پنڈتوں کی کہانی۔۔۔پنڈتوں کی زبانی

کشمیری پنڈت اعلیٰ ذات کا ہندو تصور کیا جاتا ہے۔تر دماغ اور خوبصورت مکھڑے والی یہ پنڈت برادری آج وادی کشمیر کی جنت سے جگ موہن کی مہربانیوں سے نکل کر جموں اور بھارت کے مختلف گرم علاقوں کی تپتی اور آگ اگلتی ہوئی سرزمین میں مقیم ہے۔1947میں جب پورے برصغیر میں ہندو اور مسلم کے نام پر خون بہایا گیا،وادی کشمیر میں ان کشمیری پنڈتوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی عزت و آبرو کا تحفظ بھی کیا۔گاندھی جی کواسی بنیاد پر یہ اعتراف کرناپڑاکہ” کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی ہے”کشمیری پورے بر صغیر کو احساس دلاتے رہے کہ کسی نہتے انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔چاہے مقتول کا تعلق کسی بھی مذھب سے ہو۔1987کے انتخابات میں بھارتی حکومت کی بدترین دھاندلی کے نتیجے میں کشمیری قوم میں یہ احساس شدت سے ابھرا کہ ان کا حق خودارادیت کا خواب انتخابات میں شرکت سے کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ بھارت آئین و قانون کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔اس انتخاب نے کشمیری عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک شدید نفرت نے جنم لیا،1989میں اس نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔۔بھارتی ایوانوں کو آگ لگانے کی نعرہ بازی شروع ہوئی۔”ہم کیا چاہتے۔۔آزادی”کے فلک شگاف نعروں کی گونج ہر طرف سے سنائی دینے لگی۔گلی کوچوں،گاؤں شہروں میں صرف ایک آواز کا غلغلہ تھا “بھارتی غاصبو۔۔وطن ہمارا چھوڑ دو۔۔۔۔۔چھین کے لیں گے آزادی”
کشمیری پنڈت برادری ان نعروں سے خوفزدہ نہیں تھی کیونکہ یہ نعرے نئے نہیں تھے۔شیخ عبداللہ نے ۲۲ سال تک ایک بے مثال تحریک چلائی تھی اور گلی گلی قریہ قریہ اس دوران یہی نعرے لگتے تھے۔پنڈت لوگ خوشی خوشی زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں انتظار تھا اس تحریک کی کامیابی کا،کیونکہ کشمیرصرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ جموں کشمیر میں رہنے والی ہندو برادری بھی کشمیری ہی کہلاتی ہے اور وہ ان کی بھی سرزمین ہے۔1990میں یہ تحریک اپنے عروج کی طرف جارہی تھی اور بھارت سرکار کواندازہ ہوا کہ اس تحریک کو کو سختی سے کچلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور جب سختی ہوگی تو ہندو اور مسلمان کے درمیان پہچان کرنا مشکل ہوگا۔اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر ریاستی گورنر جگموہن کو کام سونپا گیاکہ وادی سے پوری ہندو آبادی کو جموں او ربھارت کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرے اور پھر بزور طاقت مسلم آبادی کو اپنا حق آزادی مانگنے کے جرم سے باز رکھے۔جگ موہن کیلئے یہ مشکل کام نہیں تھا۔بلکہ انہیں اس کا خوب تجربہ اس وقت حاصل ہوا تھاجب 1975میں دہلی کے گورنر کی حیثیت سے ایمرجنسی قوانین کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکمان گیٹ دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کو اس نے بے گھر کردیا تھا اور بستیوں کی بستیاں بلڈوز کی تھیں۔جگ موہن نے کشمیر ی ہندو تنظیوں کو اعتماد میں لیا،ان کے ساتھ وعدے کئے گئے کہ انہیں باہر آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔۔دنیا کی ہر نعمت انہیں فراہم کی جائیگی۔انہیں صرف چند مہینے باہر گذارنے ہونگے۔پھر وہ ہونگے اور ان کا وطن ہوگا۔چند مہینوں کا معاملہ ہے۔بھارتی حکمرانوں کو اس سے دو طرح کے فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی۔ایک یہ کہ تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے گا اور دوسرا آزادی پسندوں کا بلا کسی امتیاز کے خاتمہ کیا جاسکے گا۔کئی کشمیری پنڈتوں نے معروف اُردو اخبار روزنامہ الصفا میں مہاجرت کے صرف چند مہیوں بعد وادی سے فرار ہونے کے عمل کو غداری کے مترادف قرار دیا اور کشمیری عوام سے معافی مانگ لی۔ان کشمیری پنڈتوں کا ایک مشترکہ خط 22ستمبر1990کے الصفا میں شائع ہوا۔خط کے صرف دو اقتباسات جن سے اندازہ ہوگا کہ ظالم کون اور مظلوم کون۔۔لکھتے ہیں۔۔” یہ ہمیں تسلیم کرتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ نہ صرف ہم نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی جنہوں نے صدیوں سے ہمیں عزت دی،پیار دیا۔ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں ہم شامل رہے حالانکہ ہمیں اس تحریک کا ایک حصہ بننا چاہئیے تھا۔” آگے لکھتے ہیں “جموں اور بھارتی شہروں کی مقامی آبادی ہمیں حملہ آور سمجھتی ہے اور اسی انداز کا سلوک ہمارے ساتھ کرتی ہے۔دودھ،سبزی اور روزمرہ کی دیگر اشیاء مہنگے داموں ہمیں خریدنی پڑتی ہیں۔۔ہمارے بچے آوارہ بن چکے ہیں کیونکہ سڑکوں پر گھومنے کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں۔اس علاقے کے لوگوں کا ہماری خواتین کے بارے میں یہ قابل شرم تصور ہے کہ پیسے کی خاطر وہ اپنی عصمت بیچ سکتی ہیں۔”۔۔۔اللہ رحم فرمائے۔

٭٭٭