئے ۔یہی نہیں بلکہ بھارتی سامراج نے ان کے مکان کو خاکستر کردیا ،باغ کو تہس نہس کردیا ۔شہید کمانڈرکئی معرکوں میں زخمی بھی ہوئے ،مگر اپنے مقصد سے آخری دم تک جڑے رہے ، اتنی قربانی دینے کے باوجود وہ اب بھی گھر میں زیادہ قیام نہیں کرتے تھے۔ مجاہد اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہادت کی تلاش میں رہتا ہے۔اسی طرح انہوں نے بھی اپنی روح کو اس کی مرضی پر چھوڑ رکھا تھا ۔اول تووہ مظلوم کشمیری عوام کی نصرت و حمایت اور جنت کے شوق میں اپنا لہو بہا دینا چاہتا تھا جو اس نے 20 فروری 2023کو نماز مغرب کے فوراً بعد ثابت کردیا کہ نامعلوم افراد نے انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا ۔ ڈوڈہ کے کمانڈر ادریس بھائی گویا ہوئے کہ میدان کار زار کے حوالے سے امتیاز عالم صاحب ہم سے مشورہ لیا کرتے تھے ہمارا یہ عظیم مجاہد مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں بڑا فکر مند تھا، ان کے جنازے میں شریک نوجوانوں اور بزرگوں کی آنکھوں کو شہید امتیاز عالم کے غم میں نم دیکھا ہے۔ ہر شخص غم کی تصویر بنا ہوا تھا گویا اس کا کوئی نہایت قریبی دوست ،عزیز اللہ کو پیارا ہو گیا ہو ،شہید موصوف مجاہدین کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاد کے بغیر ہم کشمیر کو فتح نہیں کر سکتے ،عسکری جدوجہد سے ہی ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں ۔کشمیر کی سنگین صورتحال کو ہم سب خوب سمجھتے ہیں کہ مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بیس کیمپ کے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ معذرت خواہانہ رویہ ترک کریں اپنے ازلی دشمن بھارت سامراج کو نکیل ڈالیں ۔کمانڈر امتیاز عالم ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر اس کی یادیں تا حیات مجاہدین کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

اس کی باتیں اسکے جذبے اور کارنامے ہر معرکے میں ہماری راہنمائی کرتی رہیں گے۔ آنکھیںاس کی یاد میں اشک بار، وہ کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا نہیں وہ تو مقبوضہ جموں و کشمیر کا ایک نڈر اور بہادر سپوت تھا ۔ امتیاز عالم نے اپنی عسکری مہارت کے ساتھ قابض بھارتی فوج پر اپنی کارروائیوں کے ذریعے ایسی دھاک بٹھا دی تھی کہ دشمن ان کے نام سے کانپتا تھا۔ آپ اپنے کام میں ماہر تھے۔ غالباً 1992میں ایک معرکے کے دوران آپ زخمی حالت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھارتی فوج کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی ۔وادی کشمیر سے آپکو جموں جیل منتقل کیا گیا ،کشتواڑ کے فاروق دیو اور غلام محمد آہنگر بھی آپ کے ساتھ زیر حراست تھے ۔انٹروگیشن سینٹر میں آپ پر بے انتہا تشدد کیا گیا ،جیل سے بھی میدان کار زار کی سر گرمیوں پر نظر رکھتے تھے اور اپنے مشوروں سے نوازتے تھے۔ بیس کیمپ ہو یا میدان کار زار ساتھیوں کے لئے بہترین دوست تھے ۔ان کے غم بانٹتے اور ان کے کام میں مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔کمانڈر امتیاز عالم دشمن کے لئے فولاد تھے ،اپنوں کے لیے نرم ،،رزم حق وباطل تو فولاد ہے مومن ،دشمن نے شہید امتیاز عالم کوگرفتار یا شہید کرنے کے لئے لاکھوں روپے انعام بھی رکھے تھے۔ یہ ایک ایسا مجاہد تھا جو بھارتی فوج کے لئے خوف کی علامت بن چکا تھا،ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ’’لہومیں بھیگا وہ گل سا چہرہ ‘‘۔ہر وقت کشمیر کی موجودہ صورتحال پر فکر کرنے والا ہمارا پیارا دوست ہم سے بچھڑ گیا ۔لیکن کیاکیا جائے حقیقت کو تسلیم کرناہی پڑتا ہے اور موت تو اٹل حقیقت ہے۔ عنایت اللہ بھائی جیل کی آپ بیتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ،نومبر 1992کا واقعہ ہے جب کوٹ بلوال جیل میںبند کشمیری حریت پسند قید ی نوجوانوں نے ظالم ڈی ایس پی ڈوگرا کے مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال کی تو 6دن تک جاری رہی ،جس میں کچھ کشمیری قیدی شہید بھی ہؤے ،اور بڑی تعداد میں بیہوش ہوگئے تھے اور تمام قیدی بارکیں توڑ کر ایک گراؤنڈ میں جمع ہو گئے ،اسی دوران میری ملاقات کمانڈر امتیاز عالم سے ہوئی اور انہوں نے کشمیری قیدیوں کو بڑے حوصلے اور اطمینان سے اپنی ہڑتال جاری رکھنے کے لیے دھواں دار تقریر کی اور چھ دن بعد اس ظالم ڈوگرہ ڈی ایس پی کو وہاں سے تبدیل کیا گیا ۔ ٹنگ مرگ کے مجاہدین کے استاد عبد الجبار صاحب اور امتیاز عالم نے جیل کے احاطے کے اندر جو گفتگو کی اس سے جیل حکام کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ،دوسرے سیل میں شہید فاضلیؒ نے مجاہدین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج جس مرد مجاہد نے خطاب کیا وہ ایک جری کمانڈر ہے۔ اس جری کمانڈر کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کروں یہ تحریک آزادی کشمیر کا ایک انمول ہیرا ہے۔ ان کے جذبات کی قدر کرنا ہم سب کا فرض بنتا ہے ۔کمانڈرامتیاز عالم دشمن کے لئے ایک ننگی تلوار تھا ،شوق شہادت سے سرشار ،ان کی تمنا یہ تھی کہ دشمن کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو۔انکی یہ بھی خواہش ہے کہ میں رب العالمین کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔بشیر احمد پیر المعروف امتیاز عالم کی جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے گرانقدر خدمات یاد رکھی جائے گی۔کمانڈر امتیاز عالم شہید ؒ کی شہادت پر ان کے بڑے فرزند ڈاکٹر منظور احمد نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا ،ہمارے والد محترم میں جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دین ایمان پر مرمٹنے کا عزم رکھتے تھے ۔انہوں نے اپنے عظیم مقصد کے لئے جان دے دی ۔اباجان جو زبان سے کہتے تھے وہ کر کے دکھاتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ پامردی دکھائی، حق کا کلمہ بلند کرتے رہے ،تحریک آزادی کشمیر کا یہ درویش صفت مجاہد اپنے سر پر شہادت کا تاج سجا گئے ۔کمانڈر امتیاز عالم شہید ؒشاہین صفت مجاہد تھے۔ ان کی طبیعت اس کو ہر دم کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتی رہتی تھی۔ کبھی کپواڑہ کے گردونواح، کبھی بانڈی پورہ بارہمولہ اور کبھی راجوری پونچھ میں مصروف جہاد رہے ۔آخر وہ دن بھی آگیا جس کا انہیں مدت سے انتظار تھا۔ 20فروری 2023کو نماز مغرب ادا کرنے کے بعد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ۔انشاء اللہ ، شہید امتیاز عالم شہید ؒ کے برادر اور داماد یوں گویا ہوئے ،کمانڈر امتیاز عالم شہید ؒ ہمیں یہ سبق دے گئے کہ حق کی راہ میں اپنی پیاری جان قربان کر دو اور مقصد کے ساتھ لگاؤ رکھو اور جہاد کرو ۔ وہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ شہادت جیسی عظیم موت سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ اپنے جسم اور سینے پر گولیاں کھا کر اپنا نام روشن کر چکے ہے ۔اپنی شہادت سے ایک یوم قبل شہید کے قریبی ساتھی اور دوست عامر نزیر اور بلال شیرا نے بتایا کہ کمانڈر امتیاز عالم شہید ؒ نے اپنے یار دوستوں اور گھروالوں یہ حدیث مبارکہ پیش کی تھی نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں تین مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس شہادت کی خواہش کی۔ یہ شہادت کیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے انعام،اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ شہید زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے یہی جذبہ جہاد اور شوق شہادت جب قوم کے نوجوانوں میں پیدا ہوتا ہے تو وہ پھر متحرک ہو جاتے ہیں انہیں چین اور قرار نہیں آتا۔ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا ،کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا ،اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے ۔شہید امتیاز عالمؒ محض ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ ،فکر اور نظریہ کا نام تھے جنہوں نے پوری زندگی مظلوم قوم کی آزادی کے لیے صرف کر دی ،آپ کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا معیار صرف اور صرف کلمہ توحید تھا قیام وسجود کا اہتمام ،با الخصوص رات کے آخری پہر اٹھ کر حصول رضائے الٰہی کے لئے سر بسجود ہو تے تھے آرزوئے شہادت اس قدر زیادہ تھی کہ جان کو در پیش خطرات کو نظر انداز کر کے اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور بالآخر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ زبان پر کلمہ توحید رواں تھا اور چہرے پر نورانی مسکراہٹ۔ عینی شاہدین کے مطابق جب حملہ آوروں نے آپ کو گولیوں کا نشانہ بنایا تو آپ نے بلند آواز سے صداے توحید بلند کی ،اور زمین پر گر پڑے قریب ہی موجود ایک خاتون نے جلدی سے اپنے گھر سے آب زمزم لا کر ان کو پلانے کی کوشش کی ، سبحان اللہ ،دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی جو چیز آپ کو نصیب ہوئی وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شدت پیاس کی وجہ سے پھوٹنے والے مبارک چشمے کا پانی ،جی وہی حضرت اسماعیل علیہ السلام جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں بخوشی قربان ہونے کو ترجیح دی اور اسی اسماعیل علیہ السلام کی سنت پر چلتے ہوئے حزب المجاھدین کے عظیم رہنما امتیاز عالم ؒنے شہادت کو گلے لگا لیا ۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

٭٭٭