وہ قہقہے بکھیرنے والانہ رہا

قیصر یعقوب

میرے ایک دوست صابر حسین نے واٹس ایپ پرصوتی پیغام ( Vioce Message) بھیجا کہ عمرفاروق ساکن یاڈرپلوامہ راولپنڈی کے ایک ہسپتا ل میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔سانحہ ارتحال کی یہ دلخراش خبر سن کر کچھ لمحوں کیلئے سکتے میں آگیا ۔ زبان سے انا للہ و انا الیہ راجعون کے الفاظ نکلے اورساتھ ہی ایک گہری سوچ میں پڑ گیا کہ آج میں ایک بے لوث اور مخلص دوست سے محروم ہوگیا ہوں ۔وہ میرا وفاشعار دوست تھا اور ان کیساتھ میری رفاقت کئی برسوں پر محیط تھی ۔دفعتا ان کیساتھ زندگی کے گزرے ہوئے خوشگوار ماہ و سال ایک فلم کی مانند میرے اذہان و قلوب پر چلنے لگے، بس یادوں کا کہکشاں ابھر کے آیا۔عمربھائی تعلیمی اعتبار سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انسانیت کی خدمت کا درس خوب پڑھا تھا۔ جو کچھ دینی تربیت کے دوران سنتے اسے اپنے ذہن پر نقش کردیتے تھے۔میں نے دوستی کے “اس دورانیے” میں عمر فاروق کا اسلام پسند چہرہ قریب سے دیکھا۔انہیں قرآن مجید اور سیرت النبیﷺ سے بھی بے انتہا عقیدت تھی۔جسامت کے لحاظ سے عمر بھائی ایک مضبوط جسم کے مالک تھے ۔ان کا مضبوط جسم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔کھیل کود سے انہیں کو ئی خاص دلچسپی نہیں تھی البتہ کیمپ میں ہی موجود جم خانے میں وزن اٹھانے کی مشق کو اپنا معمول بنایا تھا۔ان کی شخصی وجاہت بارعب تھی لیکن وہ نرم خو،ملنساراورایک درد دل رکھنے والاانسان تھا۔

سال 1993 ء میں وہ ہجرت کرکے آزاد کشمیر وارد ہوئے۔ ٹھیک ایک برس بعد ان کیساتھ پہلی ملاقات جنگل منگل کیمپ میں ہوئی،ہجرت کے پہلے ایام جو انتہائی کٹھن ہوا کرتے ہیں جب اپنے عزیز و اقارب ،اپنے مسکن اور اپنے وطن سے جدائی کا غم اکثر راتوں کو بیدار ہی رکھتا تھا، نیند آنکھوں سے کوسوں دور بھاگتی ہیں ، کئی ماہ تک ہم اداس اداس ہی رہنے لگےکیونکہ بچھڑے چمن کی یاد بہت زیادہ ستاتی تھی اور جدائی کا یہ زخم تین دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی تازہ ہی ہے۔ عمر فاروق ،امیرکیمپ شہید سلمان صاحب ،شہید خادم حسین ،شہید جمیل احمد میں اور میرا کزن ایک ہی خیمے میں اکٹھے رہا کرتے تھے۔ہمیں اداس دیکھ کر عمر بھائی ہماری حوصلہ افزائی کا سامان کرتے اور بڑے بھائی کی طرح خیال رکھتے، طرح طرح کے لطیفے سنایا کرتے تھے، غرض جس محفل میں بھی بیٹھتے وہ زعفران زار بن جاتی تھی۔وہ کبھی کسی ساتھی کو بور نہیں ہونے دیتے۔بوریت کو ختم کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی نہ کوئی چٹکلا ضرورہوتا تھا ، جسے وہ موقع کی مناسبت سے داغتے تھے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے انہوں نے میرے ساتھ ایک پرینک ( عملی لطیفہ) کیا جو آج تک مجھے یاد ہے،ہم چند ساتھی ایک ساتھ چائے نوش کررہے تھے کہ اچانک میرے فیرن(کشمیری چوغہ) جو میں نے پہن رکھا تھا کے نیچے سے مجھے پائوں پر کسی چیز کا لمس محسوس ہوا میں نےفوراََاپنے ایک ہاتھ سے فیرن کے اندر سے ہی اس کا جائزہ لیا اور اسے پیر کے انگوٹھے سے زور سے دباکر رکھا،محسوس ہوا کہ وہ ایک ربڑ کا بنا مصنوعی سانپ تھا جس سے عمر بھائی نے ہی میرے فیرن کے نیچے بڑی مہارت سے چھپا کر رکھا تھا ،اصل میں وہ مجھےڈرانا چاہتے تھے ،تاکہ میں اچھل کود کروں ، چیخوں چلائوں ۔میں نے انہیں محسوس کیے بغیر آرام سے ربڑ کا سانپ اپنے جسم کیساتھ ہی باندھا اور چائے پینے کے بعد رخصت ہونے لگا ،عمر بھائی اور دوسرے ساتھی مجھے حیرانگی سے گھورتے رہےاور وہ جان چکے تھے کہ ان کی چال ناکام ہوچکی ہے ۔میں نکلنے لگا عمر بھائی کہنے لگے ہم یہ پرینک کئی ساتھیوں کیساتھ کرچکے ہیں لیکن آپ نے ہماری چال ہی الٹ دی لہذٰا ہمارا سانپ ہمیں واپس کردیں۔خیر مجھے وہ نقلی سانپ واپس کرنا پڑا ۔جنگل منگل کیمپ میں مجاہدین کی اچھی خاصی تعداد بیک وقت موجود ہوتی تھی، نظم و نسق اور انتظامی امور نبھانے کیلئے کچھ ساتھیوں کو ذمہ داریاں سونپ دی جاتی تھیں ، عمر بھائی کو شعبہ پانی و بجلی کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ ایک بڑی تعداد میں ساتھیوں کو بر وقت پانی و بجلی فراہم کرنا ، کہیں کوئی ترسیل میں روکاوٹ نہ آئے اس لیے عمر بھائی ہروقت مستعد رہتے تھے۔،سردی ہو یا گرمی ہر موسم میں عمربھائی نماز فجر سے ایک دو گھنٹوں قبل ہی بیدار ہوکر پانی کا بندوبست کرتے تھے۔کیونکہ ساتھیوں کیلئے پانی و بجلی کا انتظام کرنا ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل تھی ۔وہ شعبہ مطبخ کیساتھ بھی کافی عرصے تک وابستہ رہے ۔مظفرآباد کے مرکز میں بھی ناظم مطبخ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بخوب نبھائیں ۔وہ امرواطاعت کا پیکر تھے، اسی لیے تنظیمی قائدین انہیں قدر کی نگاہ سےدیکھتے تھے۔ راولپنڈی میں موجود جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے ایک مرکز میں سیکورٹی کے فرائض بھی کئی برسوں تک انجام دیئے،جماعت کے جتنے بھی پروگرامات ہوا کرتے تھے ، تمام اجتماعات کی سیکورٹی کی ذمہ داری عمر بھائی کے کندھوں پر ہی ڈال دی جاتی ۔انہوں نے کبھی اپنی ڈیوٹی سے پہلو تہی برتی یا شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا ۔جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکز کے پشت پر غربا کی ایک چھوٹی سی بستی خیمہ زن تھی، جس کے شور وشرابے کی آوازیں دفتر جماعت کے مرکزی ہال تک پہنچتی تھیں۔ ہال میں اکثر و بیشتر دروس قرآن کے پروگرامات ہوا کرتے تھے تواس دوران خدشہ رہتا تھا کہیں شور وشرابے کی وجہ سے پروگرام متاثر نہ ہو،لہذٰا عمر بھائی کی ان پروگرامات کے دوران ناظم کی طرف سے خصوصی ہدایات دی جاتی تھی۔ دروس کے دوران کوئی شورشرابہ نہ ہو ۔اس ہدایت پر وہ سختی سے عمل کرکے ذمہ داران سے داد وصول کرتے تھے۔ان کی بعض ادائیں بھی بڑی منفرد تھیں۔یہاں ایک واقع کا ذکر کرتا چلوں ، میں ایک ڈیڑھ برس کے بعد ان سے ملنے گیا۔ میرے ایک کزن شاہد ان کیساتھ ہی رہتے تھے ،عمر بھائی کیساتھ ملاقات سے کچھ ہی دن پہلے میں نے اپنے والد محترم کو خواب میں دیکھا کہ انہیں غسل دیاجارہا ہے ،غسل کے وقت میں نے اپنے والد کا روشن چہرہ دیکھا ،صبح آنکھ کھلی تو اپنے دوست سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا خواب اچھا ہے ۔لیکن مجھے جیسے یقین تھا میرا خواب میرے لیے اشارہ ہے کہ میرے والد اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان دنوں میرا گھر والوں کیساتھ ٹیلی فونک رابطہ نہیں تھا ۔بہرحال میں کیمپ میں عمر بھائی کے پاس پہنچا تو میرے کزن اور عمر نے ملکر میری دعوت کی ، عمر بھائی نے دیسی مرغی کا بھی انتطام کیا جو انہوں نے خود ہی پکایا ، خلاف معمول عمر بھائی اور میرے کزن کے چہرے پر کچھ عجیب قسم کے تاثرات نظر آرہے تھے، لگ رہا تھا جو چہرے مسکراتے ہوئے مل جایا کرتے تھے آج بجھے بجھے سے ہیں۔ کچھ کہہ نہیں پارہے تھے،ان کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن انہیں دقت محسوس ہوری تھی ۔ میں نے استفسار کیا، بھئی کیا ہوا، اس بار آپ کوئی مذاق وغیرہ نہیں کررہے ہیں۔ اتنی سنجیدگی کب سے؟ ان کےچہرے پر سجی مصنوعی مسکراہٹ میں کوئی غم ضرور تھا جو وہ چھا رہے تھے۔کہنے لگے کچھ نہیں آپ کھا نا تناول فرمائیں ۔بہرحال میں نے کھانا کھایا،البتہ ذہن میں دیکھا جانے والا خواب گردش کررہا تھا،کھانےکے بعد میں نے عمر بھائی اور اپنے کزن کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھیں ، میں نے ہی جرأت کر کے اپنے کزن سے پوچھا ، لالہ ٹھیک ہے نا؟۔ میں اپنے کزن کے والد صاحب کو لالہ کے نام سے پکارتا تھا، انہیں اصل واقعہ کہنے کا موقع ملا، جواباََ کہنے لگے لالہ یعنی انکے والد ٹھیک ہیں البتہ آپ کے والد صاحب حبیب اللہ جنہیں وہ (حبہ کاک ) کہا کرتے تھے وفات پاچکے ہیں۔ ہمیں مقبوضہ وادی کشمیر سے کچھ خطوط موصول ہوچکے ہیں۔ ان میں ان کی وفات کا ذکر موجود ہے ،یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا اپنے گھر والوں کیساتھ خط و کتابت کے علاوہ کوئی دوسرے ذرائع سے بشمول مواصلاتی رابطہ نہیں ہوپاتا تھا۔ میں نےعمر بھائی سے پوچھا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ آپ کچھ مجھ سے چھپا رہے تھے ،عمر بھائی کہنے لگے ’’یار ہماری ہمت نہیں ہورہی تھی آپ کو کہنے کی ،دوسرا یہ کہ اگر آپ سے کھانا کھانے سے پہلے ہی بتاتے پھر جو کھانا ہم نے آپ کیلئے تیا رکیا تھا آپ کھانے سے محروم ہوجاتے‘‘۔ان کے سامنے میں نے ضبط ہی کیا لیکن غم کی شدت سے اندر ہی اندر میرا ضبط ٹوٹ رہا تھا ۔13جنوری 2025 بروز سوموار میرا بے حد پیار اور خیال کرنے والا دوست ہم سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا۔ وہ کچھ عرصے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے تھے ،معمول کے چیک اپ کیلئے انہیں ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ وہاں کچھ دن انہیں داخل ہونا پڑا ، وقت مقررتھا اور وہ ہسپتال میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ان اللہ و انا الیہ راجعون ۔ان کیلئے دو جنازوں کا اہتمام کیا گیا ،ان کا پہلا جنازہ خیاباں سرسید جہاں وہ رہائش پذیر تھے، میں برادرم مصعب الحق نے پڑھایا ۔ان کا دوسرا جنازہ کھنہ میں امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین احمد کی امامت میں پڑھا گیا۔ اس موقعہ پر سید صلاح الدین احمد نے شہید عمر فاروق کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’عمر فاروق بھائی نے جہاد کشمیر کے اولین ایام میں اسلام کی سربلندی اور تحریک آزادی کشمیرکی آبیاری کیلئے اپنے وطن سے بیس کیمپ کی طرف ہجرت کی تھی اور پوری زندگی اسی راہ میں گزاری اور آخر پر ہجرت کے راستے میں ہی اس دنیا سے چلے گئے ،وہ ایک باکردار اور بہت ہی محنتی مجاہد تھے ،امر و اطاعت کے پابند تھے ،اللہ تعالی ٰ ان کی شہادت قبول فرمائے اور پسماندگان جن میں ایک بیوہ ،ایک بچی اور دو بیٹے شامل ہیںکو صبر جمیل عطا فرمائیں۔‘‘ عمر بھائی مہاجرت کی زندگی کے دوران بیماری کے نتیجے میں شہید ہوئے،اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند اور انہیں شہادت کا ثواب عطا فرمائیں۔ آمین