محمد صغیرقمر
ابھی کل صبح ہی نیم غنودگی کے عالم میں بستر پر پڑے پڑے میں نے ان کے بارے میں سوچا، 28 ستمبر کو ان سے ملاقات کا امکان تھا۔میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس بار جب ان سے ملاقات ہوگی تو ان سے چائے بنانے کا طریقہ بھی پوچھوں گا اور یہ بھی کہ وہ پتی کہاں سے لاتے تھے؟۔مجھے ان سے پہلی ملاقات بھی یاد آئی۔یہ سوچتے سوچتے میں پھرسو گیا۔
حسب معمول دفتر جانے سے قبل فون آن کیااور پہلا میسج جو نظروں کے سامنے آیا پڑھتے ہی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور اس دھند کے اس پارسے بن بادل برسات برسنے لگی۔اس برسات میں ان کا نورانی چہرہ دمک رہا تھا۔ آج وہ یہ دنیا چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے تھے۔ اس دنیا میں اب ملاقات کا کوئی امکان باقی نہیں بچا تھا۔ میرے ذہن میں ان کی یادوں کی فلم چلنے لگی۔ مجھے1984 کانومبر یاد آگیا۔ میں ڈاکٹر قاسم بن حسن کے ساتھ صبح 9 بجے کے قریب گلگت کے چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اترا۔ایک سوزوکی کیری کے ذریعے ہم اسلامیہ ہائی اسکول پہنچے۔گلگت کے چٹیل پہاڑوں پر ہلکی ہلکی برفباری ہوچکی۔ جہاز سے اترتے ہی مجھے اپنی نالائقی پر افسوس ہونے لگا۔گلگت میں سردی جوبن پر تھی اور میں اپنے ساتھ دوجوڑے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں لایاتھا۔ہم دونوں اسلامیہ ہائی اسکول کے باہر سڑک پر اتر گئے اور ایک تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے اسکول کی بغلی گلی میں دو کمرے کے ایک مکان میں داخل ہوگئے۔یہاں چند بزرگ کوئلے کی انگیٹھی کے گرد بیٹھے تھے،ہمیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے ہمیں وارفتگی سے گلے لگایا۔ہمارے لیے انگیٹھی کے پاس جگہ بنائی اور باہم تعارف ہوا۔ان میں سے تین ہمیشہ کے لیے میرے دل میں بس گئے۔مولاناعبدالمنان،سید مظفر علی ظفر اور سید عبدالجلال۔مولانا عبدالمنان صاحب کے بارے میں اتنا تو معلوم تھا کہ وہ گلگت بلتستان میں تحریک آزادی کی قیادت کر چکے ہیں۔انہیں شمالی علاقوں میں ایک معتبر غازی، عالم دین اور باہمت مجاہد کی حیثیت سے احترام حاصل تھا۔وہ مجلس سے اٹھے اور کمرے کے ایک کونے میں چلے گئے مختلف قسم کی پوٹلیاں کھولتے بند کرتے کرتے انگیٹھی کے پاس آئے اور اسی انگیٹھی پردیگچی رکھ کر چائے بنائی۔ ایک نظرہمارے لباس کو دیکھا اور فکر مندی سے پوچھا ’’آپ لوگ گرم کپڑے نہیں لائے ہو‘‘۔ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ہم چوں کہ بیس روز کے لیے گلگت گئے تھے اور اس یخ بستہ موسم نے ابھی مزید اثر دکھانا تھا،اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ مولانا عبدالمنان صاحب ہمیں چائے پیش کر کے باہر چلے گئے۔ اس سے قبل اتنی اچھی چائے نہیں پی تھی۔ہم نے اسے گلگت کا رواج قرار دیا اور کچھ دیر آرام کے لیے کمبلوں میں گھس گئے۔ہم ظہر کے وقت جاگے،ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ مولاناعبدالمنان صاحب ہمارے لیے کہیں سے دو چادریں خرید لائے تھے۔یہ ضیائی مارشل لاء کے دن تھے۔شمالی علاقوں کو زون’ای‘ قرار دیا گیا تھا۔یہاں سیاسی سرگرمیاں تو کْجا اس خطے کو آئینی حق بھی حاصل نہیں تھا۔ اس قدر گھٹن کا ماحول تھا کہ سانس لینا مشکل تھا۔ ان علاقوں کی حساسیت اہم تھی ہی لیکن مارشل لاء کے بعد یہاں کسی قسم کی سرگرمی سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا اور ہم یہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام اور سرگرمیاں تیز کرنے چلے آئے تھے۔ڈگری کالج گلگت اور چلاس میں چند روز چھپ چھپا کر نظم قائم کیا۔ دوچار اجتماعات کیے۔ تین روز بعد ڈاکٹر قاسم بن حسن اخراجات کے لیے دوسو روپے سکہ رائج الوقت میرے حوالے کر کے لاہور کسی اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ادھر میں اکیلا رہ گیا۔مجھے ان بابوں کی موجودگی میں کوئی خوف تو نہیں تھالیکن ہم عمر کوئی بھی نہیں تھا۔



بہرحال رہائش کے لیے جگہ میسر تھی،کھانا پکا پکایا مل جاتا تھا اورسردی کا حل بھی ایک چادر کی صورت نکل آیا تھا جسے میں ہر وقت اوڑھے رکھتا۔ ایک شام مولانا عبدالمنان ایک جیپ لے کر آئے اور مجھے اپنے گھر جگلوٹ سئی لے گئے۔ میں مولانا کی شخصیت سے متاثر تو تھا ہی۔ان کا پتھروں سے بنا گھر اور اس میں سادگی لیکن نفاست سے رکھی اشیاء نے میرا دل کھینچ لیا۔میں چار روز ان کے گھر میں رہا۔مولانا لش لش کرتے سفید کپڑے پہنتے،سر پر کریم رنگ کی قراقلی رکھتے۔چہرہ ویسے بھی نورانی تھا۔چائے اپنے ہاتھ سے بناتے اور جس سلیقے سے کھانا چنتے وہ میرے دل کو بھا گیا۔دو روز تک وہ مجھے اپنے گھر کے قریب ایک سکول میں لے جاتے رہے اساتذہ سے ملاتے بچوں کی کلاسز میں لے جاتے،میں جیسے تیسے اپنی بات بچوں کو سمجھاتا۔واپسی پر مولانا بے پناہ داد دیتے،سچی بات یہ ہے کہ آج اس آسمان صفت ہستی کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ کو ہمیشہ کی طرح بونا پاتا ہوں۔رات مولانا کے گھر محفل جمتی وہ کچھ لوگوں کو بلا لیتے اورچائے کے کئی دور چلتے۔مولانا مجھے آگے کر دیتے اور کہتے ان کے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ کی بات کرو، یہ سن کر بعض اوقات میری ہنسی بھی نکل جاتی اور شاید میں ان جیسے بابوں کے بارے میں سوچتا تھا کہ انہیں طلبہ اورعوام میں فرق نہیں آتا۔ایک روز مولاناعبدالمنان مجھے بونجی لے گئے اور جس جیپ پر ہم گئے اس میں صرف کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔پورے سفر میں انہوں نے مجھے تھامے رکھا مبادا میں گر نہ جاؤں۔بونجی میں صلاح الدین کونسلر کے گھر ہماراقیام تھا لیکن مولانا عبدالمنان مجھے اس گھر کے قریب مسجدمیں لے گئے اور مجھے حکم دیا کہ یہاں بھی لوگوں کو دین کی دعوت دو۔جیسے تیسے کر کے میں نے اوٹ پٹانگ خطاب کیا۔مجھے طلبہ میں بات کرنے کا سلیقہ تو آتا تھا لیکن یہاں عوامی خطابات کرنے پر میں نے اپنی بے بسی کا اظہار مولانا سے کیا تو کہنے لگے’’اگر آپ کی بات بڑے سمجھ جائیں تو وہ اپنے بچوں کو خود سمجھا کر راہ راست پر لائیں گے‘‘۔تین ہفتے گلگت میں قیام کے دوران مولانا عبدالمنان صاحب سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ رہے۔اس قدر شفقت محبت اور رہنمائی کرنے والے زندگی میں خال خال ہی ملے ہیں۔ان ایام میں،میں بی۔ اے کا امتحان دے کر گیا تھا۔میں سفر میں مولانا سے درخواست کرتا کہ دعا کریں اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤں،وہ مسکرا کر مجھے دیکھتے اور اور پھر زیر لب کچھ پڑھنے لگتے۔ گلگت سے واپسی کی تیاری شروع کی تو اپنے تھیلے میں مجھے ایک سفید رنگ کی چادر اور ان سلے سفید کپڑے نظر آئے۔ میں نے حیرت سے مولانا کی طرف دیکھاتو انہوں نے تھیلے میں واپس رکھنے کا اشارہ کیا۔ یہ ان کی طرف سے تحفہ تھا۔عصر کا وقت تھاوہ مجھے نکٹو کی بس پر بٹھا کر ہاتھ ہلاتے رخصت ہوگئے۔وہ بڑے انسان تھے،مجھے بعد کے دور میں یہ بات سمجھ آئی۔وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے دست راست تھے۔یہی وجہ ہے کہ علم اور تقویٰ میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔وہ مجاہد فی سبیل اللہ تھے،ڈوئیاں سے زوجیلا تک قابض فوجیوں کا انہوں نے پیچھا کیا اور انہیں گھر پہنچا کر گلگت وبلتستان کی آزادی کویقینی بنائی۔ان کا سرخ وسفید چہرہ ان کے دل کی صفائی کا آئینہ دار تھا۔مولانا کے ساتھ اس کے بعد مسلسل عقیدت اور محبت کا تعلق قائم ہوگیا۔ 1988میں وہ ایک ماہ کے لیے مظفرآبادآئے مجھے ان کی رفاقت اور خدمت کا موقع میسر آیا۔ان کے ہاتھوں کی بنی چائے اتنی مشہور ہوگئی کہ ہر کوئی پینا چاہتا تھا لیکن ان سے فرمائش کرنا انہیں زحمت دینے کے مترادف تھا۔اللہ نے انہیں جہاں دین کے علم سے سرفراز فرمایا تھا وہاں حس مزاح سے بھی نوازا تھا۔ جب لو گ ان کے گرد جمع ہوتے تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور کچن کا رخ کرتے ہوئے کہتے’’تم لوگ ایسے واپس نہیں جاؤ گے‘‘۔سب ہنس پڑتے ہم نے کئی بار کوشش کہ کہ وہ چائے بنانے کی بجائے طریقہ ہمیں سکھا دیں لیکن وہ اس پر کہتے’’یہ راز ہے‘‘۔

حسب معمول دفتر جانے سے قبل فون آن کیااور پہلا میسج جو نظروں کے سامنے آیا پڑھتے ہی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور اس دھند کے اس پارسے بن بادل برسات برسنے لگی۔اس برسات میں ان کا نورانی چہرہ دمک رہا تھا۔ آج وہ یہ دنیا چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے تھے۔ اس دنیا میں اب ملاقات کا کوئی امکان باقی نہیں بچا تھا۔ میرے ذہن میں ان کی یادوں کی فلم چلنے لگی۔ مجھے1984 کانومبر یاد آگیا۔ میں ڈاکٹر قاسم بن حسن کے ساتھ صبح 9 بجے کے قریب گلگت کے چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اترا۔ایک سوزوکی کیری کے ذریعے ہم اسلامیہ ہائی اسکول پہنچے۔گلگت کے چٹیل پہاڑوں پر ہلکی ہلکی برفباری ہوچکی۔ جہاز سے اترتے ہی مجھے اپنی نالائقی پر افسوس ہونے لگا۔گلگت میں سردی جوبن پر تھی اور میں اپنے ساتھ دوجوڑے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں لایاتھا۔ہم دونوں اسلامیہ ہائی اسکول کے باہر سڑک پر اتر گئے اور ایک تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے اسکول کی بغلی گلی میں دو کمرے کے ایک مکان میں داخل ہوگئے۔یہاں چند بزرگ کوئلے کی انگیٹھی کے گرد بیٹھے تھے،ہمیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔انہوں نے ہمیں وارفتگی سے گلے لگایا۔ہمارے لیے انگیٹھی کے پاس جگہ بنائی اور باہم تعارف ہوا۔ان میں سے تین ہمیشہ کے لیے میرے دل میں بس گئے۔مولاناعبدالمنان،سید مظفر علی ظفر اور سید عبدالجلال۔مولانا عبدالمنان صاحب کے بارے میں اتنا تو معلوم تھا کہ وہ گلگت بلتستان میں تحریک آزادی کی قیادت کر چکے ہیں۔انہیں شمالی علاقوں میں ایک معتبر غازی، عالم دین اور باہمت مجاہد کی حیثیت سے احترام حاصل تھا۔وہ مجلس سے اٹھے اور کمرے کے ایک کونے میں چلے گئے مختلف قسم کی پوٹلیاں کھولتے بند کرتے کرتے انگیٹھی کے پاس آئے اور اسی انگیٹھی پردیگچی رکھ کر چائے بنائی۔ ایک نظرہمارے لباس کو دیکھا اور فکر مندی سے پوچھا ’’آپ لوگ گرم کپڑے نہیں لائے ہو‘‘۔ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ہم چوں کہ بیس روز کے لیے گلگت گئے تھے اور اس یخ بستہ موسم نے ابھی مزید اثر دکھانا تھا،اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ مولانا عبدالمنان صاحب ہمیں چائے پیش کر کے باہر چلے گئے۔ اس سے قبل اتنی اچھی چائے نہیں پی تھی۔ہم نے اسے گلگت کا رواج قرار دیا اور کچھ دیر آرام کے لیے کمبلوں میں گھس گئے۔ہم ظہر کے وقت جاگے،ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ مولاناعبدالمنان صاحب ہمارے لیے کہیں سے دو چادریں خرید لائے تھے۔یہ ضیائی مارشل لاء کے دن تھے۔شمالی علاقوں کو زون’ای‘ قرار دیا گیا تھا۔یہاں سیاسی سرگرمیاں تو کْجا اس خطے کو آئینی حق بھی حاصل نہیں تھا۔ اس قدر گھٹن کا ماحول تھا کہ سانس لینا مشکل تھا۔ ان علاقوں کی حساسیت اہم تھی ہی لیکن مارشل لاء کے بعد یہاں کسی قسم کی سرگرمی سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا اور ہم یہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام اور سرگرمیاں تیز کرنے چلے آئے تھے۔ڈگری کالج گلگت اور چلاس میں چند روز چھپ چھپا کر نظم قائم کیا۔ دوچار اجتماعات کیے۔ تین روز بعد ڈاکٹر قاسم بن حسن اخراجات کے لیے دوسو روپے سکہ رائج الوقت میرے حوالے کر کے لاہور کسی اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ادھر میں اکیلا رہ گیا۔مجھے ان بابوں کی موجودگی میں کوئی خوف تو نہیں تھالیکن ہم عمر کوئی بھی نہیں تھا۔ بہرحال رہائش کے لیے جگہ میسر تھی،کھانا پکا پکایا مل جاتا تھا اورسردی کا حل بھی ایک چادر کی صورت نکل آیا تھا جسے میں ہر وقت اوڑھے رکھتا۔ ایک شام مولانا عبدالمنان ایک جیپ لے کر آئے اور مجھے اپنے گھر جگلوٹ سئی لے گئے۔ میں مولانا کی شخصیت سے متاثر تو تھا ہی۔ان کا پتھروں سے بنا گھر اور اس میں سادگی لیکن نفاست سے رکھی اشیاء نے میرا دل کھینچ لیا۔میں چار روز ان کے گھر میں رہا۔مولانا لش لش کرتے سفید کپڑے پہنتے،سر پر کریم رنگ کی قراقلی رکھتے۔چہرہ ویسے بھی نورانی تھا۔چائے اپنے ہاتھ سے بناتے اور جس سلیقے سے کھانا چنتے وہ میرے دل کو بھا گیا۔دو روز تک وہ مجھے اپنے گھر کے قریب ایک سکول میں لے جاتے رہے اساتذہ سے ملاتے بچوں کی کلاسز میں لے جاتے،میں جیسے تیسے اپنی بات بچوں کو سمجھاتا۔واپسی پر مولانا بے پناہ داد دیتے،سچی بات یہ ہے کہ آج اس آسمان صفت ہستی کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ کو ہمیشہ کی طرح بونا پاتا ہوں۔رات مولانا کے گھر محفل جمتی وہ کچھ لوگوں کو بلا لیتے اورچائے کے کئی دور چلتے۔مولانا مجھے آگے کر دیتے اور کہتے ان کے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ کی بات کرو، یہ سن کر بعض اوقات میری ہنسی بھی نکل جاتی اور شاید میں ان جیسے بابوں کے بارے میں سوچتا تھا کہ انہیں طلبہ اورعوام میں فرق نہیں آتا۔ایک روز مولاناعبدالمنان مجھے بونجی لے گئے اور جس جیپ پر ہم گئے اس میں صرف کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔پورے سفر میں انہوں نے مجھے تھامے رکھا مبادا میں گر نہ جاؤں۔بونجی میں صلاح الدین کونسلر کے گھر ہماراقیام تھا لیکن مولانا عبدالمنان مجھے اس گھر کے قریب مسجدمیں لے گئے اور مجھے حکم دیا کہ یہاں بھی لوگوں کو دین کی دعوت دو۔جیسے تیسے کر کے میں نے اوٹ پٹانگ خطاب کیا۔مجھے طلبہ میں بات کرنے کا سلیقہ تو آتا تھا لیکن یہاں عوامی خطابات کرنے پر میں نے اپنی بے بسی کا اظہار مولانا سے کیا تو کہنے لگے’’اگر آپ کی بات بڑے سمجھ جائیں تو وہ اپنے بچوں کو خود سمجھا کر راہ راست پر لائیں گے‘‘۔تین ہفتے گلگت میں قیام کے دوران مولانا عبدالمنان صاحب سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ رہے۔اس قدر شفقت محبت اور رہنمائی کرنے والے زندگی میں خال خال ہی ملے ہیں۔ان ایام میں،میں بی۔ اے کا امتحان دے کر گیا تھا۔میں سفر میں مولانا سے درخواست کرتا کہ دعا کریں اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤں،وہ مسکرا کر مجھے دیکھتے اور اور پھر زیر لب کچھ پڑھنے لگتے۔ گلگت سے واپسی کی تیاری شروع کی تو اپنے تھیلے میں مجھے ایک سفید رنگ کی چادر اور ان سلے سفید کپڑے نظر آئے۔ میں نے حیرت سے مولانا کی طرف دیکھاتو انہوں نے تھیلے میں واپس رکھنے کا اشارہ کیا۔ یہ ان کی طرف سے تحفہ تھا۔عصر کا وقت تھاوہ مجھے نکٹو کی بس پر بٹھا کر ہاتھ ہلاتے رخصت ہوگئے۔وہ بڑے انسان تھے،مجھے بعد کے دور میں یہ بات سمجھ آئی۔وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے دست راست تھے۔یہی وجہ ہے کہ علم اور تقویٰ میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔وہ مجاہد فی سبیل اللہ تھے،ڈوئیاں سے زوجیلا تک قابض فوجیوں کا انہوں نے پیچھا کیا اور انہیں گھر پہنچا کر گلگت وبلتستان کی آزادی کویقینی بنائی۔ان کا سرخ وسفید چہرہ ان کے دل کی صفائی کا آئینہ دار تھا۔مولانا کے ساتھ اس کے بعد مسلسل عقیدت اور محبت کا تعلق قائم ہوگیا۔ 1988میں وہ ایک ماہ کے لیے مظفرآبادآئے مجھے ان کی رفاقت اور خدمت کا موقع میسر آیا۔ان کے ہاتھوں کی بنی چائے اتنی مشہور ہوگئی کہ ہر کوئی پینا چاہتا تھا لیکن ان سے فرمائش کرنا انہیں زحمت دینے کے مترادف تھا۔اللہ نے انہیں جہاں دین کے علم سے سرفراز فرمایا تھا وہاں حس مزاح سے بھی نوازا تھا۔ جب لو گ ان کے گرد جمع ہوتے تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور کچن کا رخ کرتے ہوئے کہتے’’تم لوگ ایسے واپس نہیں جاؤ گے‘‘۔سب ہنس پڑتے ہم نے کئی بار کوشش کہ کہ وہ چائے بنانے کی بجائے طریقہ ہمیں سکھا دیں لیکن وہ اس پر کہتے’’یہ راز ہے‘‘۔ 1988ء میں ہی جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر میاں طفیل محمدؒ مظفرآباد میں مرکزا سلامی کا سنگ بنیاد رکھنے تشریف لائے۔مولانا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ہم نے انہیں میاں صاحب کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا تھا۔وہاں بھی مولانا عبدالمنان ؒ میاں صاحب کے لیے خود چائے بناتے۔ ایک روز چائے کا تذکرہ طویل ہوگیا،میاں طفیل محمدؒ بھی چائے کے بہت شوقین تھے۔اسی تذکرے میں مجھے میاں صاحب نے حکم دیا کہ مولاناابولکلام آزادؒکی کتاب’’غبار خاطر‘‘پڑھیں۔ہم باتیں کر رہے تھے اتنے میں مولانا عبدالمنان ؒچائے بنا کر لے آئے۔میاں طفیل ؒ کے سامنے چائے رکھی گئی۔ انہوں نے دوگھونٹ بھر کر چائے رکھ دی اور فرمانے لگے’’آج اس کی بہت تعریف ہوئی ہے اس لیے مزید نہیں پیوں گا‘‘اس مجلس میں عبدالرشید ترابی صاحب بھی موجود تھے اور وہ چائے نہیں پیتے تھے۔میاں صاحب نے جو چائے چھوڑی تھی ترابی صاحب نے لپک کر وہ کپ اٹھا لیا اورمزے لے لے کر پینے لگے۔ یہ منظر مولاناعبدالمنان ؒ دیکھ کر مسکرائے پھر مدتوں ہم آپس میں اس واقعے کو یاد کر کے ہنستے رہے۔مولاناعبدالمنان آخری عمر میں اسلام آباد میں بچوں کے پاس منتقل ہو گئے تھے۔اللہ نے انہیں طویل عمر عطا فرمائی۔سال میں دو چار بار ملاقات ہو جاتی۔جب بھی ملاقات ہوتی پہلے سے زیادہ توانا لگتے۔ بالکل آخری دنوں میں نظر بہت کمزور ہوچکی تھی۔ میں بہت قریب پہنچ کر ان سے چمٹ جاتا اور کان میں اپنا نام بتاتا،وہ دیر تک گلے لگا ئے رکھتے،تھپکی دیتے،دعاؤں سے نوازتے۔اللہ نے کمال کی یاداشت عطا کی تھی۔ علم لدنی سے فیض پانے والے حضرت چیلاسی بابا سے ان کی خاص دوستی اور عقیدت تھی۔ان دونوں کی دوستی آخری عمر تک قائم رہی۔مولانا عبد المنان ؒ ایک کامیاب زندگی گزار کر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ان جیسے علمائے دین کا اب معاشرے میں قحط پڑ چکا ہے۔فرقہ پرستی اور مسلک کی جنگ میں امت واحد بات کرنے والے ایسے عالم مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را!!
٭٭٭