
شہزاد منیر احمد
واقفان راز ایسے ہی پاکستان کو مملکت خدا داد کا نام نہیں دیتے۔ اس کے پیچھے ایک تاریخی سچائی ہے
پاکستان ماہ مقدس رمضان المبارک کی 27 ویں تاریخ کو معرض وجود میں آیا تھا
جو قوم اپنے ماضی کو بھول جائے اسے قوموں کی برادری میں وقار سے زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے
انسان کو بتایا گیا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ انہیں برائی اور بے حیائی کی طرف مائل کرتا ہے
جب یہ حقیقت طے ہے کہ اللہ الرحمٰن نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا نہ اس کا کوئی ماں باپ ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے، تو انسان کو یہ فرمان الٰہی،” و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون” (سورت الذاریات آئیت نمبر 56)کو صدق دل سے ماننے میں ذرا تامل نہیں ہونا چاہیے۔۔۔انسان خود کو اس اللہ الصمد جس کے سامنے اسے پیش ہونا بھی طے ہے،تو اس بے نیاز کی عبادت کرنے میں کیوں اتنا متحرک دکھائی نہیں دیتا۔
میری دانست میں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو نہ محویت سے پڑھا نہ سمجھا اور نا ہی اس میعاری خلوص نیت سے اس پر ایمان لائے جس سطح کے ایمان کا تقاضا انسان سے کیا گیا ھے۔ کہ تم خاص اللہ ہی کے ہو کر عبادت کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کتنے ہیں انبیاء دنیا میں بھیجے گئے، صحیفے اور الہامی کتب نازل کی گئیں۔ انسانوں کی تربیت کی گئی۔۔ ان امتوں کی صدیوں پر محیط اللہ الرحمٰن سے آرزوؤں، خواہشات اور دعاؤں کے صلہ میں اللہ رب العالمین نے آخری نبی رسول اللہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب کیا اس پر قرآن مجید نازل کیا اور فرمایا کہ انسان کا تعلیمی نصاب (دین اسلام) مکمل ہو گیا ہے اور ساتھ ہی عملی تربیت کرنے والا رسول اللہ بھی آخری ہے۔ کیونکہ اس کے بعد نہ تو کوئی الہامی کتاب نازل ہو گی اور نہ ہی کوئی نبی دنیا میں آئے گا۔

مذکورہ وسیع دعاؤں کا مختصر مگر انتہائی جامع خلاصہ قرآن کے ابتدائیہ میں شامل ہے جسے” سورۃ فاتحہ ” کا نام دیا گیا ہے۔ سورۃ فاتحہ ایسی زود اثر دعا ہے کہ اس دعا کے آخری لفظ تلاوت کرنے کے ساتھ ہی قبول کر لی جاتی ہے۔ ورق الٹنے کے ساتھ اگلے صفحہ پر آپ کو وہ چیز میسر ہے جس کی آپ کو طلب ہے۔ یعنی آپ نے اللہ سے ہدایت مانگی، تو جواب میں فرمایا یہ لو وہ جامع ہدایت جس میں کوئی شک ہے نہ ابہام۔ اس کتاب میں زمانہ عدم کے انسان کی حیثیت سے لے کر مرنے اور پھر زندہ کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی تفصیلات موجود ہیں۔ اللہ الرحمٰن نے بندے کو بتایا بھی ہے کہ ”
(سورت الانبیاء آیت نمبر 10.) یہ کتاب ہے جس میں آپ کی (بات، یعنی انسان کیا تھا، کیسا ہے اور آئندہ کیا اور کہاں ہوگا) سوانح عمری درج ہے۔ کیا تمہیں عقل نہیں”
مزید اللہ تعالی نے کوہ طور کی قسم کھا کر، بیت المعمور (جو آسمان والوں کا کعبہ ہے) کی قسم کھا کر قیامت کے دن کے قائم ہونے کا بھی مطلع فرمایاہے اور زمین کی زندگی کا انسان سے حساب بھی مانگا جائے گا تو انسان کو اللہ رب العالمین کی اطاعت کرنے اور طاعت رسول اللہ رحمت اللعالمین خاتم الانبیاء سے اعراض سوائے اس کے اور کیا سمجھا جائے کہ وہ حق و صداقت پر یقین نہیں کرتے بلکہ اپنی نرے گمان اور نفس کی خواہشات پر چلنے والے ہیں۔ کیا یہ امر واقعی نہیں ہے کہ حقیقت حال علم و یقین سے معلوم ہوتی ہے نہ کہ وہم و گمان سے۔۔
انسان کو بتایا بھی گیا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ انہیں برائی اور بے حیائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ انسان اپنی خواہشوں کے تابع زندگی گذارنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ شیطان انہیں ان کے سارے غلط کام صحیح بتا کر خوش رکھتا ہے۔ یہی انسان کی سب سے بڑی غلطی، جرم اور گناہ ہے جس کی اسے سزا ملے گی۔ دنیا میں بھی اور آخرت کا دردناک عذاب بھی، جہاں وہ آگ کے بڑے حوض میں بند کیا جائے گا، کھانے کو کانٹے اور پینے کو پیپ دی جائے گی۔
رمضان، ماہ صوم
ماہ رمضان کی عظمت و اہمیت کیا ہے، اس میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، اسے اتنا مقدس مہینہ کیوں کہا گیا یہ راز تو صرف اللہ علیم و خبیر ہی جانتا ہے۔ اللہ الرحمٰن نے ماہ رمضان کو مسلمانوں کیلئے روزہ رکھنے کیلئے کیوں منتخب کیا یہ حقیقت بھی وہی واقف اسرار جانتا ہے۔ ہمیں اللہ کے کریم رسول اللہ خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی ہدایت فرمائی کہ ماہ رمضان کے روزے ہم پر فرض ہیں۔ اللہ الرحمٰن نے لوح محفوظ سے قرآن پاک کو مجھ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ماہ رمضان میں نازل فرمایا۔ اس مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اللہ تعالی نے ایک رات ایسی مقرر کر رکھی ہے جس میں کی جانے والی عبادت کا ثواب ہزار راتوں کی عبادت سے بھی زیادہ مختص ہے۔
رمضان کا نام سنتے ہی سال کے بعد آنے والی اسلامی ثقافت کا منظر نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے جس میں جامع عبادت روزہ ہی مرکز و محور ہوتا ہے۔ دن کے بازار سجتے ہیں تو راتیں معمول سے ہٹ کر روشن ہوتی ہیں۔ ہر سو روح پرور روحانی ماحول نظر آتا ہے۔ بڑے مرد اور عورتیں بچے سب اپنی عبادات اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کو اپنے معمولات میں شامل کر کے تجدید عہد کرتے ہیں۔۔نئے معصوم بچے بچیوں کو اسلامی ثقافت سے متعارف کروایا جاتا ہے۔
روزہ اسلامی عبادات میں اپنے اندر اسلامی معاشرے کیلئے اس قدر وسیع پیمانے کے فیوض و برکات رکھتا ہے کہ اس کا صلہ خصوصی طور پر اللہ الرحمٰن مختص کرتا ہے جس کی مثال دینا انسانی بس میں نہیں۔۔۔ روزہ کی اہمیت اور فضیلت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کی کئی ایسی ناپسندیدہ باتیں اور فیصلے جن کی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سزا مقرر ہے مثلاًعورت کو طلاق دینا، جھوٹی قسم کھانا اور روزہ توڑ دینا وغیرہ وغیرہ، ان کے بدلے وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے ، کفارہ ادا کرے گا تو اللہ اسے معاف فرمائے گا۔ اگر کفارہ ادا نہیں کر سکتا تو پھر زائد روزے رکھے تب بھی اللہ تعالیٰ اس شخص کی توبہ قبول کرکے اسے معاف کر دیتا ہے۔ ۔
قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں فرمایا گیا ہے ” اے ایمان والو تم پر روضے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ” معلوم یہ ہوا کہ زمینی زندگی میں انسان کی ساری سرگرمیوں کی بنیاد ” پرہیز گاری ” ہے۔ جس نے یہ طریقہ اپنایا وہ گویا صراطِ مستقیم پر قائم ہوا۔
چند لفظوں پر مشتمل اس حکم کے ایک ایک لفظ کے معنی، اس کی حکمت، تشریح اور آدمی پر نفسیاتی اور جسمانی صحت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کریم نے اپنے بندوں کی قلبی طمانیت اور کامیاب زمینی زندگی کیلئے روزہ ایک مکمل تربیت اور جامع عبادت کے طور اور تربیت کے لیے فرض کیا ہوا ہے۔
روزہ رکھنے والے پر عام زندگی میں بہت سارے ان پہلوؤں کا بھی انکشاف ہوتا ہے جو عام حالات میں انسانی ذہن و فکر سے اوجھل رہتی ہیں۔ سب سے بڑا علم اور سبق یہ ملتا ہے کہ بھوک و پیاس کی حالت میں آدمی پر کیا گزرتی ہے۔ لطف اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بھوک پیاس ہر شخص پر ایک جیسا اثر کرتی ہے۔اس اعتبار سے یہ بندوں کیلئے براہ راست تربیت کا وسیلہ بنا رکھا ہے کہ وہ یہ جانے کہ معاشرے میں غربت اور مفلسی کی زندگی گزارنے والوں کی حالت و بے بسی کیسی ہوتی ہے۔
یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ بھوکے شخص کو خوراک پانی ملنے پر کتنی خوشی ہوتی ہے۔ اللہ کریم نے اسی لیے بھوکے کو کھانا کھلانے کی خصوصی تلقین کی ہے۔ یوں روزہ دار کے دل میں مفلسوں اور ناداروں کی مدد کرنے کا رجحان و شوق پیدا ہوتا ہے۔
روزہ کی حالت میں روزہ دار خود پر از خود ایسی پابندیاں نافذ کرلیتا ہے جو بغیر روزے کے حلال و احسن شمار ہوتی ہیں۔ مثلاً حلال اشیاء کا کھانا پینا، اور اپنے زوج سے محبت کا اظہار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ گویا روزہ کی حالت میں معمول کی پرہیز گاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس پرہیزگاری اور احتیاط ہی کو تقوی کہا جاتا ہے۔۔جب روزے سے نفس کو حلال مرغوبات سے رکنے کی عادت پڑے گی تو ان مرغوبات، شہوات و خواہشات سے بھی باز رہنے کی عادت پڑ جائے گی جو شرعاً مکروہ اور حرام قرار دی گئی ہیں۔ روزہ میں سب سے بڑی حکمت ہی یہ رکھی گئی ہے کہ نفس کی سرکشی کی اصلاح ہو اورحرام و ناجائز حرکات و اعمال سے بچنے کا عزم و عہد دل میں پکا ہو جائے۔ ذرا سی بھی لغزش کا احتمال ہونے کی صورت میں آدمی ہاتھ اور قدم روک لے۔
روزہ دار خود سے ہی عہد کرتا ہے اور خود ہی کو جواب دہ ہوتا ہے خود ہی گواہ ہوتا ہے کہ وہ روزہ داری کی شرائط پر کس قدر پابند رہا ہے۔ لوگوں سے بات چیت کرنے میں، لین دین میں ناپ تول میں دیانت داری میں،نماز کی ادائیگی میں غیر محرم عورتوں کا سامنا کرنے میں، رزق کمانے میں اور دیگر سرگرمیوں میں۔مہینہ بھر روزے رکھنے کی اس تربیت سے گذرنے کے بعد آدمی میں کافی نفسیاتی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
تاریخ اسلام میں مسلمانوں اور کافروں میں پہلا جنگی معرکہ ” جنگ بدر” بھی ماہ رمضان میں پیش آیا۔ مسلمانوں نے باقاعدہ روزے بھی رکھے، اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کے ساتھ جنگ بھی لڑی اور جیتی بھی۔ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر جنگ لڑنے اور اور اپنا کامیاب کردار ادا کرنے کا سہرا ان مسلمانوں کے سرہے جو ماہ صیام کی موثر تربیت سے گذرنے کے بعد صبرو شکر اور توکل کا پہاڑ بن کر میدان جہاد میں اترے تھے۔
مملکتِ خدا داد پاکستان کا انعام
تحریک آزادی پاکستان در اصل کئی طرح کے خدشات کی آمیزش کا نتیجہ تھی۔ صدیوں بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے اکٹھے رہنے میں مسلمان ہندوؤں کی اکثریت سے کئی بار تعصب کا شکار ہوتے رہے۔ واقفان راز ایسے ہی پاکستان کو مملکت خدا داد کا نام نہیں دیتے۔ اس کے پیچھے ایک تاریخی سچائی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس حقیقت کو جاننا چاہیے، تا کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزوں کی صدیوں پر محیط غلامی کی اذیتوں سے اگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کی ان کوششوں کو بھی جان پائیں جو انہوں نے بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی حاصل کرنے کی خاطر کی تھیں۔جو قوم اپنے ماضی کو بھول جائے اسے قوموں کی برادری میں وقار سے زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ مقابلے کی اس فضا میں قدم قدم پہ غیرت کا موازنہ ہوتا ہے۔ پاکستان ماہ مقدس رمضان المبارک کی 27 ویں تاریخ کو معرض وجود میں آیا تھا۔ مقدس مہینہ، 27 ویں رمضان کی رات جس میں کی جانے والی عبادت کی اہمیت اللہ الرحمٰن کل شئی قدیر کے قریب ہزار مہینوں سے بھی برتر ہے، اس رات کو ہم پاکستانیوں پر اس عظیم روحانی رحمت کا نزول ہونے کے ساتھ ساتھ آزاد وطن کی صورت میں دوسری رحمت نازل کی گئی۔۔
یہ بات کہنے میں جذباتی پہلو کے ساتھ ساتھ ایمانی حرارت کا بھی پہلو عیاں ہے۔ پڑھیں۔
صدیوں پر محیط انگریزوں کی غلامی اور ہندوؤں کی عصبیت مسلمانان ہند کی شناخت تو ختم نہیں کر سکی تھی، (یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دینگے) البتہ انہیں معاشی اور سماجی طور پر اس قدر پسماندہ اور پست بنا کر انتہائی نا مساعد حالات میں پہنچا کر رکھا تھا کہ جینا واقعی دوبھر ہو چکا تھا۔ یاد رہے جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ جمایا اس وقت ہندوستان دنیا بھر میں بہترین معیشت کا حامل بر صغیر تھا
ہندوستان تب سونے کی چڑیا کے نام سے دنیا بھر میں مشہور تھا۔ پوری دنیا کی کل پیداوار میں صرف ہندوستان کا حصہ 27 فیصد ہوتا تھا۔Colonial Powers یعنی نو آبادیاتی طاقتوں،ہالینڈ، پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں نے ہندوستان سے تجارتی روابط قائم کرنے کی کئی برس تک کوششیں کیں مگر انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔آخر کار انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو رابرٹ کلائیو کی سرکردگی میں ہندوستان میں تجارتی رسائی حاصل ہوئی۔
رابرٹ کلائیو ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک کلرک تھا جو اپنی محنت، ذہانت، چالاکیوں اور مکاریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہندوستان میں British Rule انگریزی راج قائم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایک عرصہ کے بعد جب رابرٹ کلائیو واپس انگلستان پہنچا تو اس پر ہندوستان میں بد دیانتی اور حکومت برطانیہ سے غلط بیانیوں کی بنیاد پر بے پناہ دولت اکٹھی کرنے پر مقدمات درج کیے گئے۔ اسے گرفتار کر کے جیل میں بند رکھا گیا،جہاں پر مبینہ طور پر اس نے خود کشی کر لی تھی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل
زمین اپنی ساخت میں بشمول سمندروں کے ایک مکمل اکائی ہے۔بلکل ایسے جیسے اللہ الرحمٰن نے کائنات میں انسان کو ایک جیسی فطرت دے کر پیدا کیا ہے۔ زمین پر آرام و چین کی زندگی گزارنے پر ہدایات کا منبہ بھی سب کیلئے یکساں نازل و نافذ کر رکھا ہے۔ انسان نے اپنی خود سری کرتے ہوئے زمین پر اپنی خواہشات کی دیواریں، کہیں چھوٹی، کہیں درمیانہ بلند کیں اور کہیں فلک بوس عمارتوں سے نہ صرف زمین کا خوبصورت چہرہ مسخ کیا ہوا ہے بلکہ اپنے آپ کو بھی بڑا محدود اور مکروہ کردار بنا رکھا ہے۔ فرمان بردار اور بے فکر زمین پر قسما قسم کی بے چینیاں اور فکر مندیاں بو رکھی ہیں۔
افسوس ہی یہ ہے کہ انسان اتنا بڑا مقدس عرفان، مروت اور اخوت کا سبق لیکر زمین پر اترا تھا مگر اس نے اس راحتوں بھرے پیغام کو بھلا کر نیزے، بھالے، توپ و تفنگ سے زمین کو ہی ٹکڑوں میں نہ صرف بانٹا بلکہ انسانوں کو بھی کئی نسلوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اسی نتیجے میں یہ خطہ ارض جسے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے اس بر صغیر کا حصہ بنا ہوا تھا جسے ہندوستان کہا جاتا تھا۔ یہ غلامی کا دور تھا۔۔
انگریزوں کی غلامی سے اور ہندوستان سے الگ خطہ ارض پر ایک خود مختار ریاست (پاکستان) تشکیل دینے کے مطالبے کے پیچھے آل انڈیا مسلم لیگ کے کئی طرح کے خدشات تھے۔۔یہ خدشات زیادہ تر متعصب ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا کہیں پریشان ہونا، کہیں کسی قانونی حق سے محروم ہونا اور کہیں مذہبی دہشتگردی کا شکار ہونا تھا۔ غرض یہ کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنا قریب قریب نا ممکن بنا دیا گیا تھا۔ چند ایک خدشات کا ذکر پیش کیا جاتا ہے۔
1۔ہندوستان میں مسلمانوں کی نسبت ہندوؤں کی اکثریت تھی۔لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں جمہوری نظام حکومت کے تحت مخلوط انتخابات کی صورت میں ہندوؤں کا اقتدار پر فائز ہونا ایک یقینی امر تھا۔
2 ۔۔ہندو اکثریت کسی سطح پر بھی مسلمان اقلیتوں سے برابری اور انصاف کا سلوک نہیں کرے گی، بلکہ سیاسی اعتبار سے اسے محکوم بنانے کی کوشش کرے گی۔
3 ۔۔معاشی سطح پر مسلمانوں کا استحصال ہوگا۔سماجی، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں ہوں گی۔۔4۔۔ تاریخی پس منظر میں ہر ممکنہ طریقے سے اپنی گزشتہ ہزار سالہ محکومی کا بدلہ لینے اور مسلمانوں سے حساب چکانے کی کوشش کرے گی۔ 5 ۔۔ہندو تعصب، ان کی ذہنیت اور چانکیائی سیاسی نظریات کا برسوں نہیں صدیوں کا تجربہ کرنے کے بعد یہ نظریہ مسلمانوں کے دلوں پر نقش ہو چکا تھا کہ ہندوؤں سے مسلمانوں کے بارے میں کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ 6۔۔1936کے انتخابات میں قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے کہ 1916 کی میثاقِ لکھنؤ والی مسلم اتحاد والی فضا قائم رکھی جائے۔مگر وہی ہوا جس کا گاندھی کی جماعت سے کھٹکا تھا۔ انتخابات جیتنے کی خوشی اور فتح کے غرور میں کانگرس نے آنکھیں بدل لیں۔ مسلم لیگ کے ساتھ کولیشن حکومت بنانے سے انکار کر دیا۔
حکومت میں شمولیت کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ کی منفرد شناخت ختم کرنے کی شرائط رکھ دیں۔ گویا قائد اعظم محمد علی جناح، آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے دیگر دور اندیش اکابرین کے آل انڈیا کانگریس کے منفی رویوں کے بارے میں سارے خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے۔
آل انڈیا کانگریس نے 1936 کے انتخابات جیتنے اور صوبائی حکومت سنبھالنے کے ساتھ۔ اردو زبان کو ختم کر کے ہندی زبان نافظ کر دی۔ سکولوں میں صبح کی دعا کی جگہ وندے ماترم شروع کرا دیا۔ ودیا سکیم جاری کی گئی۔ مدراس میں رکھے گئے گاندھی کے مجسمے کو بھی مسلمان بچوں کو بھی ہاتھ جوڑ کر ادب کرنا پڑتا۔
یہ چند اقدامات وہ ہیں جو مسلمانوں کے خدشات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک قوم بن کر زندہ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن تصور و تجویز تھی۔ اس بگڑتے ہوئے سیاسی ماحول میں قائد اعظم محمد علی جناح نے 5 فروری 1938 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے” اسٹریچی ہال” میں یونین کی طرف سے منعقدہ جلسے میں خطاب کرتے فرمایا:-
” نہیں معلوم اس وقت میری خودداری کو کیا ہو گیا تھا کہ میں کانگرس کے سامنے ہاتھ پھیلایا کرتا تھا۔میں نے اس مسئلے کے حل کیلئے اتنی انتھک اور مسلسل کوششیں کیں کہ ایک روزنامے نے اس پر لکھا، مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے سوال سے کبھی بیزار نہیں ہوتے۔لیکن گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھکا لگا۔ خطرہ نمودار ہوتے ہی ہندو دل و دماغ ہندو جذبات اور ہندو روش نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ بالآخر اتحاد کی توقع ہی اٹھ گئی”
یہ تھے وہ حالات جنہوں نے ہندوستان کے بعد از آزادی کے نقشے کے تصور نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں،” ” ہندو اور مسلمان” کو دو بڑی پارٹیوں، کانگرس اور مسلم لیگ میں تقسیم کر دیا۔
تقسیم ہندوستان 14 اور 15 اگست کو ہی کیوں کی گئی۔ یہ تاریخی اور دلچسپ کہانی ہے۔
مارچ 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند بنا کر اس اختیار کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ وہ ہندوستان کو جون 1948 تک تقسیم کر کے پاور مقامی قائدین، آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو منتقل کر دیں۔ مئی 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن ملکہ برطانیہ اور برطانوی وزیراعظم Lord Clament Attalee سے ضروری صلاح مشورے اور دیگر تفصیلات طے کرنے کے بعد واپس ہندوستان پہنچے۔اسے ہندوستان کو برطانوی راج سے آزادی کا دن مقرر کرنے کیلئے ایک سال کا عرصہ دستیاب تھا۔ لیکن نہ جانے وہ (ماؤنٹ بیٹن) کن یادوں کے سرور میں تھا کہ اسے 15 اگست کی تاریخ یاد آگئی۔

ہوا اصل میں یہ کہ دوسری جنگ عظیم میں 15 اگست 1945 کو جاپان نے برما میں سرنڈر Surrender کیا تھا۔ جن برطانوی افواج کے سامنے ہتھیار پھینکے گئے وہ تب ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن کے زیر کمان تھے۔ 1946 میں اس نے دوسری جنگ عظیم اپنی فتح کی پہلی سالگرہ 15 اگست کو بڑے کر و فر سے منائی تھی۔اب 15 اگست 1947 کو وہ اسی فتح کی دوسری سالگرہ کو اپنی نئی کامیابی (جو حقیقت میں ان کی تذلیل تھی) ہندوستان کی آزادی کو مشترکہ طور پر منانا چاہتا تھا۔ اس نے فوری طور پر احکامات جاری کئیے کہ ہندوستان کا تاریخی یوم آزادی 15 اگست 1947 مقرر ہے۔ اس ضمن میں سب تیاریاں مکمل کی جانی چاہئیں۔ آل انڈیا کانگریس کے قائدین، دیگر سیاسی پنڈتوں اور مذہبی گروہوں نے ماؤنٹ بیٹن کو بتایا کہ 15 اگست 1947 ان کے دھرم کی رو سے ستاروں اور دیگر حوالوں سے ہندوستان کیلئے بد شگونی کا دن ہو گا، اس لیے اسے تبدیل کیا جائے۔ مگر ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن، وائسرائے ہند نے کسی کی نہ سنی۔ اللہ الرحمٰن نے یہ بات اس سختی سے ماؤنٹ بیٹن کے دل میں بٹھا دی کہ اس نے کسی کی کوئی دلیل مشورہ رائے نہ سنی اور اپنے کہے ہوئے الفاظ پر قائم رہا۔ یوں 14 اگست پاکستان کی آزادی کا دن مقرر ہوا۔
قارئین سوچیں ذرا اگر 14 اگست پاکستان کا آزادی کا دن مقرر نہ ہوتا تو وہ 27 ویں رمضان المبارک نہیں ہونا تھی۔ میری دانست میں ؟ چونکہ یہ مقدس دن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی آزادی کیلئے مختص کر دیا ہوا تھا اس لیے مقتدر شخصیات اور حلقوں نے بغیر کسی اور وجہ کے 15 اگست ہندوستان کی آزادی کیلئے مقرر کیا۔ اسی لیے پاکستان کو مملکت خداد داد کہا جاتا ہے ۔
وللہ اعلم بالصواب۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں