معروف کشمیری صحافی،محقق اورمصنف سید عارف بہار نے ایک خوفناک صورتحال کی طرف توجہ دلائی ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر ایسے ہی معاملات چلتے رہے تو اس خطے میں،پاکستان کے بالکل پہلو میں ایک اور اسرائیل جنم لیتا ہوا نظر آرہا ہے ۔لکھتے ہیں کہ مصدقہ اطلاعات ہیں بھارتی حکومت نوے کی دہائی میں مسلح تحریک سے وابستہ ہوکر آزادکشمیر منتقل ہونے یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر نقل مکانی کرنے والے ان تمام افراد کی فروخت شدہ جائیدادوں کو سرکاری کنٹرول میں لینے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔نوے کی دہائی میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقوں سے ہزاروں افراد آزادکشمیر منتقل ہوئے اور ان میں اکثر یہیں آباد ہو کر رہ گئے۔جس کے بعد ان لوگوں نے مقبوضہ علاقے میں اپنی جائیدادوں کو فروخت کرکے رقم آزادکشمیر اور پاکستان منتقل کرکے نئے آشیاں آباد کرنے کا راستہ اختیار کیا۔اب بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے الزام عائد کیا ہے کہ ایسی بہت سی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقم مقبوضہ علاقے میں ہی شدت پسندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوئی۔بھارتی حکومت نے ایسی فروخت شدہ جائیدادوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے ساتھ ہی اس طرح کی خرید وفروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے اس حوالے سے کئی جائیدادوں کی تفصیل بھی سامنے لائی ہے۔یوں لگتا ہے کہ پہلے مرحلے پر جائیدادوں کی فروخت کے بعد رقم مسلح سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کے نام پر شروع ہونے والی کاروائی کے بعد اس کا دائرہ نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کی فروخت کی جانے والی جائیدادوں تک بڑھا جائے گا کیونکہ اصل مقصد کشمیر کی زیادہ سے زیادہ اراضی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کا فیصلہ بھارت نے بے سبب اور الل ٹپ نہیں کیا تھا۔اس فیصلے کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور حالات پر اپنی گرفت قائم کرنے میں ناکامی کے طویل سلسلے تھے۔بھارت نے کشمیر میں حالات اور عوامی جذبات کے دھارے کو اپنے حق میں کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ اب اس مسئلے کا حل اسرائیل اور فلسطین طرز پر ہی نکالاجاسکتا ہے۔نوے کی دہائی کے اوائل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے اسرائیل کے دورے کرکے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا گہرا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔اسی دور میں بھارت کے ریاستی سطح پر اسرائیل کے ساتھ درپردہ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی چلی گئی۔جس کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن پر حفاظت اور چوکسی کا وہی نظام اپنایا شروع کیا جو اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں اور دوسرے سرحدی علاقوں میں زیر استعمال تھا۔کنٹرول لائن پر باڑھ کا تصور بھی فلسطین کی سرزمین پر چنی جانے والی اونچی دیواروں سے لیا گیا تھا۔پانچ اگست 2019کے فیصلے سے کشمیر کی شناخت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کشمیرکی شناخت کی حفاظت کرنے والے ڈھانچہ بھی خس وخاشاک کی مانند بہہ گیا۔جموں وکشمیر کی مقامی حکومت،اسمبلی،قوانین سب کچھ اس طاقت کی لہر میں بہہ گیا۔اب بھارت اس بات کا پابند نہیں رہا کہ اسے کشمیر کے حوالے سے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے کشمیر کی اسمبلی آئین اور حکومت کی توثیق کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ان تمام رکاوٹوں کے ختم ہونے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کی زمینوں کو ہتھیانے کا ایک عمل بہت سرعت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔گوکہ ابھی بھارت کے بڑے بزنس تائیکون ٹاٹا،برلا،ہیرو،ہندوجا گروپ جیسے سرمایہ داروں نے براہ راست کشمیر کی زمینیں خریدنے کے لئے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی مگر پہلے مرحلے پر بھارتی حکومت کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ زمینوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت جب کشمیریوں کی زمینوں کی قانونی مالک ومختار بن جائے تو وہ بلاروک ٹوک اس زمین کر بھارت کے بڑے کاروباری گروپس کو لیز پر دے گی۔یہ کاروباری گروپ صرف سرمایہ کاری نہیں کریں بلکہ بھارت کے مختلف علاقوں سے عملہ بھی بھرتی کریں گے اور یوں کشمیر کے فلسطین بننے کا عمل باقاعدہ زمین پر نظر آنے لگے گا۔سردست خالصہ سرکار،جنگلات،سیاحت،محفوظ گاہ چرائی کے نام پر وسیع وعریض رقبے حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔کشمیری پنڈتوں اور مختلف ادوار میں جموں وکشمیر سے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی جائیدادیں بھی متروکہ املاک کے طور پر حکومت کے تصرف میں ہیں۔حکومت پاکستان کو اپنے پہلو میں ایک ڈوبتے ہوئے”فلسطین“کی بھی کچھ خبر رکھنی چاہئے جو قطرہ قطرہ زہر پینے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں جن کے پیروں کے نیچے سے گزوں،کنالوں اور ایکڑوں میں جیسے بھی داؤ لگے زمین چرائی اور ہتھیائی جا رہی ہے۔
٭٭٭