
محمد فاروق رحمانی
پاکستان نے اپنی ”منفرد ” 100 سالہ قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ انگریزی کی اصطلاح میں اس کو نیشنل سکیورٹی پالیسی کہا گیا ہے۔ یہ پالیسی فوج اور سول حکومت نے ایک صفحے پر رہ کر مرتب کی ہے۔ بقول پالیسی ترجمانوں پاکستان کا بنیادی اور اصلی نصب العین ملک کی اقتصادی ترقی ہے، لیکن اس کے لئے ملکی سکیورٹی اہم ترین ہے اور اندرونی اور بیرونی امن و امان کے بغیر اس کا حصول ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پالیسی پبلک سنٹرک ہوگی۔ لیکن الجزیرہ انگلش نے مشیر سلامتی ڈاکٹر معید سے ایک پروگرام میں پوچھا کہ شہریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کس طرح اس سے بہرہ مند ہوگی، جبکہ اس کا ایک حصہ عوام سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جبکہ یہ پالیسی دستاویز انگریزی میں تحریر کی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں عوام کی رسائی نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر معید سے ان سوالات کا تسلی بخش جواب بن نہ پایا۔ اگرچہ وہ روانی سے انگریزی بولتے ہوئے کمپیئر کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس قومی سلامتی پالیسی سے جنوری 2022 میں قوم نظر نواز ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقاء کار اور معاونین اس کو اپنے قومی، علاقائی اور عالمی ویژن ہم آہنگ قرار دیتے ہیں۔ اس میں ہندوستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے۔حالانکہ کوئی جنگ اور دہشتگردی سے مسائل کا حل نہیں چاہتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ یقین دہانی کس کو اور کس لئے دی جارہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیاگیا ہے کہ یہ بات کشمیر پالیسی سے متصادم نہیں ہوگی۔ کیا کشمیر پالیسی اس سے مختلف ہوگی؟ کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی، اقتصادی ترقی اور دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کا نام ہے یعنی موقعہ بموقعہ مسئلہ کشمیر کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی آزادی یا مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل کا سوال اسی فارین پالیسی میں بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور کشمیریوں کے سیاسی مقام پر پہلی ضرب سلامتی کونسل نے لگائی تھی، جس نے کشمیریوں کے اختیارات کو محدود کردیا تھا۔اور ہندوستان اور پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ ان کو رائے شماری کا حق دیں، کشمیریوں کے پاس کوئی اختیار نہیں رکھا اور وہ صرف آسمانوں کے تارے گننے پر رکھے گئے، یہاں تک کہ ہندوستان نے اپنی بے محابا فوجی طاقت بڑھا کر ریاست کو باشندگان وطن کے خلاف ایک خطرناک سکیورٹی ریاست میں تبدیل کردیا۔ 1965 اور 1971 میں خود دونوں ملکوں نے معاہدے کرکے، اس کو دوطرفہ سرحدی جھگڑا بنا یا اور سلامتی کونسل کی رائے شماری کی قرارداد وں کو طاق نسیاں کردیا۔ کیاکشمیری انسان نہیں، بھیڑ بکریاں ہیں، جن کی حفاظت کے لئے گلہ بان ہیں، جو انہیں بھیڑیوں سے بچاتے رہیں گے۔ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی ایک اہم مرحلے پر اس صحیح یا غلط تصور یا خدشے کو رفع کرنے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ حق خودارادیت اور کشمیریوں کی تاریخی فریقانہ حیثیت کا اس دستاویز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ اس قوم کو حق خودارادیت بے کم و کاست دیا جائے، مذاکرات میں اسے شامل کیا جائے، اس کی پرانی سرحدوں کو بحال اور فعال کیا جائے اور کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہ کیا جائے۔ اگر ہندوستان اور پاکستان اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں یا اگر ہندوستان کے استعماری عزائم اس راہ میں حائل ہیں تو کشمیریوں کے ساتھ مشاورت کرکے قابل عمل لائحہ عمل تلاش کیا جائے لیکن کسی بھی قیمت پر کشمیریوں کو ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔ کشمیری ہی سر زمین کشمیر کے مالک ہیں، کوئی ان کو فروخت نہیں کرسکتااور نہ ہی تقسیم کر سکتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کشمیریوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور ان کے مطالبہ آزادی میں شدت پیدا ہورہی ہے۔ پاکستان ابتدا سے ہی حق خودارادیت اور رائے شماری کا ترجمان اور عالمی وکیل رہا ہے۔ اس لئے قومی سلامتی پالیسی پیپر میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ذکر نہ ہونا حیران کن اور خطرناک ہے۔ پھر اس کو قومی سکیورٹی پالیسی کا نام دینا کیا معنی رکھتا ہے؟پاکستان کو کس سے خطرہ ہے۔ ہندوستان سے خطرہ ہے تو کیا اس کی بنیاد کشمیر نہیں ہے؟ ہندوستان نے 5 اگست 2019 سے کشمیر میں جو جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے، اس کا کوئی عکس اس قومی سکیورٹی پالیسی پیپر پرنہیں پڑاہے۔ پاکستان اقتصادی ترقی کو بظاہر اس پالیسی کے ذریعے سے آگے لینا چاہتاہے، لیکن ہندوستان کشمیر میں عالمی سطح پر ایسے دور رس اقدامات کر رہا ہے، جن سے پاکستان کی پالیسی دھندلانے میں کوئی دیر نہیں ہوگی۔ ہندوستان کشمیر ی عوام کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت پر ضرب لگا رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کشمیریوں میں ایسی ذہنی اور فکری قوت ہے کہ وہ از خود اپنی صلاحیتوں سے کشمیر میں تعلیم، صحت اور تجارت و صنعت و حرفت کے بڑے بڑے ادارے قائم کرسکتے ہیں اور وہ آزادی کی صورت میں از خود عربوں اور خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری کے لئے میدان اور مواقع فراہم کریں گے۔ ہندوستان، کشمیر پالیسی کے تحت پاکستان کو بھی مات کرنے میں سرگرم ہے لیکن پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی دستاویز اس کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملک کی قومی سلامتی پالیسی بنانے والوں کا فرض ہے کہ وہ ان سوالات سے صرف نظر نہ کریں اور کشمیری قوم کے کرب اور مسائل اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ ہندوستان نے 5 اگست کے اقدامات سے کشمیر کا وجود مٹانے کی احمقانہ کو شش کی ہے اور تاریخ کے اوراق جلائے ہیں۔ اور سلامتی کونسل کے کئی اجلاس بھی مضحکہ بنائے۔ اگر آپ اس نیم سوختہ تاریخ کے اوراق کو بھی اپنی قومی پالیسی دستاویز میں شمار نہیں کرسکتے ہیں، تو کیا کریں گے۔ وقت کے سوال کا جواب دینا پڑے گا۔ کشمیری قوم کو اپنی تاریخ آپ لکھنے سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکے گا
٭٭٭