محمد صادق کھوکھر- اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر
مجھے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ برس ہا برس کام کرنے کی سعادت ملی ہے۔ میں ان کے قائم کردہ ادارے اسلامک فاؤنڈیشن سے 1981 سے وابستہ ہوں۔ اس ادارے کی کئی ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ میرا ایک کام اپنے ادارے کے لیے کتب کی خرید اری بھی تھا۔ اس کے علاوہ میں پاکستان، نائجیریا اور سعودی کے مختلف اداروں سمیت میں یہ خدمت پروفیسر خورشید احمد صاحب کے لیے بھی سرانجام دیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے متعلقہ موضوعات کے متعلق کتب کا علم اور ان کا حصول آسان کام نہیں تھا۔ اول تو کتب کا ہی علم ہونا پھر ان کے پبلشرز اور ڈسٹری بیوٹر کا معلوم کرنا اور پھر خطوط اور ٹیلیفون سے آرڈر کرنا اور ادائیگی کرنا آج کی نسبت آسان نہیں تھا۔ آج کل یہ سب کچھ آسان ہو گیا ہے۔ ڈائریکٹ پبلشرز سے یا ایمازون جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے بڑی آسانی سے ہر چیزحاصل کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مجھے پاکستان سے کتب منگوانے کا لکھتےتھے۔ کتاب کے نام کے علاوہ مصنف کا نام پبلشر کا نام وغیرہ کا بھی تحریر کرتے تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ پروفیسرخورشید احمد صاحب کو پاکستان میں رہتے ہوئے مغربی دنیا میں شائع ہونے والی کتب کا علم کیسے ہوجاتا ہے کہ کیا چیز شائع ہو رہی ہے؟ جوں جوں وقت گزرتا گیا مجھ پر ان کی زندگی کے بارے میں کئی حقائق واضح ہونے لگے۔ لیکن حیرت ہوتی کہ وہ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مجھے علم ہوا کہ وہ کون کون سے میگزین کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ باخبر رہتے ہیں۔میرا معمول تھا کہ میں انہیں کتب خرید کر پاکستان بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار وہ مجھے لکھتے کہ’’میں برطانیہ پہنچ رہا ہوں اس لیے کتب پوسٹ نہ کروں۔ میں آکر دیکھ لوں گا‘‘۔
جب وہ برطانیہ آتے تو اسلامک فاونڈیشن آتے ہی سب سے ملتے۔ حال احوال پوچھتے۔ مجھ سے بھی حال احوال کے بعد کتب کا دریافت کرتے۔ ساتھ ہی کہتے کہ میں کتب ان کے کمرے میں پہنچا دوں۔ وہ اپنی ہر کتاب کے پہلے صفحہ میں سب سے پہلے بسم اللہ تحریر کرتے نیچے اپنے دسخط کرتے۔ پھر کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے سرسری سا دیکھتے۔ اور پھر میٹنگ وغیرہ میں مصروف ہو جاتے۔ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے من پسند موضوعات کے متعلق کیا شائع ہو رہا ہے۔ مثلا پاکستان سے شائع ہونے والی کتب و میگزین کے علاوہ بیرونِ ملک شائع ہونے والی کتب بھی ان کی زیرِ مطالعہ رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے شائع ہونے والے درج ذیل میگزین ان کی نظر سے ضرور گزرتے تھے۔فارن پالیسی۔فارن افیئر۔اکنانومسٹ ،ٹائمز ،نیوزویک فارایسٹ، اکنامسٹ ریویو، مڈل ایسٹرن ،سٹڈے مڈ ل ایسٹ، جرنل دی مسلم ورلڈ ،ایشین سروے وغیرہ
اسی طرح انہوں نے مجھے کہا ہوا تھا کہ میں انہیں روزانہ اہم اخبارات کے مضامین اور کالمز وغیرہ مہیا کیا کروں۔ میں روزانہ پاکستان کے تمام بڑے اردو انگریزی اخبارات کے اہم کالمز اور دیگر مواد کاپی کر کے ان کو پہنچاتا تھا۔ چونکہ ان کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ اس لیے میں یہ سارا مواد بڑے حروف میں کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا۔ پاکستانی اخبارات کے علاوہ میں انہیں نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارڈین، انڈیپنڈینٹ، فنائنشل ٹائمز، مڈل ایسٹرن آئی، مونیٹر وغیرہ کے علاوہ چند بھارتی اخبارات کے مضامین بھی بھیجتا تھا۔ شام کو وہ بڑی بے تابی سے میرے تیار کردہ مواد کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اگر لیٹ ہو جاتا تو اکثر ٹیلیفون کر کے دریافت کیا کرتے تھے۔ جب انہیں یہ چیزیں ملتی تھیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ وہ ایک ایک چیز کا مطالعہ کرتے۔ پن سے مضمون کے اہم نکات انڈر لائن کرتے۔ منتخب مضامین ڈاکٹر انیس احمد، سلیم منصور خالد یا آئی پی ایس کو بھجواتے۔ قارئین کی اطلاع کے لیے بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان کی خدمت میں روزانہ تقریباََ دو درجن کے لگ بھگ مضامین پیش کیا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ میں جب پاکستان یا کسی دوسرے ملک جاتا تھا تو اپنا کمپوٹر ساتھ لے کر جاتا تھا تاکہ انہیں یہ چیزیں بر وقت ملتی رھیں۔ میں مواد ان کے بیٹے حارث کو بھیج دیا کرتا تھا۔ وہ پرنٹ کر کے پروفیسر صاحب کے حوالے کر دیتے تھے۔

جب وہ برطانیہ آتے اور انہیں لندن جانا ہوتا تو وقت نکال کروہاں کے دوچار بڑے کتب فروشوں کے ہاں ضرور جاتے اور کتب خریدتے۔ لیسٹر میں بارڈر کے نام سے ایک بک شاپ تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے کہا کہ شام کو واپس جاتے ہوئے اس بک شاپ پر رکیں گے۔ اتفاق سے اس دن دو طالبات بھی ہمراہ تھیں۔ اس دن انہوں نے تقریبا تین چار سو پونڈ کی پچاس ساٹھ کے لگ بھگ کتب خریدیں تھی۔ یہ دیکھ کر ایک طالبہ بول اٹھیں کہ انکل تو مکان کی مارگیج سے بھی زیادہ کتب پر خرچ کرتے ہیں۔ کتاب ان کی کمزوری تھی۔ اگر پسند آ جائے تو قیمت کی فکر نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک کتاب مجھے امریکہ سے منگوانے کا کہا جو چار پانچ جلدوں پر مشتمل تھی۔ جس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ اس لیے خریدنے سے قبل میں نے قیمت بتائی ۔تاکہ انہیں احساس ہو اور وہ شاید انکار کر دیں۔ لیکن انہوں نے سارا سیٹ خریدا تھا۔ ایک دفعہ بھارت سے انہوں نے کئی کتب کے تین سیٹ منگوائے تھے۔ ایک اپنے لیے اور باقی دو اسلامک فاؤنڈیشن اورآئی پی ایس کے لیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامک فاؤنڈیشن اور آئی پی ایس کو انہوں نے بڑی مقدار میں کتب ہدیہ کیں تھیں۔ آخری دس بارہ برس وہ علالت کے باعث سفرکرنے کے قابل نہیں رہےتھے۔ لیکن ان کا دل ہر وقت پاکستان میں لگا رہتا تھا۔ آئی پی ایس اور سلیم منصور خالد بھائی کے ذریعے وہ پاکستان میں شائع ہونے والی نئی کتب منگواتے رہتے تھے۔ان کے شوقِ مطالعہ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سفر میں بھی وہ فارغ نہیں رہتے تھے۔ دورانِ سفر مطالعہ کرتے رہتے۔ عموماََسفر میں اخبارات، رسائل وغیرہ زیرِ مطالعہ رہتے ۔ ایک دفعہ پی آئی اے لندن کی پرواز کے دوران ان کی برابر والی نشست پر آزاد کشمیر کے ایک سابق وزیرِاعظم بھی براجمان تھے۔ جنہیں کچھ دن برطانیہ میں قیام کے بعد جنیوا جانا تھا تاکہ وہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے لابی کر سکیں۔ پروفیسرخورشید احمد ؒنے انہیں پوچھا کہ لابی کرنے کے لیے ساتھ مٹریل کیا لائے ہو؟ وہ لاجواب ہو گے۔ خورشید صاحب نے انہیں کہا کہ کسی آدمی کو اسلامک فاونڈیشن بھیجیں۔ تاکہ آپ کو مسئلہ کشمیر کے متعلق کتب اور دیگر مواد دیا جائے جو آپ ساتھ لے کر جائیں۔ دوسرے دن ہی ایک صاحب ان کی طرف سے آئے جنہیں میں نے پروفیسر صاحب کی ہدایت کے مطابق کتب اور کتابچے دئیے۔وہ بتایا کرتے تھے کہ کسی زمانے میں صبح کے وقت مطالعہ کیا کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ مصروفیات بڑھتی چلی گیں ۔ اس لیے دن کو میٹنگ وغیرہ میں مصروف رہتےلہذا انہیں مطالعہ کے لیے رات کو وقت ملتا تھا۔ لکھنے سے قبل متعلقہ مواد جمع کرلیتے تھے۔ مجھے کہتے کہ فلاں فلان چیز ان تک پہنچا دوں۔ پھر رات کو لکھنے بیٹھ جاتے۔ میں نے کئی دفعہ اندازہ کیا کہ ترجمان القرآن کے اشارات مکمل کرنے کے بعد ہی آرام کرتے تھے۔ مجھے ٹیلیفون کرتے کہ اشارات تیار ہیں۔اس کی کاپی ادارہ ترجمان القرآن کو بھیج دیں۔ مسلم سجادؒ صاحب کے زمانے میں انہیں بذریعہ فیکس روانہ کیا کرتا تھا بعد ازاں سلیم منصور خالد کو بذریعہ ای میل بھیج دیا کرتا تھا۔ ان کی عادت تھی کہ ٹائپ سیٹ ہونے کے بعد ایک نظر ضرور دیکھتے اور اگر ترمیم کی ضرورت ہوتی تو کر دیا کرتے تھے۔سفر میں عموماََ میں ہی انہیں لے کر جاتا تھا۔ اس لیے ہر طرح کے سوالات پوچھتا۔ اس لحاظ سے مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ وہ شروع میں اشتراکیت کی طرف مائل ہو گے تھے۔ جس کی وجہ پنڈت جواہرلال نہرو کی کتب تھیں اگرچہ ان کے والد نذیر قریشیؒ صاحب کی سید مودودیؒ سے گہری دوستی تھی لیکن سید مودودیؒ کی کتب سے قبل وہ نہرو کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ بچپن میں ان کی دوستی اقبال احمد خان صاحب سے تھی جو اس زمانے میں اسلامی ذہن رکھتے تھے اور خورشید صاحب کا رجحان سوشلزم کی طرف تھا۔بعد ازاں اقبال خاں اشتراکیت کے علمبردار بن گے اور پروفیسر خورشید احمدؒ نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دی۔ خود بتاتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ، محمد اسدؒ اور خاص طور پرسید مودودیؒ کی تحریروں نے ان کی کایا پلٹ دی۔ اسی طرح وہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، عبدالماجد دریا بادیؒ، سید سلیمان ندویؒ، شبلی نعمانیؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی کتب بھی انہیں پسند تھیں۔ مولانا حالی کی مسدس اور اقبال کی بانگِ درا بچپن میں یاد کر لی تھیں۔ مولانا محمد علی جوہرؒ کے اخبار کامریڈ کی تمام فائلیں نظر سے گزری تھیں۔ سید ابوالحسن علی ندویؒ، ڈاکٹر حمید اللہؒ، محمد اسدؒ اور مصطفیٰ احمد زرقاؒ اور یوسف القرضاویؒ سے ذاتی تعلقات تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے نسیم حجازیؒ کے تقریباََ سارے ناول مطالعہ کیے ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ سے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

مطالعہ کے متعلق انہوں نے ایک خاص بات یہ بتائی تھی کہ کسی سبجیکٹ کے متعلق وہ دو تین بنیادی کتب ضرور پڑھتے ہیں تاکہ موضوع کا مکمل احاطہ ہو جائے۔ اس کے بعد باقی مطالعہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک باب مکمل کر کے اس کے متعلق تھوڑا سا سوچتے اور پھر دوسرا باب شروع کرتے ہیں۔ جو چیز زیرِ مطالعہ ہوتی اس کے خاص خاص نکات کو پن یا پنسل سے انڈرلائن کر لیتے ہیں تاکہ دوبارہ دیکھنے پر انہیں آسانی رہے۔ان کے قریب رہنے کی وجہ سے میں نے ان کے شوقِ مطالعہ کے متعلق اپنے مشاہدات آپ کی نذر کر دئیے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھ کر کوئی شخص اسی راہ پر گامزن ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی خطائیں معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔ ثمہ آمین