وہ علم کا سورج ۔۔۔پروفیسر خورشید احمد

شہباز بڈگامی

1990 میں انہیں اسلام کی خدمات کے اعتراف میں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا

پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ اور امریکن فنانس ہاوس ایوارڈ بھی اپنی زندگی میں ہی ملا تھا

پروفیسر خورشید احمد مجاہدین اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے روشنی کے مینار کا درجہ رکھتے تھے

انہیں جناب سید صلاح الدین احمد کیساتھ خاص انس تھا ،جس کا وہ ٹی وی مذاکروں میں بھی ذکر کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے

پروفیسر خورشید احمدایک عہد تھا،جو تمام ہوا۔وہ ایک تحریک تھے،جس سے ہر ایک نے فیض حاصل کیا

پروفیسر خورشید احمد بھی چل بسے۔اللہ تعالی ان کی مرقد پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائیں۔وہ جس انقلاب کو لیکر اٹھے،اسی انقلاب کی تگ ودو اور کامیابی کے حصول کیلئے زندگی کی آخری سانس تک سرگرداں اور مصروف جدوجہد رہے اور پھر اپنے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو نبھاکر اس کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن۔۔
پروفیسر خورشید احمد23 مارچ 1932 میں دہلی میں برطانوی راج میں ایک اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم دہلی کے اینگلو عربک کالج سے حاصل کی۔1947 میں تقسیم برصغیر کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور صوبہ پنجاب کے شہر لاہورمیں آباد ہو گیا۔ان کا خاندان تجارت سے وابستہ تھا البتہ پروفیسر خورشید احمد تجارت کی جانب زیادہ مائل نہیں تھے۔انہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا زیادہ شوق تھا۔جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ بچپن سے ہی ذہین طلبا یعنی کلاس کے پہلے دس طلبامیں شمار ہوتے تھے۔چونکہ 1932سے لیکر 1947تک ان کا خاندان بھارت میں مقیم تھااور صرف زندگی کے ابتدائی پندرہ برس ہی انہیں بھارت میں گزارنے کا موقع میسر آیا ۔پھر جب ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر1947 میں ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔تو پروفیسر خورشید احمد نے 1949 میں بزنس منیجمنٹ اور اکنامکس کی تعلیم کے حصول کیلئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا۔ 1949 میں ان کا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع ہوا۔چونکہ دوران تعلیم ہی انہوں نے دنیا کے عظیم مفکراور اسلام کے داعی سید ابوالاعلی مودودی کے فلسفیانہ کام کو پڑھنا شروع کیا اور پھر 1949 میں ہی جماعت اسلامی کی طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کیساتھ وابستہ ہوئے ۔ 1952 میں انہوں نے بی اے میں اپنی گریجویشن اکنامکس میں فرسٹ کلاس آنرز میں مکمل کی ۔علم کی پیاس نہ بجھی ،تو 1952 میں انہوں نے اسلامی قانون اور فقہ پر زور دیتے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور لاء پروگرام میں داخلہ لیا۔1953 میں انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔1956 میں آپ جماعت اسلامی میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئے۔خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے مقالے کا دفاع کرنے کے بعد معاشیات میں آنرز کیساتھ MSCکی ڈگری حاصل کی ۔1962 میں خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں آنرز کیساتھ MA میں گریجویشن مکمل کی ۔یہ ان کی حد درذہانت کا ہی ثبوت ہے کہ 1965 میں انہیں برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اسکالرشپ مل گیا۔انہیں برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ ملا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کیلئے فیکلٹی آف اکنامکس کا حصہ بنے۔ انھوں نے 1967-68 میں معاشیات میں PHD کیلئے اپنی ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔ یاد رہے کہ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشی فقہ پر تھا۔1970 میں لیسٹر یونیورسٹی نے ہی خواندگی کو فروغ دینے کیلئے ان کی خدمات اور ان کی غیر معمولی ذہانت کو تسلیم کیا،اور انھیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔1970 میں ہی وہ برطانیہ چلے گئے اور لیسٹر یونیورسٹی میں عصری فلسفہ پڑھانے کیلئے فلسفہ کے شعبہ کا حصہ بنے۔ جس کے بعد کبھی انہوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا بلکہ تعلیم کے میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک کارہائے نمایاں انجام دیتے چلے گئے۔انہوں نے جامعہ کراچی، یونیورسٹی آف لیسٹر برطانیہ اور شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں بھی اپنی خدمات انجام دیں۔

انہیں جناب سید مودودی کی مودت اور خاص تقرب حاصل رہا۔پروفیسر خورشید احمد نے اپنی تمام ذاتی اور نجی مصروفیات تج کر خود کو ہمیشہ کیلئے جماعت اسلامی کیلئے وقف کیا۔ اپنی وفات سے قبل جناب سید مودودی1972 میں اپنی علالت کے باعث جماعت اسلامی کی امارت سے از خود سبکدوش ہو گئے تو نئے امیر جماعت اسلامی کے انتخاب کیلئے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے رائے دہندگان کی رہنمائی کیلئے تین رہنماوں پر مشتمل جو پینل تشکیل دیا،اس میں میاں طفیل محمد اور پروفیسر غلام اعظم کے علاوہ پروفیسر خورشید احمد کا نام بھی شامل تھا، اس طرح بانی جماعت کی زندگی میں جماعت اسلامی کی دوسری نسل بھی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئی۔انہیں معروف شاعر،مصنف،مقرر اور سید مودودی کے دست راست جناب مولانا نعیم صدیقی کی جگہ ترجمان القرآن کا مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترجمان القرآن ادبی رسالے کے بجائے علمی جرائد کی حیثیت اختیار کر گیا اور علمی حلقوں میں اسے خوب سراہا گیا۔خود پروفیسرخورشید احمد کے اپنے تحریر کردہ مضامین ترجمان القرآن میں شائع ہوتے رہے۔اس کے علاوہ اپنی ادارت میں انہوں نے ایک تھنک ٹینک قائم کیا تھا، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزIPS ۔اس ادارے نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک خاص اور منفرد اہمیت اختیار کر لی، چاہے حکومت ہو یا غیر سرکاری ادارے، رہنمائی کیلئے اکثرIPS کی طرف دیکھتے ۔ اس کی کامیابی کا ایک راز ادارے میں کام کرنے والے عہدیداراں اور کارکنوں کیساتھ مرحوم کا ذاتی تعلق تھا ۔1980 کی دہائی میں وہ سابق صدر پاکستان جنرل ضیا ءالحق کے دور میں پاکستان کی اسلامائزیشن کی کوششوں کے دوران ایک بااثر مشیر تھے،انہوں نے ہی اسلامک یونیورسٹی کے قیام کا نظریہ پیش کیا ،جو اس وقت بھرپور برگ و بار کیساتھ کھڑی ہے۔

پروفیسرخورشید احمد کو جہاں سید ابو الاعلی مودودیؒ کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا،وہیں میاں طفیل محمدؒ،قاضی حسین احمدؒ،سید منور حسنؒ اورسراج الحق کیساتھ بھی قریبی اور بھرپور موقع ملا ہے۔گوکہ ان کی طبیعت کئی برسوں سے ناساز تھی ،مگر اس مرد درویش اور مرد خود آگاہ نے تحریک اسلامی کے کاموں کو اپنی ناسازی طبیعت پر ہمیشہ فوقیت دی۔جو مرحوم خورشید صاحب کی جماعت کے حلقوں میں بے پناہ قدرو منزلت کا باعث بنی ،جس کی ایک وجہ ان کا علمی میدان میں خود کو منوانا بھی ہے۔ان کی علمی خدمات کے سلسلے میں ہی2011 میں پاکستان کے اعلی ترین سول ایوارڈ نشان امتیاز اور1990 میں انہیں اسلام کی خدمات کے اعتراف میں کنگ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا ۔اسلامک فاونڈیشن برطانیہ کی بنیاد رکھنے والے پروفیسر خورشید احمد کو پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ اور امریکن فنانس ہاوس ایوارڈ بھی اپنی زندگی میں ہی ملا تھا۔وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں اسلامی نظریہ حیات، تذکرہ زندان، پاکستان بنگلادیش اور جنوبی ایشیا ء کی سیاست سمیت درجنوں اردو اور انگریزی کتب شامل ہیں۔وہ سن 2002 سے2012 تک پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالاسینیٹ کے ممبر رہے۔انہوں نے اپنی نمائندگی کا حق ادا کیا کہ پرائے بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔چاہیے آف کیمرہ بریفنگ ہو یا آن کیمرہ۔پروفیسر خورشید احمد نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں شرکت کے دوران ریاست پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے ذمہ دار کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کیا اور ان کے نپے تلے اور دلیل سے بھرپور سوالات نے بڑے بڑوں کو دنگ اور ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔پاکستان کے فوجی حکمران مرحوم جنرل پرویز مشرف کیخلاف وکلاء کی تحریک ہو ،پاکستان کی داخلہ یا خارجہ پالیسی سازی کے مراحل ہوں۔ مسئلہ کشمیر اور خاص کر تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانیؒ کیساتھ جنرل پرویز مشرف کے تعلقات میں اتار چڑھائو کے مراحل ہوں۔پروفیسرخورشید احمد نے مرحوم جنرل صاحب کو عملاََز چ کیا تھا،جس کا اعتراف جنرل صاحب مرحوم اپنے ٹی وی انٹرویوز میں پروفیسر خورشید احمد کا نا م لیکر بڑی کرختگی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔بلکہ ایک دفعہ اپنے انٹرویو میں جنرل مشرف نے یہاں تک کہا کہ میں پروفیسر خورشید احمد سے پوچھوں گا۔

پروفیسر خورشید احمد کی دنیا بھر میں شناخت ماہر اقتصادیات اور ماہر تعلیم کے طور پر رہی ہے۔پروفیسر خورشید احمد ایک منفرد شناخت اور پہچان کے مالک تھے۔وہ دنیا بھر کی اسلامی اور مزاحمتی تحریکوں کے پرزور اور پرجوش حامی تھے۔انہوں نے جہاں جہاد افغانستان میں اپنی بھرپور صلاحیتیں صرف کیں،وہیں تحریک آزادی کشمیر کے حقیقی مدد گار،پشتبان اورنظریہ ساز تھے۔پروفیسر خورشید احمد مجاہدین اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے روشنی کے مینار کا درجہ رکھتے تھے۔پاکستان میں اگر کسی نے تحریک آزادی کشمیر کیلئے سب سے زیادہ کام کیا تو وہ پروفیسر خورشید احمد ہی تھے۔ وہ تحریک آزادی کشمیرکے جہاں حقیقی ہمدرد تھے۔ وہیں نظریہ ساز بھی تھے اور انہوں نے تحریک مزاحمت اور اس کی قیادت کو ہمیشہ مشکل دور سے سرخرو ہوکر نکالا۔واقف حال کا کہنا ہے کہ 1997 اور 2003میں تحریک آزادی کشمیر کا ہر اول دستہ حزب المجاہدین جب سخت امتحان اور آزمائشیوں سے دوچار ہوا تو پروفیسر خورشید احمد نے ہی اپنی خداد اد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر حزب المجاہدین کو متحد اور منظم رکھنے میں وہ کردار ادا کیا ،جس سے مورخ صرف نظر نہیں کرسکتا۔انہیں جناب سید صلاح الدین احمد کیساتھ خاص انس تھا ،جس کا وہ ٹی وی مذاکروں میں بھی ذکر کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔سرزمین کشمیر کے عظیم فرزند مرحوم شیخ تجمل الاسلام کیساتھ بھی پروفیسر خورشید احمد کی اچھی خاصی شناسائی تھی ،جس کا ذکر شیخ صاحب مرحوم کئی بار مجھ احقر کیساتھ کرچکے تھے۔بلکہ جب تحریک آزادی کے خدو خال کا خاکہ تیار کیا جارہا تھا تو اس مرحلے پر بھی دونوں مرحومین کی ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔ بلاشبہ آج پروفیسر خورشید احمد کی کمی آزاد جموں و کشمیر اورمقبوضہ جموں و کشمیر دونوں علاقوں میں بڑی شدت کیساتھ محسوس کی جارہی ہے۔وہ پاکستان کی اشرافیہ کو کھری کھری سنانے میں کبھی نہیں ہچکچائے اور نہ اس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرے یا خوفزدہ ہوئے۔جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر حق اور سچ بیاں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ان کے دہائیوں پرانے انٹرویوز آج بھی جب سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں تو ان کی اخلاقی جرأت کی پرائے بھی داد دیئے بغیر نہیں رہتے۔علم و ادب کا یہ سورج 13 اپریل بروز اتوار 93 برس کی عمر میں لیسٹر برطانیہ میں بادلوں کی اوٹ میں ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔البتہ ان کے علم کی روشنی اور ضیاء پاشی سے لاکھوں کروڑوں انسان فیض حاصل کرتے رہیں گے،جو ان کے زندہ ہونے کا احساس دلاتا رہے گا۔پروفیسر خورشید احمدایک عہد تھا،جو تمام ہوا۔وہ ایک تحریک تھے،جس سے ہر ایک نے فیض حاصل کیا۔وہ ایک بحر بیکران تھے ،جو صرف رواں رہنے کا فن جانتاتھا۔جس کا اعتراف آج بڑے بڑے دانشور بھی کرنے پر مجبور ہیں۔

2010 میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں منظور کردہ جس اٹھارویں ترمیم کو پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن باب قرار دیا جارہا ہے،اس مذکوہ اٹھارویں ترمیم میں پروفیسر خورشید احمد نے اپنی ذہانت کا ایسا لوہا منوایا کہ پاکستانی سینیٹ کے اس وقت کے چیئرمین میاں رضا ربانی کو ان کا ایساگرویدہ بنالیاکہ جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریاتی دشمنی کو علم دوستی میں بدل دیا۔امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب حافظ نعیم الرحمان اور جناب سید صلاح الدین احمد نے پروفیسر خورشید احمد کی جدائی کو اسلامی تحریکوں کیلئے ایک صدمہ جان لیوا قراردیکر اللہ تعالی سے ان کی مرقد پر رحمت کی دعا کی ہے۔جبکہ مظلوم اور محکوم اہل غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس نے جناب پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔حماس نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ عالم اسلام پروفیسر خورشید احمد جیسے عظیم مفکراور مدبر سے محروم ہوگیا ہے۔حماس نے مزید کہا کہ پروفیسر خورشید احمد نے امت مسلمہ کے حقوق کے تحفظ اور دفاع کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔جس سے بھلایا نہیں جاسکتا۔حماس کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ اہل فلسطین کی جدوجہد کیلئے پروفیسر خورشید احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔پروفیسر خورشید احمد کو شاید ہی اسے بڑھ کر کوئی خراج عقیدت ہوگا ،جب اہل غزہ اور حماس مقتل میں تنہا کھڑی اور ان پر قیامت برپا ہے۔خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

***

جناب محمدشہباز بڈگامی معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلامعاوضہ لکھتے ہیں۔