پروفیسر خورشیداحمدمرحوم

آصف محمود

جو جانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں یہ کون رجلِ رشید تھا جو زمانے سے اٹھا

یہ ایک فرد نہیں تھا ، علم و فکر کا ایک مکتب تھا۔ وہ جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو پھر کسی اور کے بولنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی

جب وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو پھر کسی اور کے لکھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی تھی

علمی وجاہت تو تھی ہی پروفیسر صاحب کی پارلیمانی زندگی میں رہنما حیثیت کی حامل ر ہی

ایوان میں کسی بھی مسئلے پر جب وہ بات کرتے تھے تو گویا اس موضوع پر مقطع ہوتا تھا

ہماری سیاست میں اب کوئی ان جیسا کوئی صاحب علم باقی نہیں ہے ۔وہ اس تہذیبی سفر کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے

پروفیسر خورشید احمد کا سفرِ حیات بھی تمام ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جو جانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں یہ کون رجلِ رشید تھا جو زمانے سے اٹھا ، جو نہیں جانتے وہ مگر شاید اب کبھی نہ جان پائیں۔یہ کسی فردِ احد کی کہانی ہوتی تو میں لکھ دیتا ، یہ تو ایک مکمل عہد تھا، اسے کوئی کالم میں کیسے سمیٹے۔ یہ ایک فرد نہیں تھا ، علم و فکر کا ایک مکتب تھا۔ قدیم برطانوی زمانوں کی روایت تھی، بادشاہ کے مرنے پر اعلان ہوتا تھا: بادشاہ مر گیا ، بادشاہ کی عمر دراز ہو۔ میرے بس میں ہو تو میں بھی اعلان کروں کہ پروفیسر خورشید احمد مر گیا ، خدا پروفیسر خورشید کی عمر دراز کرے۔ پروفیسر خورشید ، جو ایک انسان تھا ، مر گیا ، پروفیسر خورشید جو ایک مکتب اور ادارہ تھا ، زمانوں تک سلامت رہے گا۔ پروفیسر صاحب کی سیاست کا تو مجھے علم نہیں ، ان کی علمی وجاہت کا البتہ میں شاہد ہوں۔ وہ جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو پھر کسی اور کے بولنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی اور جب وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو پھر کسی اور کے لکھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی تھی۔ان کی گفتگو اور ان کی تحریر مبہوت کر دیتی تھیں۔ نوے کی دہائی میں ، میں اسلام آباد آیا تو یہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے عروج کا زمانہ تھا۔ پروفیسر خورشید خود اکثریہاں موجود اور دستیاب ہوتے تھے۔ یہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ برادرم صبور سید اور جناب ارشاد محمود ، دونوں ان وقتوں میں آئی پی ایس سے وابستہ تھے۔ صبور بین الاقوامی یونیورسٹی میں ، میرے کلاس فیلو تھے ۔ بس ان ہی کی وجہ سے میرا آئی پی ایس آنا جانا شروع ہوا۔ یہاں کی لائبریری میں ایک سحر تھا۔ سٹاف بہت شائستہ اور ہم درد تھا۔ کتابیں پڑھنے کی عادت تو پہلے ہی تھی ، آئی پی ایس کے ماحول نے شوق کو آسودہ کر دیا۔

اب ٹھیک سے کچھ یاد نہیں ، یہ میری کرگل والی کتاب تھی یا سی ٹی بی ٹی والی ، ایک سیمینار ہو رہا تھا۔ اب یہ بھی یاد نہیں وہ مرحوم جنرل حمید گل تھے یا جناب خورشید ندیم ، دونوں میں سے ہی کوئی ایک تھا، سیمینار ختم ہوا تو وہ میرا ہاتھ تھامے پروفیسر صاحب کے کمرے میں ساتھ لے گئے ، تعارف کرایا اور میں نے کتاب پروفیسر صاحب کو پیش کی۔ پروفیسر صاحب نے کتاب وصول کی ، شکریہ ادا کیا ، اور پھر بتایا کہ وہ یہ کتاب خرید بھی چکے ہیں اور پڑھ بھی چکے ہیں ۔ میرے لیے یہ انتہائی حیرت کی بات تھی ۔ کہاں میرے جیسا طالب علم کہاں پروفیسر خورشید۔ لیکن ان کی علمی وسعت دیکھیے ، انہوں نے ایک طالب علم کی کتاب بھی خرید کر پڑھ ڈالی۔ لیکن میری حیرت یہاں تمام نہیں ہوئی۔ مجھے ابھی مزید حیران ہونا باقی تھا۔ انہوں نے وہ نسخہ ہمارے سامنے رکھ دیا جو انہوں نے خرید کر پڑھا تھا۔ میں نے ایسے ہی اس کتاب کو کھولا تو اس میں سرخ پن سے پروف کی غلطیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی پروفیسر صاحب نے پڑھتے پڑھتے خود ہی کیا تھا۔میرا جی چاہتا تھا کہ میں تمام صفحات دیکھوں اور اپنی اصلاح کروں ، لیکن اس محفل میں اپنی ہی کتاب کی ورق گردانی حدادب کی خلاف ورزی ہوتی۔ میں نے کتاب رکھ دی۔ باہر آکر ایک صاحب سے درخواست کی کہ پروفیسر صاحب کے کمرے میں میری جو کتاب پڑی ہے ، جس پر انہوں نے قلم سے کچھ غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اگر تھوڑی دیر کے لیے وہ کتاب مجھے دے دیں تو عین نوازش ہو گی۔ وہ صاحب آئی پی ایس میں ہی ہوتے تھے۔ چند روز بعد میں آئی پی ایس کی لائبریری گیا تو وہ صاحب مجھے لے کر پروفیسر صاحب کے کمرے کی طرف چل دیے۔ میں نے سوچا ، اچھا موقع ہے ، پروفیسر صاحب شاید دفتر نہیں آئے ، تو وہیں کھڑے کھڑے کتاب کی ورق گردانی کر کے غلطیاں نوٹ کر لوں گا۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے توحیرت کا ایک جہاں سامنے تھا۔ پروفیسر صاحب سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ اور انہیں علم بھی تھا کہ میں کیوں آیا ہوں بلکہ یوں کہیے کہ ان کی اجازت سے ہی مجھے وہاں لے جایا گیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جن صاحب سے میں نے کتاب کی فرمائش کی تھی انہوں نے جا کر پروفیسر صاحب کو ساری بات بتا دی اور پروفیسر صاحب نے کہا انہیں بلا لیں اور میرے پاس لے آئیں۔ اب میں ان کے پاس بیٹھا تھا اور وہ میری اصلاح فرما رہے تھے لیکن اندازایسا تھا کہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا یہ اصلاح ہو رہی ہے۔ سالوں میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ تو صرف تحسین کر رہے تھے۔

پروفیسر صاحب سے یوں اہتمام سے تفصیل کے ساتھ میری یہ ا یک ہی ملاقات تھی۔ان کی تحریروں اور تقریروں سے البتہ گہرا رشتہ رہا ۔ ترجمان القرآن میں ان کی تحریر کا میں شدت سے انتظار کیا کرتا تھا۔ پھر وقت کا موسم دھیرے دھیرے بدلنے لگا۔ ان کی تحریریں بھی کم ہونا شروع ہو گئیں۔ اور میرے جیسے طالب علم بھی وقت کی نائو میں بہتے چلے گئے۔ چند ماہ قبل محترم سلیم منصور خالد صاحب نے واٹس ایپ کیا ۔ یہ پروفیسر صاحب خورشید صاحب کا ان کے نام ایک نوٹ تھا۔ یہ کشمیر پر میرا ایک انگریزی کالم تھاا ورپروفیسر صاحب نے سلیم منصور خالد صاحب سے اس کا اردو ترجمہ شائع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ میں کافی دیر یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ مجھے حیرت زیادہ ہے یا خوشی زیادہ۔ حیرت ، کہ پروفیسر صاحب عمر کے اس حصے میں علمی اور فکری طور پر اتنے فعال ہیں اور خوشی وہی جو ایک طالب علم کو استاد سے پذیرائی پر فطری طور پر ہوتی ہے۔ علمی وجاہت تو تھی ہی پروفیسر صاحب کی پارلیمانی زندگی میں رہنما حیثیت کی حامل رہی۔ ایوان میں کسی بھی مسئلے پر جب وہ بات کرتے تھے تو گویا اس موضوع پر مقطع ہوتا تھا۔ پارلیمانی قواعد و ضوابط پر بھی جو گرفت ان کو تھی شاید ہی کسی اور کو ہو۔ ایک بار چودھری شجاعت حسین صاحب نے بطور وزیر داخلہ ایوان میں کوئی بل پیش کیا، پروفیسر خورشید صاحب نے ا یک تکنیکی اعتراض کر دیا کہ یہ قواعد کے مطابق پیش نہیں کیا گیا۔

چودھری شجاعت حسین صاحب کو وہ بل دوبارہ پیش کرنا پڑا۔ پروفیسر صاحب نے کہا اس بار بھی قواعد کے مطابق پیش نہیں کیا گیا۔ چودھری صاحب نے تیسری بار کوشش کی اور پروفیسر صاحب نے اس پر بھی یہی اعتراض کر دیا۔ چودھری شجاعت حسین کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کریں۔ وہ چوتھی بار اٹھے اور مسکرا کر کہا: جناب چیئر مین سینیٹ ، میں بل کو ایک بار پھر پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اس مرتبہ یوں سمجھا جائے کہ یہ بل اسی طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے پروفیسرصاحب چاہتے ہیں۔ سارے ایوان میں قہقہ پھوٹ پڑا اور چیئر مین سینیٹ نے کہا: یہ بل اب چونکہ اسی طرح پیش کیا گیا جیسے پروفسیر صاحب چاہتے ہیں اس لیے اب یہ بالکل درست ہے۔خدا ان کی قبر کو منور فرمائے، ہماری سیاست میں اب کوئی ان جیسا کوئی صاحب علم باقی نہیں ہے ۔وہ اس تہذیبی سفر کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا)