پروفیسر خورشید احمد ۔۔۔فکر و بصیرت کا مینار

ناصر قادری ایڈووکیٹ

صرف ایک علمی شخصیت کا انتقال نہیں بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے

وہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے فکری ورثے کے سچے امین، اور جدید اسلامی ریاستی فکر کے معمار تھے

وہ جانتے تھے کہ مفاہمانہ رویہ، مبہم بیانات، اور خالی الفاظ کا دور ختم ہو چکا ہے

یہ ان کی علمی وابستگی اور اخلاقی قوت ہی تھی کہ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود ان کی فکری مصروفیات ماند نہ پڑیں

پروفیسر خورشید احمدؒ کی 13 اپریل 2025 کو لیسٹر (برطانیہ) میں 93 برس کی عمر میں وفات، صرف ایک علمی شخصیت کا انتقال نہیں بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے۔ وہ مردِ درویش تھے جن کی تحریر میں فکری کاٹ، گفتار میں اصولی جرأت، اور طرزِ عمل میں اخلاقی استقلال تھا۔ وہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے فکری ورثے کے سچے امین، اور جدید اسلامی ریاستی فکر کے معمار تھے۔ ان کی ذات ایک ایسا پُل تھی جو روایتی اسلامی دانش اور جدید پالیسی فریم ورک کے درمیان ایک فکری ہم آہنگی پیدا کرتی تھی۔
پروفیسر خورشید احمدؒ 23 مارچ 1932 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور نوجوانی سے ہی تحریک اسلامی اور تعلیمی میدان میں سرگرم ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تعین میں حصہ لیا بلکہ 1970 کی دہائی میں بطورسینیٹر، پاکستان کی قانون سازی اور ریاستی پالیسیاں مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی کاوشیں صرف مقننہ میں نہیں بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی نمایاں رہیں، جس کی بہترین مثال انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کی بنیاد ہے۔ ان کی قیادت میں یہ ادارہ صرف ایک تھنک ٹینک نہیں بلکہ ایک اخلاقی و فکری قبلہ نما بن گیا۔
یہ ان کی علمی وابستگی اور اخلاقی قوت ہی تھی کہ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود ان کی فکری مصروفیات ماند نہ پڑیں۔ میں خود ان کے ساتھ سات سے زائد آن لائن علمی فورمز میں شریک رہا، جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر، امت مسلمہ کی پالیسی سازی، اور اخلاقی و قانونی مزاحمت پر مدلل، موثر اور عملی لائحہ عمل پیش کیے۔

خصوصاً 5 اگست 2019 کے بعد، جب بھارتی ریاست نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو غیرقانونی ضم کرنے کی کارروائی کی، پروفیسر صاحب کی فکری رہنمائی انتہائی جرأت مندانہ اور واضح تھی۔ لاہور سے شائع ہونے والے ’’ترجمان القرآن‘‘میں ان کے دو اہم مضامین اس وقت کے سب سے واضح فکری بیانات تھے، جن میں انہوں نے محض احتجاج نہیں کیا بلکہ مسئلے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت، تاریخی پس منظر، اور پاکستان کی پالیسی کی ناکامیوں کا گہرا تجزیہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اپنی کشمیر پالیسی کو محض بیانات سے نکال کر عملی اور اصولی حکمت عملی میں تبدیل کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق سیاسی اور گوریلا قیادت کو ایک مشترکہ اور باقاعدہ تحریکِ آزادی کے سانچے میں جوڑنا ضروری ہے، کیونکہ یہ مزاحمت قانونی، اخلاقی، اور بین الاقوامی سطح پر جواز رکھتی ہے۔

ان کی 2016 میں شائع ہونے والی کتاب تحریکِ آزادی کشمیر: بدلتے حالات اور پاکستان کی پالیسی میں انہوں نے شہید مقبول بٹ اور افضل گورو کی پھانسی کو ریاستی دہشتگردی کی بدترین شکل قرار دیا، اور واضح کیا کہ کشمیری قوم پاکستان سے محبت اور خونی رشتے رکھنے کے باوجود، پاکستان کی غیر مؤثر اور مبہم کشمیر پالیسی سے مایوس ہو چکی ہے۔ وہ 2013 سے ہی اس بات کے داعی رہے کہ پاکستان کو دو طرفہ طرزِ سفارت سے ہٹ کر سہ فریقی (trilateral-centric) پالیسی اپنانی چاہیے، جس میں کشمیریوں کو بنیادی فریق تسلیم کیا جائے۔ اسی تسلسل میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ مزاحمتی گروہوں کی ازسرِنو تنظیم اور فکری توانائی کی ضرورت ہے تاکہ تحریک ایک مربوط اور موثر رخ اختیار کرے۔
یہ بات دہائیوں کی نہیں بلکہ آخری ایام تک ان کی فکری فعالیت کا مظہر ہے کہ وہ کمزور جسمانی حالت میں بھی علمی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ انہوں نے ہمیشہ واضح الفاظ میں یہ باور کرایا کہ بھارت کی پالیسیاں محض جغرافیائی قبضے تک محدود نہیں بلکہ تہذیبی، تاریخی، اور ثقافتی شناخت کے خاتمے کی ایک ہمہ گیر کوشش ہیں۔ ان کے مطابق، مسئلہ کشمیر پر صرف ہمدردی کافی نہیں بلکہ اخلاقی، قانونی، اور سیاسی سطح پر بے باک اقدام ناگزیر ہے۔

انہوں نے وزارتِ خارجہ، پالیسی ساز اداروں، اور پارلیمنٹ کو خطوط لکھے، تجاویز دیں، اور کشمیر کمیٹی میں علامتی شرکت کی بجائے حقیقی فکری قیادت کو ترجیح دی۔ وہ جانتے تھے کہ مفاہمانہ رویہ، مبہم بیانات، اور خالی الفاظ کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ان کا وژن دور رس، گہرا، اور ہمہ جہت تھاجس میں قانون، ایمان، اخلاق، اور سفارت ایک جامع مزاحمتی حکمتِ عملی میں ڈھلے ہوئے تھے۔
پروفیسر خورشید احمدؒ واقعی ایک scholar-statesman تھے۔ایک ماہرِ معیشت جن کی تحریر روحانی اضطراب سے مزین تھی، اور ایک پالیسی ساز جو نبوی صداقت سے بات کرتے تھے۔ ان کی وفات صرف ایک دانشور کا جانا نہیں بلکہ امت کے ایک چراغ کا بجھ جانا ہے۔ ان کی زندگی مولانا مودودیؒ کے احیائی فکر اور جدید ریاستی شعور کے درمیان ایک متوازن پل تھی—جہاں فکری وراثت، عملی حکمت، اور سیاسی حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھا۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، اور ہمیں ان کے علمی و فکری ورثے کو اخلاص اور جرأت کے ساتھ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین