پاک بھارت تعلقات کا نیا موڑ

غلام اللہ کیانی

میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے مخلوط حکومت میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی مبارکباد دینے والوں میں چین، سعودی عرب،قطر اور ترکی سمیت جن ممالک کے حکمرانوں نے پہل کی ان میں بھارت بھی شامل ہے۔مگر مسئلہ کشمیر حل کرنے میں عدم تعاون اور کشمیریوں کی نسل کشی کی وجہ سے بھارت کے ساتھ پاکستان کی دوستی اور تجارت رکاوٹوں کی شکار ہے۔ اس وجہ سے دونوں ممالک میں مذاکرات کے دوران بھی کشیدگی موجود رہتی ہے۔ دونوں کے درمیان اعتماد کا بڑا فقدان ہے۔ایٹمی پڑوسی ممالک کی دشمنی اور دوری نے جہاں بھارت میں جن سنگھی ووٹ بینک میں اضافہ کیا ہے وہیں شدت پسند نریندر مودی اور بی جے پی کو اسلام اور پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیل کر نئی دہلی اور صوبوں میں بر سراقتدار آنے کی آکسیجن مل گئی۔

میاں شہباز شریف نے نریندر مودی کو جوابی خط میں جموں و کشمیر کے تنازع کوحل کرنے کی خواہش ظاہر کی تا کہ خطے میں امن و استحکام ہو۔ مسئلہ کشمیر سمیت دونوں ممالک کے تمام تنازعات بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی حل کئے جا سکتے ہیں۔وزیر اعظم شہبازشریف نے خط میں لکھا کہ پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے پر عزم ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ہماری کوششوں کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ عوام کی ترقی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان پر امن اور تعاون پر مبنی تعلقات ناگزیر ہیں۔وزیر اعظم نے بھارتی ہم منصب پر زور دیا کہ آئیے امن کو محفوظ بنائیں اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم منتخب ہونے پر نیک خواہشات کے اظہار پر بھارتی وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں شہباز شریف کو مبارکباد دی تھی۔جس میں کہا گیا کہ ہندوستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔وزیر اعظم شہباز نے بھی ٹوئٹر پر اس پیغام کا جواب دیا تھا۔

بھارت اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ ریاست کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم کی جا رہی ہے۔ آزادی پسندوں کو پابند سلاسل بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں کشمیری اس وقت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ تحریک آزادی سے وابستگی کے الزام میں مسلمان ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ میڈیا پر قدغنیں اور پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ کئی صحافی بھی جیلوں میں ہیں۔ کشمیریوں کی آواز کو خاموش کیا گیا ہے۔ بدنام زمانہ ایجنسیاں گھروں پر چھاپے مار رہی ہیں۔ نوجوانوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ اس دوران لیفٹیننٹ جنرل منوج پانڈے یکم مئی سے 29 ویں آرمی چیف کی حیثیت سے بھارتی فوج کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔وہ اس سے پہلے فوج کے نائب سربراہ تھے۔ وہ 13 لاکھ کی بھارتی فوج کے پہلے سربراہ ہیں جن کا تعلق انجینئرنگ کور سے ہے۔اس سے پہلے انفنٹری، آرٹلری اور آرمرڈ رجمنٹ کے افسر اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل منوج پانڈے اس سے پہلے مشرقی کمان کے کمانڈر تھے۔ وہ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) کھڈکواسلا اور انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) دہرادون کے فارغ التحصیل ہیں۔وہ آئی ایم اے سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد انجینئرنگ کور کا حصہ بنے جسے ممبئی سیپرز کہا جاتا ہے۔وہ مغربی علاقے میں انجینئر بریگیڈ، مقبوضہ کشمیر کی سیز فائر لائن کے ساتھ انفنٹری بریگیڈ،مقبوضہ لداخ سیکٹر میں پہاڑی ڈویژن اور شمال مشرق میں ایک کور کی کمان کر چکے ہیں۔اس لئے نئے بھارتی چیف لداخ سیکٹر میں قابض فوج کی چین کے ساتھ لگنے والے سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر کشیدگی والے مقامات وادی گلوان، پنگونگ تسو اور گوگرہ میں سرگرمی دکھا سکتے ہیں جہاں تین بار فوجیں پیچھے ہٹانے کے باوجود دونوں ملکوں کی 50 سے 60 ہزار فوج موجود ہے۔بھارت نے لداخ میں بھاری ہتھیار جمع کئے ہیں۔ دونوں ملکوں کی فوج میں مذاکرات کے 15 دور ہو چکے ہیں مگر کشیدگی اب بھی موجود ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنرل پانڈے ایک ایسے وقت پر بھارتی فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا جب بھارت مستقبل کی جنگوں اور کارروائیوں کے لیے تینوں مسلح افواج کے وسائل منظم طریقے سے استعمال کرنے کے لئے ایک کمان کے نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے بھارت کی فوجی تیاریوں پرمنفی اثرات ہوں گے۔اس قابض اور جارحیت پسند ملک کے فوجی سازوسامان کا دو تہائی حصہ سابق سوویت یونین اور روس کا ہے۔ یوکرین میں جنگ کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے روس پر لگائی گئی وسیع پابندیوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں نے بھارت اور روس کے دفاعی تعلقات کے لیے نئے مسائل پیدا کئے ہیں۔اس صورت حال نے بھارت کی فوجی تیاری کو متاثر کیاہے اور جنگ کے لیے تیار رہنے کے لیے درآمدی اسلحے پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نئی فوجی سربراہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی کارروائیوں کے بارے میں اپنی حکمت عملی وضح کریں گے مگر تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ کشمیری قابض فوج سے صرف جارحیت کی ہی توقع رکھ سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سرینگر میں کشمیر یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر کو ایک آن لائن میگزین میں مضمون لکھنے پر گرفتار کیا گیا۔ عبداعلیٰ فاضلی کو سرینگر میں ان کی ہمہامہ رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ فاضلی اور ماہانہ ڈیجیٹل میگزین ‘دی کشمیر والا‘ کے ایڈیٹر اور دیگر ساتھیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے کالے قانون اوربدنام زمانہ آئی پی سی کی مختلف عوام دشمن دفعات کے تحت ایف آئی آر ک درج کی گئی۔ راجباغ میں ’دی کشمیر والا‘ کے دفتر اور ہمہامہ میں فاضلی کی رہائش گاہوں پرچھاپے مارے گئے اور صورہ میں گرفتار ایڈیٹر فہد شاہ کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی۔تلاشی ٹیموں نے کمپیوٹر، لیپ ٹاپس اور دیگر ڈیجیٹل آلات ضبط کئے۔ فاضلی کا مضمون، جس کا عنوان”غلامی کی بیڑیاں ٹوٹیں گی“ کوانتہائی اشتعال انگیز، فتنہ انگیز اور جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے والا قرار دیا گیا۔جب بھی کوئی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتا ہے تواس پر نوجوانوں کو دہشت گردی اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔آزاد میڈیا کا بھارت نے گلا گھونٹ رکھا ہے۔میڈیا پر علیحدگی پسند اور دہشت گردی، ہندوستان کی علاقائی سالمیت کو توڑکا الزام لگایا جا رہا ہے۔بھارتی میڈیا بھی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ مسلمانوں پر مظالم اور ریاستی دہشتگردی خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔

پاک بھارت کشیدگی کے دوران مسلمانوں پر مظالم تیز کئے گئے ہیں۔ جن سنگھی اور فسطائی سرکار نے بی جے پی حکمرانی والی بھارتی ریاستوں میں جرائم کی روک تھام کی آڑمیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو تباہ وبربادکردینے کی غرض سے بلڈوزرکی خطرناک سیاست شروع کر دی ہے۔ مسلم کش فسادات ہوتے ہیں تو انتقام بھی مسلمانوں سے لیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں اور بازاروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔جمعیت علمائے ہندنے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔مگر مسلمانوں کے گھر اور دکانیں ماورائے عدالت مسمار کئے جا رہے ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی بڑی پیمانے پر خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے۔ان خلاف ورزیوں میں حکومتی ایجنٹس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل، مسلمانوں پر تشدد اور حکومتی اور غیر حکومتی قوتوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ ریاست کرناٹک میں اسکولوں کی طالبات پر حجاب پہننے پر پابندی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔حیرت ہے کہ کرناٹک کے ہائی کورٹ نے اس پابندی کو برقرار رکھا۔رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے کہا گیا کہ انہیں بھارت کے بعض حصوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔کچھ علاقوں میں مسلم برادری فرقہ ورانہ اور متعصبانہ تشدد کا شکار ہے۔ مسلمان برداری کے خلاف جسمانی استحصال، تعصب، زبردستی نقل مکانی اور گائے کی اسمگلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے تشدد جاری رہا۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق انہیں بھارت میں بڑے پیمانے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جس میں غیر قانونی اور من مانے قتل، حکومت یا اس کے ایجنٹوں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل، تشدد اور پولیس اور جیل کے اہلکاروں کے ظالمانہ، غیر انسانی، یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کے مقدمات شامل ہیں۔بھارت میں تشدد کی دھمکیاں، یا صحافیوں کے خلاف بلاجواز گرفتاریاں یا مقدمہ چلانا، سوشل میڈیا کی تقریر پر مقدمہ چلانے کے لیے مجرمانہ توہین کے قوانین کا استعمال کرنا عام ہے، آزادی اظہار رائے اور میڈیا سمیت انٹرنیٹ کی آزادی پر پاپندی عائد ہے۔بھارت میں غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی فنڈنگ، یا آپریشنز اور پناہ گزینوں کی بحالی پر حد سے زیادہ سخت قوانین نافذ ہیں۔رپورٹ میں سنگین حکومتی بدعنوانی، ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو حکومتی طور پر ہراساں کرنے کا ذکر ہے۔ان امریکی حقائق کے دوران برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن 21 اور 22 اپریل کو ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں۔ وہ 22 اپریل کو مودی کے ساتھ ملاقات کریں گے اور روڈ میپ 2030 پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کریں گے۔ وہ باہمی دلچسپی کے مختلف علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔مسٹر جانسن نئی دہلی میں سرکاری تقریبات میں شرکت کے علاوہ 21 اپریل کو گجرات کا دورہ بھی کریں گے جہاں نریندر مودی نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے قاتل مودی کو پھانسی دینے کے بجائے وزیر اعلیٰ کے بعد ملک کا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔میاں شہباز شریف برطانیہ کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کر سکتے ہیں۔تا ہم شہباز شریف کی زیر قیادت مخلوط حکومت کو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، مظالم اور کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی تعلقات کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک مودی، بی جے پی پاکستان اور اسلام دشمنی کا کارڈکھیلتی رہے گی اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان نتیجہ خیز بات چیت شروع کرنا کافی مشکل ہو گا۔ یہ بات شروع ہو بھی جائے تو دوطرفہ مذاکرات کبھی بھی مثبت نتائج برآمد نہ کر سکے۔بھارت پر دباؤ بڑھانے کے سفارتی، سیاسی، معاشی اور عسکری اقدامات ہی کشمیریوں کو ریلیف پہنچانے میں معاون بن سکتے ہیں۔

غلام اللہ کیانی مقبوضہ کشمیر کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں