پروفیسرخورشید احمد۔۔۔اہل کشمیر کے پشتیبان وامت کے پاسباں

عبدالرشید ترابی

سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان

سید علی گیلانی ؒجرأت واستقامت کا ایک استعارہ اور تحریک آزادی کشمیرکے روح رواں تھے
پروفیسر صاحب ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے

پروفیسر صاحب ؒمقبوضہ کشمیر میں تحریک کی تقویت اور ملت اسلامیہ کی بقا اور تحفظ کیلئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے

پروفیسر صاحب مرحوم اول روز ہی سے مسئلہ کشمیر کو اپنی علمی اور فکری ترجیحات میں سرفہرست سمجھتے تھے

پاکستان کے ہر مسئلے پر جہاں سینیٹ میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا وہیں مسئلہ کشمیر پر بھی انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا

پروفیسر صاحب ؒ کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام تھا اور علمی حلقوں میں تمام مسلم دنیا میں پروفیسر صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت تھے

پروفیسر صاحب ؒ۔۔سید علی گیلانیؒ سے لیکر سید صلاح الدین احمد تک تمام مزاحمتی کشمیری قیادت کا بے پناہ احترام کرتے تھے

وہ ہمارے رہنما ، قائد اور مربی بھی تھے اور ذاتی طور پر ایک شفیق والد کی طرح ان کی شفقت ہمیں حاصل تھی

پروفیسر خورشید احمد صاحب مرحوم سے تعارف تو اسی وقت ہو گیا تھا جب اسلامی جمعیت طلبہ کی وساطت سے تحریک اسلامی سے تعارف ہوا لیکن یہ تعلق اس وقت گہرائی سے استوار ہوا جب اسلام آباد میں انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز IPS کے نام سے ایک نامور تھنک ٹینک کا آغاز کیا ۔اس کے انتظامی امور کے ذمہ داران میں عبدالملک مجاہد، جناب خالد رحمان، راؤ محمد اختر اسلامی جمعیت طلبہ کے دور سے ہمارے قائدین رہے جن سے ایک عقیدت کا تعلق تھا ،چنانچہ تحریک اسلامی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنے ان قائدین سے مشاورت کا عمل جاری رہتا اور انہی کی وساطت سے وقتا فوقتا پروفیسر صاحب سے بھی ملاقاتوں اور نیاز مندی کا تعلق استوار ہوا ۔یہ 1980 کی دہائی کا اوائل تھا جب جہاد افغانستان کامیابی کی طرف بڑی تیزی سےبڑھ رہا تھا اور اس کے اثرات ساری مسلم دنیا کے نوجوانوں پر مرتب ہو رہے تھے۔ بیس کیمپ کی تحریک کے حوالے سے تحریک آزادی کشمیر اسلامی تحریک کی اولین ترجیح رہی ہے چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ اور نوجوانوں کی آگہی کیلئے بڑے بڑے پروگرامز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا اور نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر فکری طور پر منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ہر قدم پر پروفیسر صاحب مرحوم کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی ۔آزاد جموں وکشمیر میں تحریک اسلامی کی تقویت کیلئے انہوں نے ممکنہ تعاون کا اہتمام کیا اسی عرصے میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے مولانا سعد الدین صاحب مرحوم تشریف لائے ۔ان کے دورے سے پہلے آزاد کشمیر جماعت کے بانی امیر مولانا عبدالباری صاحب مرحوم جن کا اپنا تعلق بھی مقبوضہ جموں و کشمیر سے تھا اپنے اہل خانہ سے ملنے کیلئے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا لیکن دورے کے دوران ہی انہیں ناپسندیدہ فرد قرار دیکر ہمسفر عزیزوں سمیت ڈیپورٹ کر دیا گیا ۔یہ براہ راست مقبوضہ ریاست سے ذمہ دارانہ سطح پر اولین رابطہ تھا جس کے پس منظر میں مولانا سعد الدین صاحب مرحوم مقبوضہ کشمیر سے تشریف لائے اور ایک طویل مشاورت کا عمل شروع ہوا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر کے خلاف نوجوانوں میں حریت اور آزادی کے جو جذبات کار فرما ہیں انہیں کیسے منظم کیا جائے تاکہ بھارتی استعماری ہتھکنڈوں سے ملت اسلامیہ کو محفوظ کیا جا سکے۔ اس حوالے سے پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں اس امر پر اتفاق ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اپنے دعوتی و تربیتی کام پر توجہ رکھے اور کوئی بڑی تحریک برپا کرنے سے پہلے سفارتی محاذ پر اس مسئلے کواجاگر کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اس سلسلے میں تحریک کشمیر کے نام سے برطانیہ میں کشمیری عوام کو منظم کرنے کیلئے ایک غیر متنازع پلیٹ فارم مولانا منور حسین مشہدی کی قیادت میں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشہدی صاحب مرحوم نے پورے برطانیہ میں تحریک منظم کرنے میں شب وروز ایک کئے۔ ان کے بعد برادر محمد غالب اور برادر فہیم کیانی ، محمود شریف اور ان کی ٹیم بر طانیہ اور یورپ میں تحریک کو وسعت دینے میں شب وروز ایک کیے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج نذیر احمد قریشی، مزمل ایوب ٹھوکر، شائستہ صفی اور ظفر قریشی بھارتی پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے قابل رشک کردار ادا کررہے ہیں پروفیسر نذیر احمد شال اور بیگم شمیم شال نے بھی بھرپور کردار ادا کیا پروفیسرشال مرحوم تا دم واپسیں ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی خرم مراد صاحب مرحوم رحمت اللہ علیہ جو اس وقت اسلامی فاؤنڈیشن لیسٹربرظانیہ میں ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے کی قیادت میں ایک کشمیر ریسرچ سینٹرقائم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا، جس میں مقبوضہ کشمیر سے جناب ایڈوکیٹ حسام الدین اور آزاد کشمیر سے ایڈوکیٹ سردار اعجاز افضل خان کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔حسام الدین صاحب تو تشریف لے آئے اور انہوں نے وہاں کام شروع کر دیا لیکن سردار اعجاز افضل خان باوجوہ اس پروجیکٹ کو جائن نہ کر سکے۔ یوں سفارتی اور علمی سطح پرساتھ ساتھ کام شروع ہوا اور منظم طور پر عوامی اجتماعات اور کانفرنسز کا اہتمام ہوا۔80 کی دہائی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کرنل عبدالرشید عباسی مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم اور کے ایچ خورشید مرحوم سمیت اس وقت کی ساری کشمیری قیادت نے شرکت کی ۔ یوں ایک طویل عرصے بعد مسئلہ کشمیر پر پہلی ایسی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دونوں حصوں کے ریاستی قائدین نے ایک جامع ڈیکلریشن منظور کیا اور ایک کل جماعتی رابطہ کونسل قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو آج بھی فعال ہے ۔ اسی عرصے میں افغان جہاد عروج پہ پہنچا اور سابقہ سوویت یونین کی پسپائی کا عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں نئے امکانات پیدا ہوئے ۔اس عمل نے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے جذبات کو جلا بخشی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس طرح پوری دنیا سے جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان افغان جہاد میں شرکت کو ایک سعادت سمجھتے تھے اسی طرح کشمیری نوجوان بھی جوق در جوق اس میں شامل اور منظم ہوتے رہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے قائدین سے مزید صلاح مشورے کا عمل بھی جاری رہا۔ نیپال ہو سعودی عرب ہو قطر ہو انگلینڈ ہو اور دوسرے مقامات پر یہ مشاورتی اجتماعات منعقد ہوتے رہے جن کی سرپرستی پروفیسر خورشید احمد صاحب ہی فرماتے رہے ۔ان اجتماعات میں مرحوم قائد حریت سید علی گیلانی سمیت دیگر زعما بھی شریک ہوتے رہے ۔سید علی گیلانی مرحوم جرأت واستقامت کا ایک استعارہ اور تحریک آزادی کشمیرکے روح رواں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی را ئے کا احترام بھی کرتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک کی تقویت اور ملت اسلامیہ کی بقا اور تحفظ کیلئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ الحمدللہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط یہ سفر انہی کی سرپرستی اور قیادت میں طے ہوا اور میں اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک کارکن کی حیثیت سے مجھے بھی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ پروفیسر صاحب مرحوم اول روز ہی سے مسئلہ کشمیر کو اپنی علمی اور فکری ترجیحات میں سرفہرست سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کراچی کے ادارہ معارف اسلامی کے سربراہ تھے ۔ممتاز سکالر ڈاکٹر ممتاز احمد کو یہ فریضہ تفویض کیا کہ مسئلہ کشمیر پر ایک ایسی جامع کتاب تالیف کی جائے جو اس مسئلے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہو۔ ڈاکٹر ممتاز صاحب مرحوم نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ایک نہایت ہی جامع تصنیف تخلیق کی جس کا دیباچہ سید ابو الاعلی مودودی علیہ رحمہ نے تحریر کیا ۔اسی طرح علمی اور فکری ساری جہتوں میں ہمیشہ پروفیسر صاحب مرحوم اس مسئلے کی اہمیت اجاگر کرتے رہے چنانچہ اسی کی دہائی کے بعد کے سارے مراحل میں وہ اس عظیم جدوجہد میں ایک رہنما اور مربی کا کردار ادا کرتے رہے ۔اس سلسلے میں انہیں مرحوم قاضی حسین صاحب اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تحریکی قائدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا۔ پروفیسر صاحب کی رائے اور رہنمائی کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے نامور سکالرز ڈاکٹر غلام نبی فائی، مرحوم حسام الدین ایڈوکیٹ، مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھوکر، نزیر احمد قریشی اور دوسرے احباب بیرون ملک منتقل ہوئے، خلیجی ممالک ہوں امریکہ یا برطانیہ اور یورپ ان محاذوں پر ان رہنماؤں نے سفارتی محا ذ پر انتھک جدوجہد کی اور مختلف ادارے اور تھنک ٹینکس قائم کیے۔ بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کیں اور عالمی سطح پر رائے عامہ منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ان کی سربراہی میں قائم نامور تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ اف پالیسی سٹڈیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سیمینارز اور کانفرنسز کے انعقاد کے علاوہ سکالرز نے بھارتی مظالم اجاگر کرنے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدوجہد کو حقیقی تناظر میں بھرپور طور پر اجاگر کیا۔ پروفیسر صاحب کے تعزیتی ریفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شیرین مزاری نے بجا طور پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ آئی پی ایس نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جس قدر کام کیا ہے اتنا پاکستان کے سارے ادارے اور سکالرز بھی مل کر نہ کر سکے۔ جہاں ایک طرف اس مسئلے سے وابستہ جماعت کی اکائیاں اور ادارے ان سے رہنمائی لیتے تھے وہیں تمام سٹیک ہولڈرز کل جماعتی حریت کانفرنس ہو، متحدہ جہاد کونسل ہو یا مقبوضہ کشمیر کے دیگر قائدین ہوں۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے سکالرز ہوں یا حکومت کے پالیسی ساز ادارے ہوں، پارلیمنٹ ہو یا وزارت خارجہ ہو ہر محاذ پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا عمل بلا تعطل جاری رہا۔ علاوہ ازیں سینٹ اور پارلیمنٹ میں دو دہائیوں تک بھرپور نمائندگی کی۔ پاکستان کے ہر مسئلے پر جہاں سینیٹ میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا وہیں مسئلہ کشمیر پر بھی انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا اور ان سے رہنمائی لی جاتی تھی۔
90 کی دہائی کے آغاز میں جب یہ تحریک ایک انقلاب کے طور پر اٹھی اور بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے ہزاروں کشمیری نوجوان جنگ بندی لائن کراس کرتے ہوئے بیس کیمپ میں وارد ہوئے تو ان کی اہل پاکستان اور ریاست پاکستان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان میں سیاسی محاذ ارائی عروج پر تھی اور مختلف جماعتوں اور اداروں میں ایک بے اعتمادی کی کیفیت تھی۔شہید ضیاء الحق اور ان سے وابستہ سینیئر ٹیم ممبران جو اس تحریک کے خدوخال سے آگاہ تھے ایک حادثے کی نظر ہو چکے جس کے نتیجے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا اور پالیسی سازی میں بھی تعطل پیدا ہوا۔ ان حالات میں اس امر کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ایک بڑی مہم کا اہتمام کیا جائے۔ چنانچہ قاضی حسین احمد ؒ اور پروفیسر خورشید صاحبؒ نے اس سلسلہ میں ہماری بھرپور سرپرستی کی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کو اس کاز کا پشتیبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر صاحب مرحوم مولانا مودودی ؒکے دور ہی سے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں سے روابط استوار کرنے کے ذمہ دار تھے چنانچہ اس مرحلے پر بین الاقوامی اسلامی تحریکوں اور اداروں جن کیساتھ ان کے ذاتی مراسم اور تعلقات تھے کو متحرک کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان کی تجویز پر طے پایا کہ قاضی حسین احمدؒ کی قیادت میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفد مسلم دنیا کا دورہ کر ے اور وہاں کے حکمرانوں اور اہل دانش کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیری عوام کی جدوجہد کو اجاگر کرے چنانچہ ایک کل جماعتی وفد(جس کے ایک ممبر کے طور پر مجھے بھی شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا) نے کئی ہفتوں کا ترکیہ اور تمام خلیجی ممالک کا دورہ کیا جس میں حزب اقتدار وحزب اختلاف سمیت ممبران پارلیمنٹ، ذرائع ابلاغ ، اہل دانش اور علماء کرام سے تفصیلی نشستیں ہوئیں جن میں مسئلہ کشمیر کا پس منظر، اہل کشمیر کی جدوجہد اور ان پر روارکھے جانے والے بھارتی مظالم اور اس اہم مسئلہ کے حل کے حوالے سے امت مسلمہ کی ذمہ داریوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس کے بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس دورے کے موقع پر اندازہ ہوا کہ پروفیسر صاحب مرحوم کے علمی مقام اور رتبے کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام موجود ہے ۔ ملاقات کے موقع پر ترکیہ کے صدر جناب ترگت اوزال نے فرمایا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر خورشید صاحب جن کی کتابوں سے ہم مستفید ہوتے تھے آج ملاقات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ جناب قاضی حسین احمدؒ اور پروفیسر صاحب ؒ کا مسلم دنیا میں بے پناہ احترام تھا اور علمی حلقوں میں تمام مسلم دنیا میں پروفیسر صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔
اسلامی معیشت اور بلا سود بینکاری کے معمار کی حیثیت سے پوری دنیا میں وہ اپنی ایک پہچان رکھتے تھے اور ان خدمات کے نتیجے میں وہ شاہ فیصل ایوارڈ سمیت کئی بین الاقوامی سطح کے اعزازات بھی حاصل کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں مسلم دنیا کے اہل دانش اور تھنک ٹینکس ان سے ملنا اور ان سے مستفید ہونا اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ اسی دورے کے موقع پر ترکیہ ہی میں اہل دانش کی ایک مجلس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر اور امت کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے امت کی وحدت اور اہل دانش کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیا۔نیز ترکیہ کو مغرب کی دم بننے کی بجاے تاریخی پس منظر میں مسلم دنیا کی قیادت کا فریضہ سر انجام دینے پر متوجہ کیا جس پر شرکا نے انکی تحسین کرتے ہوئے ان کا بے پناہ شکریہ ادا کیا۔ یہ مجلس ڈاکٹر پروفیسر نجم الدین اربکان کی صدارت میں منعقد ہوئی جس کے میزبان موجودہ صدر رجب طیب اردگان تھے جو اس وقت رفاہ پارٹی استنبول کے سربراہ تھے۔ اس دورے میں جو رائے عامہ منظم ہوئی اسی کے نتیجے میں طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ 1990 میں قائرہ مصر میں منعقد ہونے والے او ائی سی OIC کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک جامع قرارداد منظور ہوئی۔ یوں بین الاقوامی محاذ سمیت تمام محاذوں پر ریاست پاکستان اور اسکے ادارے اس تحریک کے پشتیبان اور ترجمان بنے جسکے نتیجے میں بھارت مزاحمت کے جملہِ محاذوں پر سخت دباؤ کا شکار اور مجاہدین سے جنگ بندی کی پیشکش کرنے اور حزب المجاہدین کیساتھ مذاکرات پر مجبور ہوا ۔ بدقسمتی سے اس سارے عرصے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دستیاب مواقع سے استفادہ نہ کیا جاسکا۔ اسی عرصے میں جمہوریت کا نظام پٹری سے اتر گیا اور فوجی حکومت قائم ہوئی جس نے دہشت گردی کے نام پر ایک جنگ اپنے ذمہ لے لی جس کے بے پناہ مضر اثرات مرتب ہوئے اور ریاست پاکستان جس انداز سے اس تحریک کی پشت بانی کر رہی تھی حالات کے دباؤ کی وجہ سے پسپا ہو گئی اور اپنے بنیادی موقف سے انحراف کرتے ہوئے مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی شکل میں مبہم اور گنجلک تجاویز پیش کی گئیں۔ ان سارے مراحل پر وفیسر صاحب مرحوم پارلیمنٹ کے فلور سے اور ہر دستیاب پلیٹ فارم سے حکمرانوں کو متوجہ کرتے رہے کہ وہ اپنے اصولی اور بنیادی موقف سے انحراف نہ کریں اور عالمی سطح پر بطورفریق مسئلہ کشمیر پر جرأت سے اپنا موقف منوائیں لیکن بدقسمتی سے پسپائی کا عمل نہ رک سکا اس عرصے میں بطور مدیر ترجمان القران انہوں نے شاہکار اداریے تحریر کئے ۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد اور اس میں دی جانے والی قربانیاں بھارت کی سازشیں اور بین الاقوامی استعمار کے ہتھکنڈوں کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے اور کیسے یہ تحریک اپنی حتمی آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو سکتی ہے پرجامع حکمت عملی اور لائحہ عمل پیش کرتے رہے۔ وہ ہمیشہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کے چراغ جلاتے رہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے ان سے کماحقہ استفادہ نہ کر سکے لیکن پروفیسر صاحب کے رہنما اصولوں پر مبنی وہ ادارے ایک مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ حلقوں کو استفادہ کرنا چاہیے ۔
نوے کی دہائی میں ملک کے نامور سینیئر مدبر سیاستدان جناب نواب ذادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے بڑا فعال کردار ادا کیا اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی پروفیسر صاحب نے متحرک کردار ادا کیا ۔نواب صاحب محترم پروفیسر صاحب کا بے پناہ احترام کرتے تھے اور ان ہی کی تحریک پر راقم کو بھی کشمیر کمیٹی کیساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ۔نواب صاحب کی قیادت میں یورپ اور مسلم ممالک کے دوروں میں جناب سردارابراہیم مرحوم۔ ایس ظفر مرحوم وغیرہ کیساتھ رہنے کا موقع ملا اور مسئلہ کشمیر پر الحمدللہ بھرپور ترجمانی کرنے کی کوشش کی۔ کشمیر کمیٹی کی فعالیت کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی ہر تجویز نواب صاحب خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔ چنانچہ پے در پہ پارلیمانی وفود ساری دنیا میں بھیجے گئے جن میں باقی جماعتی قائدین کے علاوہ جناب لیاقت بلوچ، جناب مظفر ہاشمی مرحوم اور پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم بریگیڈیئر شفیع مرحوم سمیت دیگر حریت قائدین کو ان دوروں میں کشمیر کاز کی نمائندگی کرنے کا موقع ملتا رہا ۔پروفیسر صاحب ہی کی تجویز پر اس مسئلے کو جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواب صاحب کی قیادت میں وفد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پہنچا ۔پروفیسر صاحب بھی اس وفد کا حصہ تھے لیکن بدقسمتی سے وزارت خارجہ کا مناسب ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے بالکل آخری مرحلے میں جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا جس پر پروفیسر صاحب اور نواب صاحب بہت رنجیدہ ہوئے۔
اسی طرح نوے کی دہائی میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر تمام نمائندہ کشمیری اور پاکستانی قیادت کو باہم مل بیٹھنے کا موقع ملا اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک اعلامیہ مکہ ڈیکلریشن کے عنوان سے منظور کیاگیا جو تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعلامیہ کی تیاری میں جناب خالد رحمان، راقم اور پروفیسر ترابی صاحب پر مشتمل کمیٹی قائم ہوئی جس نے پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں مسودہ تیار کیا جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس کانفرنس میں جناب نوابزادہ نصراللہ خان جناب قاضی حسین احمد جناب راجہ ظفرالحق جناب پروفیسر خورشید احمد ،جناب لیاقت بلوچ اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر جناب سردار عبدالقیوم خان قائد حزب اختلاف جناب راجہ ممتاز حسین راٹھور ، قائدین حریت مقبوضہ جموں و کشمیر سے جناب سید علی گیلانیؒ جناب غلام نبی سمجھی جنا ب الطاف شاہ جنا ب ڈاکٹر ایوب ٹھوکر جناب ڈاکٹر غلام نبی فائی جناب نذیر قریشی جناب محمد غالب جناب خالد رحمان جناب پروفیسر الیف الدین ترابی جناب غلام محمد صفی جناب سید یوسف نسیم جناب مشتاق وانی مرحوم جناب بریگیڈئر محمد شفیع میرے معاون خصوصی انجینئر عابد خواجہ شریک ہوئے۔ اس جامع اعلامیہ میں بھارتی عزائم اور مظالم کے تدارک کیلئے عالمی برادری OIC کو ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کیساتھ حکومت پاکستان اورعوام اور خود کشمیری عوام کے کردار کا احاطہ کیا گیا۔
پروفیسر صاحب سید علی گیلانی سے لیکر سید صلاح الدین احمد تک تمام مزاحمتی کشمیری قیادت کا بے پناہ احترام کرتے تھے۔ جناب یاسین ملک کی شادی کے موقع پر بنفس نفیس شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ قلمی محاذ پر سید علی گیلانی ؒکے لازوال کنٹری بیوشن کے معترف بھی تھے اور ان کی کتب کی اشاعت کیلئے اہتمام بھی کرتے تھے۔ گیلانی صاحب اور اشرف صحرائی صاحب کی شہادتوں کے بعد متبادل قیادت کی تیاری کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔ مودی حکومت کی جانب سے 05اگست2019 میں غیر آئینی اقدامات کے بعد ریاستی اور کشمیری تشخص کی تحلیل پر سخت رنجیدہ اور فکر مند تھے جسکا اظہار اشارات میں کرتے رہے۔بھارتی جیلوں میں محبوس حریت قائدین اور کارکنان کے مسئلہ کو بھی ہمیشہ فکرمندی سے اجاگر کیا۔
مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ہو یا امت مسلمہ کے دیگر مسائل اسی طرح اسلامی فوبیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ اور مسلم دنیا سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے عملا وہ اس طرح کے جملہِ درپیش مسائل اجاگر کرنے کیلئے اسلامی تحریکوں کا ایک وفد جناب پروفیسر نجم الدین اربکان صاحب کی قیادت میں یورپ اور امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ اس کے روح رواں بھی جناب پروفیسر صاحب مرحوم ہی تھے جناب لیاقت بلوچ بھی اس وفد کا حصہ تھے اور انڈونیشیا سے لیکر مراکش تک نیز ترکیہ اور خلیجی ممالک کے منتخب نمائندے اور اہل دانش اس وفد میں شامل تھے۔ امریکہ کے تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز حلقوں میں اس وفد نے بجا طور پر مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اسی طرح سے یورپی ممالک میں بھی جہاں جہاں جانے کا موقع ملا بھرپور طور پر ان مسلم مسائل کو اجاگر کیا گیا اور مغربی دنیا کو مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے اور عدل و انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنے پر متوجہ کیا گیا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب کی سرپرستی میں ممتاز دانشور حاشر فاروقی صاحب مرحوم کی ادارت میں Impact international کے نام سے ایک بین الاقوامی جریدہ سال ہا سال مغربی اہل دانش اور تھنک ٹینکس میں ان اہم مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا ایک کردار ادا کرتا رہا ۔مسئلہ کشمیر کے علاوہ مسئلہ فلسطین ہو امت کی وحدت ہو اور امت مسلمہ کے دیگر مسائل سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کے مصداق پروفیسر صاحب ان مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان سے وابستہ رہنما وں اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ مجھے جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم اور پروفیسر صاحب مرحوم کی قیادت میں افغان مجاہدین کے اختلافات ختم کرنے کیلئے جانے والے اسلامی تحریکوں کے وفود میں بھی شامل ہونے کا موقع ملتا رہا ۔جس درد سے ہمارے ان قائدین نے اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے میں شب و روز کوششیں کیں وہ انہی کا خاصا ہیں۔ اسی طرح خلیجی ممالک کی باہم جنگوں میں سعودی عرب اور عراق کے درمیان خلیج ختم کرنے کیلئے قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کی قیادت میں اسلامی تحریکوں کے قائدین میں پروفیسر خورشید صاحب نے ایک نمایاں اور بھرپور کردار ادا کیا ۔مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے عالم اسلام کے ممتاز سکالر اور مدبر جناب علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی قیادت میں بین الاقوامی القدس انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک ادارہ بیروت لبنان میں قائم کیا گیا۔ اس کے تاسیسی اجتماع میں بھی پروفیسر صاحب اور جناب قاضی حسین احمد صاحب کیساتھ ہمیں بھی شرکت اور اس ادارے کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اولین ممبران میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ اس ادارے کی وساطت سے جہاں مسئلہ فلسطین اور القدس کیساتھ وابستگی ہمارے لیے اعزاز تھا وہیں اس کی ہر کانفرنس اور اجلاس میں شرکاء کو مسئلہ کشمیر پر بریف کرنا اور حالات سے آگاہی دینا یہ ایک ایسا نادر موقع ہمیں فراہم ہوا جو ان عظیم قائدین کا مرہون منت تھا۔ ان اجتماعات میں بھی کسی بھی مسئلے پر پروفیسر صاحب کی رائے کو حتمی سمجھا جاتا تھا اور انہی کی رائے اور مشورے کے مطابق فیصلوں پر اتفاق رائے ہوتا تھا۔ مرحوم پروفیسر صاحب ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک اور ادارہ تھے۔ علمی فکری تنظیمی ادارتی سطح پر جتنا کام اللہ نے ان سے لیا ہے یہ اللہ کا بہت بڑا کرم ہے اور انہی کا حصہ ہے کہ علمی سطح پر ایک ماہر معیشت کی حیثیت سے پوری دنیا ان کی حیثیت اور خدمات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسلامی معیشت کو استوار کرنے میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ آج اسلامی بینکنگ سے وابستہ سرمایہ کاری ساڑھے پانچ کھرب ڈالر سے متجاوز ہے۔ عالمی ماہرین انہی کو یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ انہی کی قائم کردہ بنیادوں پر آج اسلامی معیشت کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی ہے۔ دنیا اس پر انہیں خراج عقیدت بھی پیش کر رہی ہے اور ان کے کام پر تحقیق بھی کر رہی ہے وہیں سید مودودی کی فکر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اسلامک فاؤنڈیشن یا دیگر بین الاقوامی ادارے ہوں یا اسلامی یونیورسٹیز اسلام اباد، ملائشیا، نائجیریا یہ سارے ادارے ان کیلئے صدقہ جاریہ ہیں۔ ادارہ معارف اسلامی سید مودودی کی رہنمائی میں قائم ہوا لیکن اس کو منظم کرنے میں علمی فکری محاذ پر اس کو چار چاند لگانے میں پروفیسر صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ ہو یا جماعت اسلامی عظیم تحریکوں کو ایک بہترین دستور جس پر یہ تنظیمیں استوار ہیں فراہم کرنے میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ان کی رہنمائی میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں قلم کار اور اہل دانش تیار ہوئے جو مختلف محاذوں پر آج اقامت دین اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ تحریک پاکستان میں ایک نوخیز کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا اور تادم واپسی قائد اعظم کے تصور کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے میں شب و روز ایک کیے۔ اسلامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اور ذاتی حیثیت سے بھی علامہ اقبال کے خواب کی تکمیل و تعبیر حاصل کرنے کیلئے زندگی کا ایک ایک لمحہ بروئے کار لایا ۔اس سارے عرصے میں ان کی ہمارے ساتھ بے پناہ مربیانہ شفقت رہی۔ ریاست جموں کشمیر میں اسلامی تحریک کے استحکام اور دعوتی تعلیمی میدانوں میں تحریک کی وسعت کے حوالے سے ہماری طرف سے پیش کردہ ہر تجویز کا خیر مقدم کیساتھ بھرپور معاونت کی۔ مولانا عبدالباری مرحوم ہوں یا کرنل عبدالرشید عباسی مرحوم، برادر سردار اعجاز افضل ہوں یا برادر ڈاکٹر خالد محمود خان یا برادر ڈاکٹر محمد مشتاق خان ہوں۔تمام امراء کیساتھ شفقت اور سر پرستی فرماتے رہے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی انتظامی اور مالی لحاظ سے باوقار اور باآختیاردیکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں پارلیمان اور ہر پلیٹ فارم سے آواز بلند کرتے رہے ۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک موثر بیس کیمپ قائم کرنے پر توجہ مبذول کرتے رہے اور ان کے سٹیٹس کی کسی تبدیلی میں مزاحم رہے ۔ چار دہائیوں پر محیط ذمہ داریوں کے دورانیہ میں بائیس برس امیر جماعت کی حیثیت ذمہ داریاں نبھانا پڑیں۔ اس سارے عر صے میں ان سے بے پناہ شفقت ملی۔ ان جیسا ہمدرد اور غمخوار شاید ہی کوئی دوسرا فرد پایا ہو جو اپنے ساتھیوں اور کارکنان کے ذاتی مسائل کو ایک والد کی طرح آگاہی بھی رکھتا ہو اور انہیں حل کرنے میں بیتاب بھی ہو۔ وہ ہمارے رہنما ، قائد اور مربی بھی تھے اور ذاتی طور پر ایک شفیق والد کی طرح ان کی شفقت ہمیں حاصل تھی۔ صحت کی خرابی کے باوجود حالات پر نظر رکھتے ہوے رہنمائی کرتے تھے۔ راقم تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے سر گرمیوں اور پیشرفت سے انہیں اکثر آگاہ کرتے رہتے تھے۔ہمارے بعض ذمہ داران تو کسی پیغام کی رسید بھی نہی دیتے لیکن پروفیسر صاحب فی الفور جواب بھی دیتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ اکثر فون پر بھی رابطہ رکھتے۔ برطانیہ جب بھی جانا ہوا ان کی زیارت اور ملاقات ہمیشہ فکری اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ بنی۔ فراخ دلی سے ملاقات کا موقع دیتے رہے۔
تعلیمی میدان میں ریڈ فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے جو تجربہ ہم نے کیا اس پر ہمیشہ تحسین کی اور اس کے ذمہ دار برادر محمود احمد سے فراخدلانہ تعاون کرتے رہے ۔ان کی رحلت امت مسلمہ کیلئے ایک بڑا سانحہ ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج پوری دنیا میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور لاکھوں لوگ اس بات پر گواہ اور شاہد ہیں کہ انہوں نے اپنے اللہ سے جو عہد باندھا تھا اس کا حق ادا کیا ۔آج ہم سب پس ماندگان ہیں اور ان کی شفقت سے محروم ہو گئے ہیں لیکن اس موقع پر ان کے قریبی عزیزان کے برادر عزیز جناب ڈاکٹر انیس احمد ان کے صاحبزادوں ان کی بیٹیوں ان کے دیگر عزیزوں خاص طور پر برادر محترم خالد رحمان صاحب جنہوں نے انکی طویل رفاقت اور رہنمائی میں آئی پی ایس جیسے ادارے کو پوری مسلم دنیا میں ایک مثالی ادارہ بنایا اور ان کے مشن کی تکمیل کا ذریعہ بنے محترم امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن صاحب، جناب سراج الحق جناب لیاقت بلوچ اور دیگر قائدین اور ان سے متعلقین جو اپنی اپنی جگہ تمام پسماندگان ہیں اظہار تعزیت بھی کرتے ہیں اللہ سے دعا بھی کرتے ہیں کہ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ان کا نعم البدل بھی عطا کریں۔ ان کے چھوڑے ہوئے فکری اور علمی کام کے حوالے سے جو خلا پیدا ہوا اللہ ان کے مشن کی تکمیل کرنے والے ایسے اہل دانش اور فکری رہنما دستیاب فرمائیں جو پاکستان اور بین الاقوامی محاذ پر ان کے خلا کو پر کر سکیں۔آمین