پروفیسر خورشید احمد کی رحلت: ایک علمی و فکری عہد کا اختتام

چیف ایڈیٹر کے قلم سے

علم، دانش اور نظریاتی بصیرت کے روشن مینار، پروفیسر خورشید احمد ؒ اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کی وفات، نہ صرف علمی حلقوں کے لیے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ وہ ان چند شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی فکر اسلامی کی خدمت اور جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ اسلامی معیشت کے نظریات کو فروغ دینے میں صرف کی۔پروفیسر خورشید احمد کا شمار ان اسکالرز میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عملی، فکری اور تعلیمی زندگی کے ذریعے نسلوں کی راہنمائی کی۔ اسلامی معیشت کے موضوع پر ان کی تحقیقات اور تصنیفات عالمی سطح پر سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ نظریہ پاکستان کے فروغ میں ان کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔ وہ صرف ایک مفکر، معلم اور محقق نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ایسا چراغ تھے جس نے علم و فکر کی تاریک راہوں میں اجالاکیا۔ ان کی پوری زندگی اسلام، پاکستان اور امت مسلمہ کی خدمت کے لیے وقف رہی۔پروفیسر خورشید احمد نے نوجوانی ہی میں تحریک اسلامی کے ساتھ عملی طور پر وابستگی اختیار کی۔ وہ پاکستان کو قدرت کی طرف سے انسانوں کیلئے ایک انمول تحفہ سمجھتے تھے ۔وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’پاکستان کا قیام کسی جغرافیائی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی انقلاب کا اظہار ہے‘‘ ان کی فکر کی بنیاد اسلامی تعلیمات اور معاصر تقاضوں کے امتزاج پر استوار تھی۔ وہ جدید معیشت کو اسلامی اصولوں کے تابع کرنے کے داعی تھے، اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے علمی محاذ پر گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔
ان کی تصانیف، مقالات اور علمی لیکچرز نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اسلامی معیشت کے میدان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی علمی گہرائی، فکری پختگی اور مدلل اندازِ گفتگو نے ہزاروں طلبہ اور اسکالرز کو متاثر کیا۔ان کے مضامین اور تحقیقی مقالات نے اسلامی نظریاتی کونسل، تعلیمی اداروں اور پالیسی سازی کے حلقوں میں فکری بنیادیں فراہم کیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ان کے کام نے دنیا بھر میں اسلامی فکر کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔خصوصی طور پر مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پروفیسر خورشید احمد کی خدمات مثالی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف قومی و بین الاقوامی فورمز پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بھرپور وکالت کی بلکہ فکری و علمی میدان میں بھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی تحریریں اور تقاریر کشمیری مظلوم عوام کے حق میں آواز بلند کرنے کا استعارہ بن چکی تھیں۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس کے لیے علمی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر جدوجہد جاری رکھنا ناگزیر ہے۔پروفیسر خورشید احمد اور امام سید علی گیلانی ؒکا تعلق فکری، نظریاتی اور دینی بنیادوں پر گہرا تھا۔ دونوں شخصیات جماعت اسلامی سے وابستہ رہیں، پروفیسر خورشید احمد پاکستان میں جماعت اسلامی کے نمایاں فکری رہنما تھے، جبکہ امام سید علی گیلانیؒ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ایک اہم رہنما اور بعد ازاں تحریک حریت کے ایک سرکردہ قائد کے طور پر جانے جاتے تھے۔دونوں اسلام کو مکمل نظامِ حیات سمجھتے تھے اور اسلامی ریاست و معاشرے کے قیام کو اپنی جدوجہد کا مرکز قرار دیتے تھے۔سید علی گیلانی ؒنے اپنی سیاسی و تحریکی زندگی میں بارہا جماعت اسلامی پاکستان کے رہنماؤں، بالخصوص پروفیسر خورشید احمد جیسے نظریاتی اسکالرز کے ساتھ روابط قائم رکھے۔پروفیسر خورشید احمد، سید علی گیلانی ؒکی جدوجہد آزادی کشمیر کے نہ صرف حامی تھے بلکہ عالمی سطح پر ان کے مؤقف کی حمایت بھی کرتے تھے۔امام گیلانیؒ کے انتقال پر پروفیسر خورشید احمد نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور انہیں ’’تحریک آزادی کشمیر کا عظیم سپاہی‘‘ قرار دیا۔13اپریل 2025 کو پروفیسر خورشید ؒ ہم سے جدا ہوگئے ۔تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا دل ہمیشہ اپنی ملت، اپنے وطن اور مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ ان کی علمی خدمات، فکری میراث اور خلوص و محبت کا سلسلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔ماہنامہ ’’کشمیر الیوم‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ نہ صرف پروفیسر خورشید احمدؒ کی علمی و فکری خدمات کا اعتراف ہے بلکہ اس حقیقت کا بھی آئینہ دار ہے کہ کشمیری عوام ان سے دلی محبت رکھتی تھی اور ان کی رحلت کو ایک گہرا صدمہ تصور کرتی ہے۔ پروفیسر صاحب نہ صرف اس ماہنامے کے باقاعدہ قاری تھے بلکہ اس کے مضامین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ انہیں جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، اور ہمیں ان کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔