مشتاق احمد بٹ سیکرٹری انفارمیشن حریت کانفرنس
انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی، پاکستان کی ترقی اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے وقف کر دی
ایک موثر مقرر اور بہترین منتظم کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا
وہ کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کے ایک مضبوط علمبردار تھے
ان کی زندگی سادگی، دیانت داری اور اخلاص کا بہترین نمونہ تھی
پروفیسر خورشید احمد مرحوم، جماعت اسلامی پاکستان کے ایک نہایت ہی معتبر اور بااثر رہنما، ایک بلند پایہ دانشور، اور تحریک اسلامی کے ایک سچے علمبردار تھے۔ ان کی زندگی علم، فکر، اور عمل کا ایک حسین امتزاج تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی، پاکستان کی ترقی اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے وقف کر دی۔ ان کی خدمات کا دائرہ وسیع و عریض ہے، جو علمی و فکری میدانوں سے لے کر سیاسی و سماجی جدوجہد تک پھیلا ہوا ہے۔ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کی خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
پروفیسر خورشید احمد3 مارچ 1932ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی اور پھر تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ انہوں نے لیسٹر یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، جس کا موضوع ’’نظریہ سود‘‘ تھا۔ ان کی علمی قابلیت اور تحقیقی صلاحیت کا جلد ہی اعتراف کر لیا گیا اور انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے جوانی میں ہی تحریک اسلامی سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے اور پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے مختلف کلیدی عہدوں پر فائز رہ کر تنظیم کو مضبوط کرنے اور اس کی دعوت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کی فکری بصیرت اور علمی گہرائی نے تحریک اسلامی کو ایک نئی جلا بخشی۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں اور مضامین لکھے جن میں اسلامی معاشیات، اسلامی نظام حکومت، اور عصر حاضر کے چیلنجز کے حوالے سے ان کے افکار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی تصانیف نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں استدلال کی مضبوطی، علمی استناد اور عصری مسائل کا اسلامی نقطہ نظر سے حل پیش کرنے کی صلاحیت نمایاں تھی۔

پروفیسر خورشید احمد نے ایک موثر مقرر اور بہترین منتظم کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے ملک کے طول و عرض میں اجتماعات اور کانفرنسوں سے خطاب کیا اور نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا اور انہیں تحریک اسلامی کے مشن میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ان کی تقاریر میں علم و حکمت، جوش و جذبہ اور اخلاص کا عنصر غالب ہوتا تھا، جس سے سامعین گہرا اثر لیتے تھے۔
انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی تحریک اسلامی کی نمائندگی کی اور مختلف اسلامی کانفرنسوں اور فورمز پر پاکستان اور عالم اسلام کے مسائل کو موثر انداز میں پیش کیا۔ ان کی بین الاقوامی سطح پر پہچان اور احترام ان کی فکری گہرائی اور استدلال کی قوت کا نتیجہ تھا۔
پروفیسر خورشید احمد کی زندگی کا ایک اہم پہلو تحریک آزادی کشمیر کے لیے ان کی بے مثال خدمات ہیں۔ وہ کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کے ایک مضبوط علمبردار تھے اور انہوں نے ہر فورم پر کشمیریوں کی آواز بلند کی۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
انہوں نے مختلف کانفرنسوں، سیمیناروں اور مذاکروں میں کشمیر کے تاریخی، سیاسی اور انسانی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور عالمی برادری کو اس دیرینہ تنازعہ کے حل کی طرف توجہ دلائی۔ ان کے خطابات اور مضامین میں کشمیریوں کے ساتھ ان کی گہری ہمدردی اور ان کے حقوق کے لیے مضبوط عزم کا اظہار ہوتا تھا۔
پروفیسر خورشید احمد نے مختلف وفود کی قیادت کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے عالمی رائے عامہ کو کشمیریوں کے حق میں ہموار کرنے کے لیے موثر انداز میں لابنگ کی اور اس سلسلے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اثر و رسوخ استعمال کیا۔ان کی یہ خدمات محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں تھیں، بلکہ انہوں نے عملی طور پر بھی کشمیریوں کی ہر ممکن مدد کی اور ان کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا۔ وہ کشمیری مہاجرین کے لیے امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے اور انہوں نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حوصلے کو بلند رکھنے کی کوشش کی۔


پروفیسر خورشید احمد کا یہ ایمان تھا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف زمین کا تنازعہ نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کے مستقبل کا سوال ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے احترام میں ہی ممکن ہے۔تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے علاوہ بھی پروفیسر خورشید احمد کی خدمات کا ایک وسیع دائرہ ہے۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں اور مختلف تعلیمی اداروں کے قیام اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے بانیوں میں سے تھے اور انہوں نے اس ادارے کو ایک معتبر عالمی یونیورسٹی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انہوں نے مختلف سماجی اور فلاحی تنظیموں کی سرپرستی کی اور معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ ان کی زندگی سادگی، دیانت داری اور اخلاص کا بہترین نمونہ تھی۔ وہ ایک متواضع اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے اور ہر طبقے کے لوگوں میں یکساں مقبول تھا۔پروفیسر خورشید احمد 13 اپریل 2025ءمیں 93برس کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں انتقال کر گئے۔ ان کا انتقال تحریک اسلامی اور پاکستان کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ تاہم ان کی علمی و فکری میراث اور ان کی جدوجہد کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کی تصانیف، ان کی تقاریر اور تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے ان کی بے لوث خدمات رہتی دنیا تک ان کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گی۔
پروفیسر خورشید احمد کی زندگی ایک ایسی شمع کی مانند تھی جس نے اپنی روشنی سے نہ صرف اپنے اردگرد کے لوگوں کو منور کیا بلکہ ایک پوری نسل کو علم، فکر اور عمل کی راہ دکھائی۔ ان کی زندگی اور خدمات ہمارے لیے ایک روشن مثال ہیں اور ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ کس طرح علم، اخلاص اور جدوجہد کے ذریعے ایک بامقصد زندگی گزاری جا سکتی ہے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر میں ان کی بے مثال خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اللہ تعالیٰ مرحوم پروفیسر خورشید احمد کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔آمین ثمہ آمین